جس ٹیپو سلطان کی پہچان بہادر حکمراں کے طور پر ہوتی رہی ہے اس کو اب ایک گروپ کے ذریعے ظالم، فرقہ پرست اور ہندو مخالف بتایا جا رہا ہے۔
‘ ہرتاریخ ہم عصر تاریخ ہے ‘-یہ تاریخ نویسی کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اس لئے تاریخ کو سمجھنے کے لئے ہر زمانہ ایک نظریہ بناتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہی وقت میں کئی طرح کے نظریے تاریخ کو اپنےاپنے طریقے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہر نظریہ اپنے خاص چشمے سے تاریخی حقائق کو منتخب کرتا ہے اور ان کی وضاحت کرتا ہے۔ لیکن تاریخ کی یہ بحث تاریخ نویسی کے دائروں میں رہکرفروغ پاتی ہے۔ تاریخ کیا ہے اس سوال کو عوامی جذبات کے نام پر سڑکوں پر طے نہیں کیا جا سکتا۔
اس لئے ٹیپو سلطان کے نام پر چل رہے حالیہ تنازع نے ایک نہیں بلکہ دو طرح کے سوال کھڑے کئے ہیں۔
پہلا، ٹیپو سلطان کو کیسے یاد کیا جانا چاہیے۔ شیرمیسور کے نام سے جس نے بھیڑ وں کی طرح سو سال جینے کے بجائے شیر کی طرح ایک دن جینے کا راستہ اختیار کیا یا ہندوؤں اور عیسائیوں پر ظلم ڈھانے والے ظالم مسلم حکمراں کی طرح۔دراصل، ٹیپو سلطان پر آج جو بھی تنازعہ ہے اس کی نہاد میں سامراجی تاریخ نویسی ہے جس نے ٹیپو کو ایک بدمعاش کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ٹیپو سلطان کو ایک کٹّر اور متشدّد ‘ مسلم ‘ حکمراں کے طور پر سب سے پہلے انگریزوں نے مشتہر کیا تھا۔
18ویں صدی کے میسور نے جنوبی ہندوستان میں برطانوی حکمت عملی کو سب سے مشکل چیلنج دیا تھا۔ پہلے حیدر علی اور اس کے بعد ٹیپو سلطان نے مدراس کی برٹش فیکٹری کو بار بار ہرایا تھا۔ ان کے دیگر ہم عصر حیدر آباد کے نظام اور مراٹھوں کے برخلاف ٹیپو نے کبھی انگریزوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا۔وہ ہمیشہ انگریزی کمپنی کے ارادوں کے متعلق پریشان رہا اور ان کو روکنے کے لئے ہرممکن کوشش کی۔ کہا جا سکتا ہے کہ ٹیپو کے اندر سامراجی دور کی ایک قدیم سمجھ موجود تھی۔
اس کو ملکی اور غیر ملکی میں فرق کرنا آتا تھا۔ یہ ایک ایسی بات تھی جو انگریزوں کو ہمیشہ چبھتی رہی۔ اس لئے ٹیپو جیسے ہیرو کی امیج کو دھندلی کرنے کے لئے انہوں نے ایک سفاک اور ظالم ٹیپو کی فرضی داستان تیارکی۔اس فرضی داستان کے بارے میں مشہور مؤرخ پرو فیسربی این پانڈے کی ایک تحقیق بہت اہم ہے۔ جب وہ الہ آباد میں رہکر ٹیپو سلطان کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے، اس وقت کچھ طالب علم اینگلوبنگالی کالج کی تاریخ کونسل کا افتتاح کرنے کی گزارش لےکر ان کے پاس آئے۔
