جسٹس وی چیتمبریش اور ستیش نینن کی بنچ نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جبکہ ان کے سامنے ایک بین مذہبی شادی کا معاملہ لایا گیا ۔
نئی دہلی : ہر شادی کو لو جہاد کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش پر تبصرہ کرتے ہوئے گزشتہ منگل کو کیرلا ہائی کورٹ نے کہا کہ ایک مسلم مرد اور ایک ہندو عورت کے درمیا ن شادی کو غیر ضروری طور پر فرقہ واریت کا رنگ نہ دیا جائے ۔جسٹس وی چیتمبریش اور ستیش نینن کی بنچ نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جبکہ ان کے سامنے ایک بین مذہبی شادی کا معاملہ لایا گیا ۔
اس کیس کی شنوائی کے دوران کورٹ نے اپنے ناراضگی کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ جان کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ دو الگ الگ مذہب کے لوگوں کی شادی کو لوجہاد اور گھر واپسی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،اس وقت بھی جب میاں بیوی کے درمیان مقدس رشتہ کا معاملہ ہو ۔یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔
غور طلب ہے کہ پچھلے دنوں کیرلاہائی کورٹ کی ایک دوسری بنچ نے اکھیلا عرف ہادیہ معاملے میں شادی کولو جہاد کا معاملہ بتاتے ہوئے مسترد کر دیاتھا،جبکہ ہادیہ نے اس سےانکار کیا تھا۔بعد میں اس کے شوہر نے اس معاملے کو این آئی اے کو سونپنے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی ۔
واضح ہو کہ 3اکتوبر کو ہادیہ معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوال کیا تھا کہ دو بالغوں کے درمیان شادی کو ہائی کورٹ کیسے مسترد کر سکتی ہے۔
(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی اور یو این آئی اردو کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: حقوق انسانی, خبریں