جموں و کشمیر میں جہاں عام لوگ پہلے ہی نامساعد حالات کے بھنور میں تکالیف کے شکار ہیں، حالیہ عرصہ میں ایک نئی مصیبت نے خوف و دہشت کی ایک نئی عبارت رقم کی ہے ۔ وادی کشمیر اور اس سے متصل جموں کے علاقوں سے کسی نادیدہ مخلوق کی طرف سے رات کے اندھیرے میں خواتین کے بال یا چوٹیاں کاٹنے کی پراسرار وارداتوں کی متواتر خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ اس طرح کے واقعات چند ماہ قبل سب سے پہلے دارلحکومت دہلی سے متصل مشرقی اتر پردیش اور بعد میں ہریانہ اور جموں سے موصول ہوئے ۔ مگر یہ اکا دکا واقعات تھے۔
ریاست میں اس شیطانی کا رستانی کی پہلی دستک سانبہ جموں میں سنی گئی جہاں22اگست کو اشوک کمار کی 10 سالہ بیٹی کا جوڑا رسوئی میں تراشا گیا ،اس معصوم بچی کو پہلے بے ہوش کر دیا گیا تھا۔اس کے فوراً بعد خوف و دہشت کایہ سلسلہ یکم ستمبر کو راجوری پہنچا جہاں برلب سڑک ایک عورت کو بے ہوشی کی حالت میں پا یا گیااور اس کے لٹ کاٹے گئے تھے۔جموں کے بعد درندگی کی اس لہر نے وادی کشمیر کا رخ کیا۔چونکہ کشمیر میں فی الحال ان واقعات کا محور جنوبی کشمیر ہے، جو پچھلے ایک سال سے برھان وانی کی ہلاکت کے بعد سے سراپا احتجاج ہے، کسی سازش کی بو کا آنا لازمی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ کوئی منظم گروہ دہلی سے روانہ ہوکر اتر پردیش، ہریانہ اور جموں کے راستے وارد کشمیر ہوا ہے۔ گو کہ پولیس اور ریاستی انتظامیہ نے ملوثین کو پکڑنے کےلئے تین لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے، مگر جس خطہ میں حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کی خلیج سمندر سے بھی زیادہ وسیع ہو، وہاں افواہیں اور قیاس آرائیاں طاقت پرواز پر زیادہ قادر ہوتی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق رات کے 8بجے ٹھوکر پورہ کیموہ میں جب جمیلہ بانو زوجہ منظور احمد بٹ دودھ لینے کیلئے گھر سے نکلی، اس دوران اس پر سپرے کیاگیا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ جب راہ چلتے لوگوں نے اسے اٹھایا تو اس کے بال کاٹے گئے تھے۔ادھرمٹن کی رہنے والی ایک دسویں جماعت کی طالبہ سمیرا بانو اپنے گھر میں بیٹھی تھی تو اس دوران ایک شخص ان کے گھر میں داخل ہوا اور پانی کا ایک گلاس مانگا۔لڑکی کے مطابق اس نے جیسے ہی اسے پانی پینے کیلئے دیا تو اس دوران اس پر سپرے پھینکی گئی اور پھر اس کے بال کاٹے گئے۔ایساہی واقعہ کہری بل مٹن میں پیش آیا۔یہاںچھٹی جماعت کی لڑکی ہاجرہ دختر فیاض احمد بخشی کے بال کاٹے گئے۔ادھر براکہ پورہ نوگام میں بھی نامعلوم افراد نے پراسرار طور پر ایک لڑکی کی چوٹی کاٹ دی۔شہزادہ اختر زوجہ خورشید احمد کے مطابق وہ پانی لانے گھر کے قریب ایک نل پر گئی ہوئی تھی تو اس دوران اس کے سامنے ایک نامعلوم شخص کھڑا ہو گیا جس نے اس پر کوئی سپرے پھینک دی جس کے نتیجے میں وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی ۔ خاتون کے مطابق جب اسے ہوش آیا تو اس کے بال زمین پر پڑے تھے۔دریں اثنا ہانجی گنڈ چاڑورہ میں بدھ کی شام ایک عمر رسیدہ خاتون زبیدہ بیگم کے بال کاٹے گئے۔ شوپیان کے ترکہ وانگام دراز پورہ علاقے میں بھی ایک خاتون کی چوٹی کاٹنے کی ناکام کوشش کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں اسطرح کے محیرالعقول واقعات کا ظہور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میرے آبائی قصبہ سوپور میں بزرگ بتاتے ہیں کہ کس طرح 1971کی ہندوستان ۔پاکستان جنگ سے قبل خاص طور پر شمالی کشمیر میں آگ کی پراسرار وارداتیں رونما ہوتی تھیں۔ اس کے ایک سال بعد اس قصبہ نے جب جماعت اسلامی سے وابستہ سید علی گیلانی کو اسمبلی کےلئے منتخب کیا توماہی گیروں کا ایک محلہ مسلم پیر انکی حمایت میں پیش پیش تھا۔ اسکے فوراً بعد یہ پورا محلہ آتش زنی کا شکار ہوگیا اور راتو ں رات غریب ماہی گیر نان و شبینہ کے محتاج ہوگئے۔جب کشمیر سے نادیدہ مخلوق کی طرف سے خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کی وارداتوں کی خبریں متواتر موصول ہونے لگیں، تو میں نے اپنی پرانی فائلز کھنگالنی شروع کی۔
1993 میں بھی کشمیر میں اسی طرح ایک نادیدہ مخلوق نے بھوت بن کر خوف و دھشت مچائی تھی۔ یہ مخلوق نقاب اور سیاہ لباس میں ملبوس رات کے اندھیرے میں بستیوں میں نمودار ہوکر ڈرانے کا کام کرتی تھی۔یہ وہ دور تھا جب لا اینڈ آرڈر کا نظام کشمیر میں پوری طرح مفلوج تھا۔ ان واقعات میں بھوت کی دہشت اور ان کو پکڑنے کی کوشش میں کئی افراد کی جانیں بھی چلی گئیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب سرینگر کے مہجور نگر میں رات کے اندھیرے میں مقامی نوجوانوں نے بستی میں نمودار ہوئے بھوتوں کا تعاقب کیا تو ان میں سے ایک نے مقامی اسکول میں پناہ لی۔ ہجوم نے اسکول کو گھیرے میں لیا۔ چند نوجوانوں نے جراٰت کا مظاہرہ کرکے جونہی اسکول میں گھسنے کی کوشش کی، فضا فائرنگ کی آوازوں سے گونجنے لگی۔ اگلے دن فوج نے پورے علاقہ کا محاصرہ کرکے46افراد کو حراست میں لیا۔ چند روز بعد جب میں نے رپورٹنگ کی غرض سے اس علاقہ کا دورہ کیا تو 16افراد جن میں بیشتر وہ نوجوان تھے، جنہوں نے بھوت کو پکڑنے کو کوشش کی تھی یا لوگوں کو تعاقب کرنے کی ترغیب دی تھی، حراست میں ہی تھے۔
اگست 1993میں گاندر بل کے عبد العزیز کے قصہ نے بالآخر بھوت کا راز فاش کیا اور یہ قصہ اختتام کو پہنچا۔ رات کے اندھیرے میں کھیتوں میں پانی دینے کے بعد عبد العزیز گھر لوٹ رہا تھا، کہ نقاب اور سیاہ لباس میں ملبوس بھوت نے اسپر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ بھاگنے کی را ہیں مسدود دیکھ کر عبد العزیز نے اپنے دفاع میں بیلچہ سے بھوت کے سر پر وار کرکے اسکو زمین پر گرادیا۔ بھوت کی بدقسمتی کہ لندن سے شائع ہونے والے اخبار ”دی انڈیپنڈنٹ“ کے نامہ نگار ٹم میک گرک اس وقت اسی علاقہ میں موجود تھے۔ پورا دن کسی اسٹوری کو کھوجتے ہوئے اور رات کے کرفیو اور بندشوں کی وجہ سے وہ شاید واپس سرینگر ہوٹل لوٹ نہیں پائے تھے۔ اسلئے جوں ہی بھوت بے ہوش ہوگیا، برطانوی نامہ نگار کی موجودگی میں اسکا نقاب اتارا گیا اور جامہ تلاشی لی گئی۔ معلوم ہو ا کہ بھوت کوئی اور نہیں بلکہ ب ہندوستان کی بارڈر اسکیورٹی فورس یعنی بی ایس ایف کا اہلکار کلدیپ سنگھ سروس نمبر88688127 ہے۔ اسکو فوراً پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ۔قد دراز کرنے اور مکانوں سے چھلانگیں لگانے کےلئے اس اہلکار نے خاصے اونچے مخصوص اسپرنگ لگے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ گاندر بل کے تھانہ میں اسکی ایف آئی آر ابھی بھی درج ہے۔