ان لڑکوں کے ہاتھ میں تاریخ کی ان کی نصابی کتاب تھی جس کو پروفیسر صاحب نے دیکھنے کی گزارش کی۔ اس کتاب میں ٹیپو کا باب کھولنے پر ان کے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس میں لکھا تھا کہ ٹیپو ایک متشدّد مسلم حکمراں تھا جس کی ریاست میں تین ہزار برہمن نے خودکشی کر لی تھی کیونکہ ٹیپو ان کو زبردستی مسلمان بنانا چاہتا تھا۔چونکہ پروفیسر پانڈے خودہی ان دنوں ٹیپو پر کام رہے تھے، فطری طور پر وہ اس کا ماخذ جاننے کے لئے بےچین ہو اٹھے۔ ان کو تب تک کسی ماخذ سے ٹیپو کے بارے میں اس طرح کی اصلیت نہیں ملی تھی۔ اس باب کے مصنف کوئی مؤرخ نہیں تھے بلکہ کلکتہ یونیورسٹی میں شعبہ سنسکرت کے صدر مہامہواپادھیائے ڈاکٹر پرپرساد شاستری تھے۔
ان کو کئی خط لکھنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ ان کو یہ اصلیت ‘ میسور گزیٹیر ‘ سے ملی ہے۔ میسور یونیورسٹی کے اپنے دوستوں کی مدد سے پروفیسر پانڈے نے پرو فیسرمنتیّا سے رابطہ کیا جوکہ ان دنوں ‘ میسور گزیٹیر ‘ کا نیا ایڈیشن تیار کر رہے تھے۔ انہوں نے کافی چھان بین کرکے بتایا کہ ‘ میسور گزیٹیر ‘ میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے۔وہ خود بھی میسور کی تاریخ کے دانشور اسکالر تھے۔ اس لحاظ سے انہوں نے اس واقعہ کے کبھی ہونے پر بھی شک کااظہارکیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ضرور اس افسانوی واقعہ کا ذکر کرنل مائلس کی کتاب ‘ ہسٹری آف میسور ‘ میں کیا گیا ہوگا۔
مائلس کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اس کتاب کو ایک قدیم فارسی مخطوطے سے ترجمہ کیا ہے جو ملکہ وکٹوریہ کی ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔ جب اس بابت معلومات کی گئی تو پتا چلا کہ ایسا کوئی مسودہ وہاں بھی دستیاب نہیں ہے۔یعنی یہ کتاب ٹیپو کے بارے میں فرضی قصّوں کا ایک جھوٹا پلندا تھا۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا-یہ ان انگریزی تدبیرکاروں کی سازش تھی جو ٹیپو کو ہندوؤں کے درمیان بدنام کرکے غیر مشہور بنانا چاہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : جب ٹیپو سلطان نے شنکر آچاریہ سے کہا ؛آپ وشو گرو ہیں
خاص بات تھی کہ کرنل مائلس کو بنیاد بناکر لکھی گئی یہ کتاب نہ صرف اتّر پردیش بلکہ مغربی بنگال، آسام، بہار، اڑیسہ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی پڑھائی جا رہی تھی۔ٹیپو کے تعلق سے تاریخ کا یہ متعصب شعور اس طرح کی دیگر کتابوں کی معرفت پیدا کیا گیا ہے۔ یہی نہیں، ایک ہمعصر کی لکھی یہ کتاب ٹیپو کے بارے میں ایک قابل اعتماد ماخذ مان لی گئی۔اس طرح کی چالبازی کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سامراجی حکمت عملی تھی جو آگے چلکر بےحد موثر ثابت ہوئی۔ یہ حکمت عملی تھی ‘ ڈوائڈ ایٹ ایمپیرا ‘ یا ‘پھوٹ ڈالو راج کرو ‘ کی پالیسی۔ اور اس پالیسی کا طریقہ تھاہندوستانی تاریخ کے معرفت سماج کو بانٹ دو۔
اس لئے جیمس مل نے ہندوستانی تاریخ کو جن تین ادوار میں تقسیم کیا تھا، وہ تھےہندیگ، مسلم یگ اور برٹش یگ۔ ظاہر ہے ان کی سمجھ تھی کہ انگریزی راج کے خلاف کسی بھی منظم مزاحمت کو توڑنے کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں بانٹنا ضروری ہے۔ اس لئے اس زمانے کو ہندو کہا گیا جبکہ ہندو لفظ مشہور بھی نہیں تھا۔ کیونکہ ہندو لفظ کی پیدائش سندھو ندی کے زوال سے ہوئی ہے اور یہ لفظ سب سے پہلے عرب نے ان لوگوں کے لئے استعمال کیا ہے جو سندھو ندی کے اس پار بستے تھے۔دوسرا، مسلم زمانے کے دوران مسلم حکمراں کے مذہب کی بنیاد پر زمانہ کا تعین کر دیا گیا۔ لیکن انگریزوں نے اپنے دور حکومت کو عیسائی زمانہ کہنے کے بجائے اس کو برٹش زمانہ کہا۔ یہ ہندوستانی تاریخ کے فرقہ وارانہ دور کے تعین کا آغاز تھا۔ کرنل مائلس کی یہ کتاب بھی بے شک اسی پروجیکٹ کا پیش رو حصہ بن گئی۔
ٹیپو سلطان پر سرکاری معلومات رکھنے والی کیٹ بریٹلبینک اس کے پیچھے کی ایک کہانی بتاتی ہیں۔ جب 1798میں کلکتہ ایک نئے گورنر جنرل ارل آف مارننگٹن کی تقرری کے بعد ٹیپو سیرنگاپٹّنم میں شہید کر دیا گیا، برٹن میں اس پر سوال کھڑے کئے جانے لگے۔کمپنی کے ذریعے ہندوستان کی فتوحاتی تحریک میں کسی حکمراں کو اس طرح موت کے گھاٹ اتارنا ایک عام پالیسی نہیں تھی۔ اس حالت میں گورنر جنرل اور ان کے دوستوں نے ٹیپو کی موت کو صحیح قرار دینے کے لئے ٹیپو کو ایک وحشیانہ، ظالم اور سفاک حکمراں کی طرح پیش کرنا شروع کر دیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ کئی بار اس کو ثابت کرنے کے لئے تحریری ثبوتوں کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ کرنل فلّارٹن، جو منگلور میں برٹش فوجوں کے انچارج تھے، نے ٹیپو کے 1783 میں پالگھاٹ کے قلعے پر مہم کو بےحد فرقہ وارانہ طریقے سے پیش کیا۔ کہا گیا کہ اس مہم کے دوران اس نے بےرحمی کی ساری حدیں پارکر دیں اور اس کے فوجیوں نے برہمن کے سروں کی نمائش کرکے لوگوں میں خوف بھر دیا۔اسی طرح کی باتیں اس کے مالابار مہم کو بھی لےکر لکھی گئیں۔ ٹیپو کے کرگ مہم کے وقت تقریباً ایک ہزار ہندوؤں کو جبراً اسلام میں تبدیل کرنے کا قصّہ بھی ولیم لوگان کی کتاب ‘ وائجیز آف دی ایسٹ ‘ میں ملتا ہے۔
کہتے ہیں سیرنگاپٹّنم میں قید یہ ہندو ٹیپو کے مرنے کے بعد انگریزوں کے ذریعے آزاد کئے گئے۔ اس طرح دیکھیں تو انگریز میسور کی ریاست میں ہندوؤں کے جان دہندہ اور نجات دہندہ کے طور پر پہنچے تھے، نہ کہ ایک غیر ملکی کمپنی کی نوآبادیاتی استحصالی کی شکل میں۔اسی طرح لیوس بی باؤری نے ٹیپو کی ریاست میں ہندوؤں پر ڈھائے گئے مظالم کا موازنہ محمود غزنی اور نادرشاہ کی بےرحمیوں کے ساتھ کیا۔
(مضمون نگار لوک راشٹریہ فرنٹ نامی تنظیم کے کنوینر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر