ملک کے مختلف صوبوں میں اسمبلی انتخابات اور پھر اس کے بعد 2019 میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ وقت سے پہلے ہی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر افواہوں کا بازار گرم ہے۔ اے بی پی نیوز نے اپنی ویب سائٹ پر 30 اگست 2017 کو گجرات الیکشن کے تعلّق سے ایک اوپینین پول کی ویڈیو اپلوڈ کی تھی ۔ اس ویڈیو میں ایک سروے کے حساب سے بی جےپی کو 152-144 سیٹیں اور کانگریس کو 32-26سیٹیں مل رہی ہیں۔ یہ سروے اے بی پی نیوز اور لوک نیتی (سی ایس ڈی ایس) نے کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر بی جے پی اور کانگریس کی سیٹوں کو آپس میں تبدیل کر دیا گیا اور اس افواہ کو عام کیا گیا کہ سی ایس ڈی ایس کے سروے میں بی جے پی کو شکست ہونے والی ہے۔
اس ہفتے عام کی گئی دوسری فیک تصویر وہ تھی جس میں ایک سیاسی رہنما کانگریس صدر سونیا گاندھی کے پیر چھو رہے ہیں ۔ یہ تصویر گیٹی امیجز لائسنس (Getty Images License) میں موجود ہے جس میں پیر چھونے والے شخص کو ‘رہنما’ کہا گیا ہے لیکن اس تصویر کو جنوری 2017 کے بعد اب دوبارہ اکتوبر میں یہ کہہ کر عام کیا گیا کہ پیر چھونے والے شخص سا بق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں جنہوں نے یہ فعل انجام دے کر وزیراعظم کے منصب کی توہین کی تھی۔
سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے اس جھوٹ کو پہلے بھی رد کیا تھا جب پیر چھونے والے شخص کو نوجوت سنگھ سدھوبتایا گیا تھا اور اس ہفتے بھی رد کیا۔
سوشل میڈیا میں تیسری جعلی اطلاع بھی نگریس سے متعلق تھی۔ کانگریس کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر 10 اکتوبر کو ٹوئٹ کیا گیا کہ آج کے دن سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے ودیا ساگر سیتو نام کے پُل کا افتتاح کیا تھا ۔ سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے جب اس ٹوئٹ پر کانگریس کو آگاہ کیا کہ یہ غلط ہے تو اس ٹوئٹ کوہٹا لیا گیا اور نیا ٹوئٹ کیا گیا جس میں یہ واضح ہوا کی پُل کا سنگ بنیاد اندرا گاندھی نے رکھا تھا اور افتتاح نر سمہا راؤ نے کیا تھا۔
ہفتے کی چوتھی جعلی خبر بھی کانگریس سے ہی تعلّق رکھتی ہے اور اس میں راہل گاندھی کو بدنام کرنے یا اُن کا مذاق بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق راہل گاندھی گجرات میں اپنی تقریر کے بعد غلطی سے خواتین والے واش روم میں داخل ہو گئے ، گجراتی زبان میں جو لکھا تھا اسکو راہل سمجھ نہیں پائےجس کی وجہ سے راہل کو وہاں موجود افراد کے سامنے ذلّت اٹھانی پڑی ! اس بات کو بی جی پی کے لوگوں نے خوب پھیلایا۔ اس کے برعکس حقیقت کچھ اور نکلی۔ جس ویڈیو کا سہارا لیکر اس افواہ کو پھیلایا جا رہا تھا وہ اےبی پی اسمیتا چینل کی ویڈیو تھی اور چینل نے واضح کیا کی مردانے واش روم کو سیکورٹی کے مقصد سے بند کر دیا گیا تھا اور راہل گاندھی غلطی سے خواتین کے واش روم میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ بوم لائیو کے مطابق اےبی پی اسمیتا چینل کے اس دعوے کی سند ابھی تک پختہ نہیں ہو سکی ہے۔
گزشتہ ہفتے کی سب سے اہم فیک نیوز معاشیات میں نوبل پرائز سے سرفراز ہونے والے اکنامسٹ رچرڈ تھیلر کے ایک ٹوئٹ سے تعلّق رکھتی ہے۔ رچرڈ تھیلر کیش لیس اکانومی کے حمایتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ معاشی زندگی میں کرنسی نوٹوں کو کم ترجیح دی جانی چاہیے اور شہریوں اور کاروباریوں کو انٹرنیٹ سے خرید فروخت کرنا چاہئے ۔ جب نریندر مودی نے گزشتہ سال نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا تو رچرڈ نے اس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں یہی چاہتا ہوں کہ کرنسی نوٹوں کا استعمال کم از کم ہو ۔ لیکن ان کے ٹوئٹ پر ایک جواب آیا کہ مودی نے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کرکے 2000 روپے کا نوٹ شروع کیا ہے۔ یہ جانکاری ملتے ہی رچرڈ نے اپنے ٹوئٹ میں افسوس ظاہر کیا۔
جس دن رچرڈ کو نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا اس کے بعد بی جے پی کے کارکنوں اور حمایتیوں نے رچرڈ کی اس ٹوئٹ کا پہلا حصّہ ٹوئٹ کر کے یہ ثابت کرنا چاہا کہ مودی سرکار کا نوٹ بندی کا فیصلہ صحیح تھا اور اسکی تصدیق رچرڈ بھی کر چکے ہیں !اس طرح کے دعوے بی جے پی آئی ٹی سیل کے صدر امت مالویہ،مرکزی حکومت کے وزیر گریراج سنگھ اور پیوش گویل جیسے ذمہ داران نے بھی کر ڈالے۔
الٹ نیوز نے واضح کیا کہ نریندر مودی کے نوٹ بندی کے احمقانہ انداز پر رچرڈ نے افسوس جتایا تھا۔ سوشل میڈیا پر رچرڈ کے اس ٹوئٹ کا سہارا لے کر ہندوستان کے معروف اکنامسٹ امرتیہ سین اور رگھورام راجن کا مذاق بنایا گیا ! جبکہ رچرڈ تھیلر ریزرو بنک اف انڈیا کے سابق گورنر رگھورام راجن کے بڑے قدردانوں میں سے ہیں اور راجن کے بھارت سے فارغ ہونے کے بعد خوشی ظاہر کی تھی کہ اچّھا ہوا راجن اب اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ہمارے بیچ رہیں گے !
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں پبلک ایڈمنسٹریشن کے موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں،اورعوام انڈیاکے بانی مدیر ہیں)