فکر و نظر

پی این اوک : تاج محل کو تیجو مہالیہ بتانے والے شدت پسندمصنف

ہندوستان کی تاریخ کو جدید سیکولر اور کمیونسٹ  مؤرخوں کی خام خیالی بتانے والے اوک دعویٰ کرتے ہیں کہ کرسچنیٹی اور اسلام دونوں ‘ویدک’عقائد کی مکروہ صورتیں ہیں ۔

PN-Oakیہ شاید 60 کے بعد کی یا 70 کی دہائی کے پہلے کی بات ہوگی جب پی این اوک نام کے ایک جناب کے  مضامین مراٹھی رسالوں میں شائع ہونے لگے، جس میں وہ ملک کے اندر اور باہر کی تمام تاریخی عمارتوں / مجسموں/ یادگاری مقامات کے بارے میں مشکل سے یقین آنے والی باتوں  کے ساتھ نمودار ہوئے تھے۔

ایک مضمون نے ان دنوں گرما گرم بحث ومباحثے کو جنم دیا تھا،جس کا فوکس تاج محل تھا۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا وہ تاج محل نہیں بلکہ تیجومہالیہ ہے جو ایک طرح سے ہندو دیوتا شیو کا اصل مقام رہا ہے۔

مضمون میں کئی ‘وضاحتوں ‘کے ذریعے یہ بات قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ تاج محل کی تعمیر کے لئے ایک شیو مندر کو توڑا گیا تھا اور اگر ہم کھودتے جائیں تو اس کے باقیات مل سکتے ہیں۔

رام جنم بھومی آندولن کے ایک سربراہ کہے جانے والے جناب ونے کٹیار،جو فی الوقت راجیہ سبھا کے ممبر ہیں، انہوں نے گزشتہ دنوں ‘تاج محل ‘ کو ‘  تیج محل ‘کہتے ہوئے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ صلاح دی کہ ‘ان کو چاہیے کہ وہ تاج محل جائیں اور اس میں ہندو نشانات کو خود دیکھ لیں۔ ‘ یہ بات اتفاقاً پی این اوک‌کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہندوتوا کا خیال ان دنوں لوگوں کے سر چڑھ‌کر نہیں بول رہا تھا،ایک اقلیتی رائے عامہ  کو چھوڑ‌کر ، چتپاون برہمنوں کی اقلیت جو ہندوستان کو ہندو ملک بنانا چاہتا تھا ، شاید ہی کسی نے اوک کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کیا ہو۔

یقیناً اس وقت شاید ہی کسی کو یہ اندازہ رہا ہو کہ مسجدوں کے نیچے ہندوؤں کے پوجا استھل دبے پڑے ہیں ۔ یہ بات ان کومسمار کر دئے جانے کی وجہ بنا دی جائے‌گی، جو سلسلہ ہندو توا کی سیاست میں آگے بڑھتا ہی جائے‌گا۔

یقیناً تاج محل پر پی این اوک کا مضمون اس نوعیت کا پہلا مضمون  نہیں تھا۔ ایسے تمام مضامین / کتابیں لگاتار شائع ہونے لگے۔

بقول جناب اوک، ‘ حملہ آوروں اور نوآبادکاروں کی متعصب اور مسخ شدہ ہندوستانی تاریخ کو ‘ ٹھیک کرنے کے کام میں وہ لگے رہے اورکچھ مراٹھی برہمن وادی، جس نے ہندوراشٹرکے خیالات سے متعلق اپنی ہمدردی ظاہر کی تھی ، اس نے اوک‌کے ان خیالات کو جواز عطا فراہم کیے۔

اوک کا کہنا تھا ماضی کے ہندوستان کے ‘ مثالی نسخوں ‘ کو خود جدید سیکولر اور مارکس وادی مؤرخوں نے گڑھا ہے اور انہوں نے اس میں ‘ویدک حوالے اورمندرجات’ کو غائب کر دیا ہے۔

اپنے ان خیالات کو الگ الگ ذرائع سے لوگوں تک پہنچانے کا ان کا کام چلتا رہا۔ انہوں نے ‘بھارت اتہاس سنکلن سمیتی’ کی تشکیل کے ذریعے مقامی تاریخ کو جمع کرنے  کا کام بھی شروع کیا۔

ایک موٹے اندازے کے حساب سے انہوں نے نو کتابیں انگریزی میں، 13کتابیں مراٹھی میں اور آٹھ کتابیں ہندی میں لکھی ہیں۔ ایک کتاب جو ان کی زندگی کے مطالعے کو اجمالی طور پر پیش کرتی ہے اس کا عنوان ہے ‘ورلڈ ویدک ہیرٹیج :اے ہسٹری آف ہسٹریز، پریزینٹنگ اے یونک یونیفائڈ فیلڈ تھیوری فورم بگننگ آف ٹائم دی ورلڈ پریکٹسڈ ویدک اینڈ اسپوک سنسکرت ‘ عام لوگوں کے لئے جنہوں نے ان کے بارے میں کچھ نہیں سنا ہے، ان کے سامنے اوک کی ان کتابوں کی فہرست رکھی جا سکتی ہے جو انگریزی میں شائع ہوئیں، جو ان کے خیالات  سے لوگوں کو آشنا کرا سکتی ہے۔

یہ اس طرح ہیں ؛

PNOakBookList

اوک کی تصنیفات کا مطالعہ کرکے شری نواس آراوامدن نشان زد کرتے ہیں کہ وہ خاص طریقے سے ‘ ڈیپ پننگ ‘ (Deep Punning) کا سہارا لےکر سنسکرت کی آوازوں کے مساوی غیرسنسکرت مذہبی فرہنگ کا استعمال کرتا ہے جیسے ‘ویٹکن ‘ یعنی ‘ واٹیکا ‘، ‘ کرشچینٹی ‘ یعنی ‘ کرشن پالیسی ‘ یا ‘ کرشن کا راستہ ‘؛ ‘اسلام ‘ یعنی ‘ ایشالیم ‘ یعنی ‘ ایشور کا مندر ‘، ‘ ابراہم ‘ جو برہماکی خراب شکل ہے وغیرہ۔

اسی بنیاد پر اوک دعویٰ کرتے ہیں کہ کرشچینٹی اور اسلام دونوں ‘ ویدک ‘ عقائد کو مسخ کرنے کے طور پر پیدا ہوئے۔ (Srinivas Aravamudan، Guru English:South Asian Religion in a Cosmopolitan Language)۔

جبکہ ان کے عجیب و غریب اصول جیسے’ کرشچینٹی اور اسلام دونوں ہندو مذہب سے نکلے ہیں ‘یا ‘ تاج محل کی طرح کیتھولک ویٹیکن، کعبہ، ویسٹ منسٹر آبے وغیرہ شیو کے مندر تھے یا-‘ ویٹیکن بنیادی طور پر ایک ویدک تعمیر ہے جس کو واٹیکاکہا جاتا تھا یہاں تک پوپ کی روایت بھی بنیادی طور پر ویدک پروہت روایت تھی یا ہندوستان میں اسلامک آرکٹیکچر سے پوری طرح انکار-وغیرہ مرکزی رجحان کی تاریخ میں کبھی مقام نہیں بنا پائے، بلکہ اکیڈمک کی دنیا میں ان کو سرے سے خارج کیا گیا، شدت پسندہندوؤں  میں ان کو مقبول عام حمایت ملی جو ابھی بھی اس کوشش میں ہے کہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کوئی بڑا اصول ڈھونڈا جائے۔

PN-Oak-Books

دلچسپ بات یہ ہے کہ بیلجین مستشرق اور اینڈولاجسٹ کوئینراڈ ایلسٹ (Koenraad Elst) جو ہندو تواکےلیے ہمدردی رکھتے ہیں-وہ استثنا جان پڑتے ہیں۔

مہاجر ہندوستانیوں/ہندوستانی نژادکے لوگوں کے دائروں میں اوک کی ‘ مسلسل مقبولیت ‘ کو نشان زد کرتے ہوئے اور اوک‌کے متنوع ‘ تاریخی اور لسانی اصولوں کو ‘بےپردہ کرتے ہوئے وہ ‘ ہندو کارکنوں کی بھاری غیر پختگی کو نشان زدکرتے ہیں :

پی این اوک‌کے اصولوں کی مقبولیت ہم عصر ہندو کارکنوں کی بھاری غیر پختگی کو دکھاتی ہے۔ وہ ہندوستانی تاریخ میں مذہبی تنازعات کی حقیقتوں کو لےکر موجود کنفیوژن کو نشان زد کرتا ہے۔

اتناہی نہیں باہری لوگوں کے ذریعے تعمیر کی گئی قابل قدر چیزوں وغیرہ پر ملکیت کا دعویٰ کرنے کی عجیب سی خواہش ظاہر کرتی ہے / گویا ہندو مذہب کے اصل کارنامے فخر کرنے کے قابل نہ ہوں /

(weblink 1/06/incurable-hindu-fondness-for-pn-oak۔ html)

ونے کٹیار کے ذریعے تاج محل کو تیج محل کہنا یہی دکھاتا ہے کہ اوک‌کےخیالات کی مقبولیت محض تارکین وطن میں محدود نہیں ہے۔

یہ بات اب تاریخ ہو چکی ہے کہ اوک نے قومی ڈیموکریٹک اتحاد کے ذریعے اقتدار کے پہلے دور میں عدالت عظمیٰ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تاج محل کی تاریخ دوبارہ لکھی جانی چاہیے کہ اس کی تعمیر ہندو راجا نے کی۔

ان کو لگا تھا کہ موافق سیاسی ماحول کے سبب ممکن ہے کہ ان کے خیالات کو جواز حاصل ہو۔ عدالت عظمیٰ کی دو رکنی بنچ نے اس ‘فرضی’عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ کسی کی بونٹ (ٹوپی) میں شہد کی مکھی گھس گئی ہے، اس لئے یہ عرضی دائر کی گئی ہے۔ ‘

(مضمون نگار سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔)