جے امت شاہ کی کمپنی پر رپورٹ لکھنے والی صحافی روہنی سنگھ کہتی ہیں، ‘جب رابرٹ واڈرا والی خبر کی تھی تب انہی بی جے پی لیڈروں نے تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے بہت بہادری کا کام کیا ہے۔’
میں نے اپنا کام کیا ہے۔ کوئی بہادری نہیں، یہی صحافت ہے۔ یہی تو صحافیوں کا کام ہے کہ موجودہ حکومت کے کاموں پر سوال کریں۔ یہی صحافت کابنیادی فریضہ ہے، جو ہمیں سکھائے جاتے ہیں۔ مجھے یا دی وائر یا کسی کو بھی ایسا نہیں لگتا کہ ہم کوئی بہادری کا کام کر رہے ہیں، ہم بس ایک رپورٹ پر کام کر رہے تھے، جس کو صحافت کہتے ہیں۔میں نے اس رپورٹ پر بہت محنت کی ہے۔ رجسٹرار آف کمپنیز (آر او سی) سے دستاویز وں کو ڈاؤن لوڈ کرکے مطالعہ کیا۔ ہاں، یہ نہیں بتا سکتی کہ خبر کا ماخذ کیا ہے اور خبر کہاں سے ملی۔ لیکن آر او سی سے دستاویزوں کو نکالکر ان کو پڑھنا، سمجھنا اور مطالعہ کرنا وہ سب میں نے مدیران کی مدد سے پورا کیا ہے۔
یہ کہانی صرف اس لئے اہم ہے کیونکہ ہم ایک اہم شخص کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہم نے کوئی الزام نہیں لگایا ہے۔ یہ سارے دستاویز آر او سی کے ہیں۔ ہم نے صرف حقائق کو سامنے رکھا ہے۔ جس دور میں ہم جی رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ صحافت کس طرح سے ہو رہی ہے، اس دور کے لئے یہ ایک اہم خبر ہے۔موجودہ حکومت سے سوال کرنا ضروری ہوتا ہے، مگر ہم نے نہیں سوچا تھا کہ اتنا بڑا اثر ہوگا۔ ہمیں حکومت کی پالیسیوں کا تجزیہ کرنا چاہیے، اس پر نظر رکھنی چاہیے کہ پالیسیاں نافذ کس طرح سے ہو رہی ہیں۔ جو وعدے حکومت نے کئے ہیں وہ پورے ہو رہے ہیں یا نہیں۔ ان سب پر نظر رکھنا ہی صحافت ہے۔
میں صرف بی جے پی کی حکومت کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ یہ میں نے یو پی اے کے اقتدار کے دوران بھی کیا تھا۔ رہی بات دباؤ کی تو اس طرح کی کہانیوں کو کرنے میں ہمیشہ دباؤ رہتا ہے لوگ آپ کو فون کرکے بھی کہتے ہیں کہ اس پر خبر مت کرو۔اس خبر کے لئے تو مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ ‘ محفوظ رہنا ‘۔ مجھے نہیں پتا کہ محفوظ رہنے سے ان لوگوں کا کیا مطلب تھا۔ لوگ آپ سے کہتے ہیں کہ اس خبر کو کرنے کے برےاثرات ہو سکتے ہیں۔ غلط نتائج ہو سکتے ہیں۔
مجھے بھی اس بات کی جانکاری ہے۔ میں نے ٹوئٹر اس لئے چھوڑا کیونکہ پہلے بھی میرے خلاف غلط باتیں پھیلائی گئی ہیں۔ اس لئے مجھے لگتاکہ ٹوئٹر چھوڑنا بہت اچھا فیصلہ رہا۔ کیونکہ جو لوگ حقیقت نہیں جانتے وہ بھی بولیںگے اور جن کو ٹرول کرنا ہے، سلینڈرکرنا ہے، وہ کریںگے ہی۔لیکن اس خبر کو کرنے میں جتنا دباؤ تھا اتنا کبھی نہیں دیکھا۔ جیسے میں نے پہلے رابرٹ واڈرا پر خبر کی تھی تب اس طرح کا دباؤ نہیں تھا۔ وہ خبر بہت آسانی سے کی اور کرنے کے بعد اس طرح کا رد عمل نہیں دیکھنے کو ملا۔اس سے پہلے میں نے آنندی بین پٹیل کی بیٹی پر خبر کی تھی پر اس میں بھی اتنا دباؤ نہیں تھا۔ مگر اس خبر کو کرنے کے بعد جو رد عمل مل رہے ہیں ان کی وجہ سے میں حوصلہ مند ہوں۔
میں عام طور پر سوشل میڈیا میں کچھ لکھتی نہیں ہوں۔ فیس بک اور ٹوئٹر میرے ذاتی اکاؤنٹ ہیں ،لیکن مجھے یہ لکھنا پڑا کیونکہ جس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں اور بطور ‘ خاتون صحافی ‘ مجھے لگتا ہے خواتین پر ہمیشہ نشانہ سادھا جاتا ہے۔ایک مضبوط عورت کو کوئی پسند نہیں کرتا جو کہے ‘ میں بس اپنا کام کر رہی ہوں۔ ‘ جس طرح کے رد عمل خاتون صحافی کو جھیلنا پڑتے ہیں وہ کبھی مرد صحافیوں کو نہیں جھیلنا پڑتا۔ اس لئے مجھے اپنے جواب میں جو بولنا تھا میں نے فیس بک پر بول دیا۔
رابرٹ واڈرا پر جب خبر کی تھی تب نہ تو سوشل میڈیا اتنا فعال تھا نہ حکومت کی طرف سے اتنا دباؤ تھا کہ وزیر آکر ایک ویب سائٹ اور صحافی پر نشانہ سادھ رہے ہیں۔ نہ ہی کوئی ہتک عزت کا مقدمہ ہوا نہ ہی کبھی آگے کام کرنے میں دقت ہوئی۔ میں نے آرام سے 2جی اور کامن ویلتھ پر خبریں کی۔اس وقت بی جے پی کے انہی وزیروں کے فون آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی صحافی نہیں کرتا آپ نے بہت بہادری کا کام کیا ہے اور مجھے بہت مبارکباد دے رہے تھے۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ کوئی میری تعریف کرے میں بس اپنا کام کر رہی ہوں۔
میں بس صحافت کی آزادی چاہتی ہوں۔