ظاہر سی بات تھی، کہ اس کی تفتیش جموں و کشمیر پولیس کے بس کی بات نہیں تھی۔ باقی شبہہ اگلے دن بی ایس ایف نے خود دور کیا۔ پہلے انہوں نے پولیس اسٹیشن سے اپنے اہلکار کو چھڑوایا بعد میں عبد العزیز کے گھر پر دھاوا بو ل کر افراد خانہ کو حراست میں لیا۔ چند روز بعد عبد العزیز کو رہا کر دیا گیا،مگر اسکا بیٹا کئی ماہ تک بی ایس ایف کی حراست میں رہا۔ جب یہ روداد اگست 1993کے لندن انڈیپنڈنٹ میں شائع ہوئی ، تو ہندوستانی حکومت سیخ و پا ہوگئی۔ برطانیہ میں مقییم اسوقت کے نائب ہائی کمشنر کے وی راجن نے اخبار کے نام احتجاجی مکتوب میں اس اسٹوری کو نامہ نگار کی ذھنی اختراع اور تخلیق کا نمونہ بتایا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بھوت اس کے بعد ایسے غائب ہوگئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ چاہے1970کی آگ زنی ہو یا 1983میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں یا 1993کے بھوت یا اب خواتین کے بال کاٹنے والے واقعات ، ملوثین کو حکومت نے کبھی بھی بے نقاب کیا نہ ہی تفتیش منطقی انجام تک پہنچائی۔ اسلئے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے، کہ شاید خفیہ ادارے کسی بڑے آپریشن کےلئے کوئی مشق کر رہے ہوں۔ 1970 کی آگ زنی کے واقعات پر اب ریٹائرڈ ہوئے افسران نجی محفلوں میں اکثر کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے میں تحریک آزادی کی معاونت کےلئے گوریلا دستوں اور خفیہ اہلکاروں کو کاروائیوں کےلئے مشق کروائی جا رہی تھی۔
کئی دہائیوں سے کشمیر تو ویسے ہی سیکورٹی کے اداروں کےلئے ایک لیبارٹری کا کام کرتا ہے۔ ب ہندوستان کے ایک اہم خفیہ ادارے کے سابق اعلیٰ ا فسر آنجہانی ایم، کے ، دھراکثر نجی محفلوں میں ایک واقعہ سناتے تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب”مشن ٹوپاکستان“ میں اس کا بلاواسطہ ذکربھی کیا ہے۔ گو کہ یہ کتاب ناول کی طرح لکھی گئی ہے۔ مگر دھر کے بقول اس کا پلاٹ اور کیریکٹر حقیقت پر مبنی ہیں۔ ان کے مطابق 60کی دہائی میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے حساس اداروں کے افسران کی میٹنگ طلب کی گئی۔ کئی تجاویز سامنے آئیں۔ لیکن ایک نوجوان مگر جہاںدیدہ افسر کی تجویز کہ پاکستانی شہر کراچی میں مسلکی منافرت کو شہ دیکر پاکستانی ایجنسیوں کا دماغ ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے، سب کے من کو چھو گئی۔خفیہ ایجنسی کے تمام افسران اس تجویز پر متفق ہوگئے لیکن اتنے اہم اور حساس آپریشن کیلئے معقول افراد کا انتخاب اور ان کی بھرتی ٹیڑھی کھیر ثابت ہورہا تھا۔
ایک تجویز یہ بھی تھی، کہ اس آپریشن کیلئے سکیورٹی ایجنسیوں میں موجود ہندوستانی مسلم اہلکاروں کو مامور کیا جائے۔ مگر ادارے کے سربراہ نے اس تجویز کو سختی کے ساتھ رد کردیا۔اس ادارے میں ابھی تک بھی آپریشنل خدمات کیلئے مسلمانوں کو بھرتی نہیں کیا جاتا۔ایم کے دھر مزید لکھتے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے حکم دیا کہ شدت پسند نظریات رکھنے والے ہندو نوجوانوں کی ٹیم تیار کی جائے جو آخری دم تک آپریشن کے وفادار رہیں۔تلاشی کی اس مہم کے بعد منتخب افراد کی ایسی تربیت کا انتظام کیا گیا کہ وہ دین اسلام کے باریک سے باریک نکات سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ ان پر جید عالم کی طرح بحث مباحثہ کر سکیں۔ ان کی ابتدائی تربیت دہلی سے متصل ایک فارم ہاﺅس میں شیام پروہت المعروف مولوی رضوان نامی افسر نے کی۔حساس ادارہ جوائن کرنے سے پہلے پروہت کسی شدت پسند ہندو تنظیم کاسرگرم رکن تھا اور دین اسلام کے متعلق اس کی معلومات قابل رشک تھیں۔ابتدائی تعلیم کے بعد پروہت نے اپنے ایک شاگردگوتم رے المعروف مہم خان کو مزید تعلیم کیلئے دیوبند بھیجا۔ جہاں اس نے مناظرہ میں خاصی مہارت حاصل کی۔
فراغت کے بعد ٹریننگ کے ایک حصہ کے طور پر خان صاحب نے بریلی جاکر علمائے بریلی کو مناظرہ کی دعوت دی۔ مگر مناظرہ سے ایک رات قبل رے صاحب داد عیش دینے ایک طوائف کے کوٹھے پر جاپہنچے۔ طوائف اس بات پر حیران و پریشان تھی کہ بظاہر مولوی کی صورت والا یہ شخص آخر غیر مختون کیوں ہے ؟فراغت کے بعد جب اس نے یہ بات اس دلال سے پوچھی جو مسٹر رے یا خان صاحب کو لایا تھا تو وہ بھی حیران و پریشان ہوگیا اور سیدھا خان صاحب کا تعاقب کرتا ہوا ان کے قیام گاہ تک پہنچ گیا۔ اس کی حیرت کی مزید انتہا نہ رہی جب اسے معلوم ہوا کہ یہ جید مولوی صاحب تو اس علمائے دیوبندکے وفد میں شامل ہیں جو علمائے بریلی کے ساتھ مناظرہ کرنے آیا ہے۔یہ بات اس نے علمائے بریلی کو جاکر بتادی۔ بات پھیل گئی کہ دیوبندی ختنہ نہیں کراتے ‘ شہر میں فساد برپا ہوا۔ صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خان صاحب یا مسٹر رے پہلی ہی بس میں سوار ہوکر دہلی فرار ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد دیوبند سے ساتھ آئے دیگر سیدھے سادھے مولویوں کا کیا حشر ہوا‘ دھر صاحب نے اس سے پردہ نہیں اٹھایا‘ مگر ان کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے بعد چیف صاحب کا پہلا حکم تھا ، کہ ایسے آپریشنز کیلئے بھرتی کئے گئے اہلکاروں کا سب سے پہلے ختنہ کرایا جائے۔گو کہ اس واقعہ کا کشمیر کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے، مگر اس سے خفیہ تنظیموں کے طریقہ کار کا ہلکا سا اندازہ ہوتا ہے۔
کشمیر تو پوری طرح خفیہ اور سیکورٹی اداروں کے نرغے میں ہے۔ وہاں کے المیوں اورستموں کی داستان بھی بہت طویل ہے۔ موجودہ واقعات بھی اسی شرمناک سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے ۔ مگر یہ ایجنسیا ں بھول جاتی ہیں کہ کشمیرکی نئی پود جس نے نوے سے آنکھ کھولی ہے اور نامساعد حالات کے بھنورمیں پلی بڑھی ہے، حالات کے جبر سے سمجھوتہ کر کے خاموش رہنا ان کا وطیرہ نہیں ۔ اور نہ ہی یہ اپنے گرد وپیش ظلم و جبر کی مہیب داستانوں کو تماشائی کی نظر سے دیکھ کر آگے بڑھنے کے روادار ہیں بلکہ یہ بے انصافی کرنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حساب مانگنے کا فن جانتے ہیں۔ اس سے پیشتر یہ خط مزید عدم استحکام کا شکار ہوجائے ، ضرورت اس بات کی ہے، کہ مسئلہ کے دائمی حل کےلئے سیاسی پیش رفت کے دروازے کھولے جائیں۔ عوام کو خوف و دہشت میں مبتلا رکھنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر