فکر و نظر

’ وکاس بم‘ پھُس، پھر سے ہندوتوا کا سہارا ؟

 نریندر مودی کے ’ وکاس بم‘ کے ’پھُس‘ ہونے کے بعد سنگھ پریوار کے سامنے شاید اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے کہ یوگی کے روپ میں ’ ہندوتوابم‘ پر پھر سے انحصار کیا جائے ۔

Photo by NewsClick

Photo by NewsClick

میں یوپی کی راجدھانی لکھنؤ میں حیرت سے ان سرکاری عمارتوں کو ، اداروں اور  بسوں کو دیکھ رہا ہوں جو گیروے،/بھگوے میں پُتی ہوئی ،یوگی کی ذہنیت کو بھی اُجاگر کرتی ہیں اور اس حقیقت کو بھی کہ’وکاس‘ واقعی ’پاگل‘ ہوگیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی کی کمان بھی اس لئے سونپی گئی ہے کہ وہ اسی طرح کے  ہندوتوا کے ایجنڈے کو شدت کے ساتھ آگے بڑھائیں جونہ صرف یوپی بلکہ  گجرات ، ہماچل پردیش اور کیرالہ کے اسمبلی الیکشن میں بھی فرقہ پرستی کا زہر گھول سکیں ۔ یوگی نے وزیراعلیٰ بنتے ہی ایودھیاکا دورہ  کرکے یہ پیغام دے دیا تھا کہ وہ ’ہندوتوا‘ کے ہی ایجنڈے لئے راج گدی پر بیٹھے ہیں۔ اپنی پہلی دیوالی پر ایودھیا میں لاکھوں کی تعداد میں دیئے روشن کرکے انہوں نے اپنے اس  ایجنڈےکو گویا کہ پھر سے دوہرایا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یوگی نے ایک طرح سے یہ اعلان کردیا ہے  کہ اب بی جے پی کاموضوع ’وکاس‘ نہیں ہے ۔

چھ مہینے کے درمیان یہ یوپی کا میرا دوسرا سفر ہے ۔  جب یوگی وزیراعلیٰ بنے تھے تب انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ریاست کی سڑکیں گڑھا مکت،ہوں گی ، یعنی گڑھے سڑکوں پر نظر نہیں آئیں گے ۔ ریاست کی ان سڑکوں کو چھوڑ کر جنہیں قومی شاہراہیں کہا جاتا ہے بیشتر سڑکیں ، بالخصوص وہ سڑکیں جو دیہاتوں ، قصبوں ، تحصیلوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں  آج بھی گڑھوں کے سبب چیچک زدہ مریضوں کی مانند نظر آتی ہیں ۔ بجلی کا 24؍گھنٹے کا وعدہ ، بس وعدۂ معشوق ہی ہے ۔ جو بجلی ان دنو ں دی جارہی ہے وہی اکھلیش سنگھ یادو کے دور میں بھی دی جارہی تھی ۔کسان آج بھی رورہے ہیں ۔ جن کسانوں کے قرض معاف کرنے کا اعلان کیا گیا تھا وہ قرض معافی کے بے رحمانہ مذاق سے حیرت زدہ ہیں ۔

یوگی نے سارا زور ریاست کو زعفرانی ؍بھگوا کرنے پر لگادیاہے ۔ بسیں بھگوا کی جارہی ہیں ۔ سرکاری عمارتوں پر گیروا پھیرا جارہا ہے ۔ یوگی کی یہ کوشش ہے کہ وہ جس طرح بھگوا دھاری بنے ہوئے ہیں ساری ریاست اسی طرح بھگوے میں رنگ جائے ۔ امیٹھی کے ایک بزرگ جمال خان کے مطابق ’’ یوگی جب سے آئے ہیں بس یہی کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح سے ریاست کے لوگوںکو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیں ، اس کے لئے انہوں نے لوجہاد ، گھر واپسی اور گئورکشا کا سہارا تو لیا ہی ہے گیروے ، بھگوے رنگ کا سہارا بھی وہ اسی لیے لئے ہوئے ہیں ، جب سب کچھ بھگوے رنگ میں رنگ جائے گا تو انہیں شاید یقین آجائے گا کہ یوپی پر ہندوتوا کا رنگ چڑھ گیا ہے ۔ ‘‘

مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔۔۔۔ اب لوگ پھر سے اکھلیش سنگھ یادو کو یاد کرنے لگے ہیں۔ ان کی سڑکیں اور ان کا میٹرو پروجیکٹ  ان کی کامیاب حکومت کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ جمال خان کی  ریاست کی سیاست پر گہری نظر ہے وہ بتاتے  ہیں ’’ یوگی وکاس کے نام پر اکھلیش کی بھونڈی نقل کررہے ہیں ، اکھلیش نے تو پہلے ہی ایکسپریس  ہائی وے پر جیٹ اُتاردیئے تھے یوگی نے اب جیٹ اتارکر ان کی نقل ہی کی ہے کوئی نئی بات نہیں کی ہے ۔ ‘‘  سچ تو یہ ہے کہ یوگی کے پاس کچھ نیاہے بھی نہیں ۔انہوں نے نیا یہ کیا کہ ایودھیا میں دیوالی سے ایک روز قبل ، دیے روشن کردیئے ۔ انہوں نے یہ کیا کہ ورنداون ، برسنا اور چترکوٹ کو ’ دھارمک استھلوں‘ کی حیثیت سے سیاحتی مراکز بنانے کا اعلان کردیا ۔ انہوں نے ایودھیا کے لئے چار مرحلوں میں ترقیاتی منصوبوں کااعلان ضرور کیا مگر اسے بھی ’دھرم کی سیاست‘ سے الگ نہیں کرسکے، انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ’ ’ رام مندر کی تعمیر سے قبل یہ ایودھیا کی ترقی کا منصوبہ ہے ۔‘‘ میٹ کاروبار پر آج بھی پہلے ہی کی طرح سختی ہے ۔ بیف کے نام پر جبروتشدد کا بازار آج بھی گرم ہے ۔

وزیراعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے یوپی کو جرائم سے پاک بنانے کا اعلان کیا تھا مگر جرائم ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں ۔ یوپی  میں حالیہ دنوں میں خواتین کے خلاف جرائم میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے  بالخصوص عصمت دری کی وارداتوں میں ۔ بریلی میں حال ہی میں ایک نوعمر طالبہ گینگ ریپ کی شکار ہوئی ہے ، ایک سوسالہ ضعیفہ ریپ کے بعد موت کی نیند جاسوئی ہے ۔ دلتوں پر اتیاچار تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ بی جے پی کے سیاسی مخالفین نشانے پر ہیں ۔ حال ہی کے دنوں میں امیٹھی کے نہال گڑھ میں ایک سینئر کانگریسی ایڈوکیٹ حاجی صلاح الدین پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے ۔ بی جے پی کے لیڈران کھل کر سیاسی مخالفین کو دیکھ لینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ گویا یہ کہ یوپی ترقی سے دور ہوتا جارہا  اور ایسی تنزلی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا انجام تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

Saffron-Bus-Uttar-Pradesh

 نریندر مودی کے ’ وکاس بم‘ کے ’پھُس‘ ہونے کے بعد سنگھ پریوار کے سامنے شاید اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے کہ یوگی کے روپ میں ’ ہندوتوابم‘ پر پھر سے انحصار کیا جائے ۔2019 جیت اس کے لئے ضروری ہے ۔ ضروری اس لئے کہ ابھی ملک کو تباہی اور بربادی کی سمت لے جانے کے لئے بہت سے کام جوکرنے  ہیں ! بابری مسجد تو شہید کردی گئی لہٰذا اب رام مندر کی تعمیر کا شور مچایا جائیگا۔ یوگی کی ایودھیا سے محبت بھی اسی لئے تیز  ہوئی ہے ۔ ’ترتیایوگ‘ (قدیمی دور) پر ایک لاکھ سے زائد دیئے اسی لئے جلائے گئے ہیں ، بھلے ہی بہت سے شہریوں کے گھر اندھیرے میں ڈوبے رہیں ’ہندوتوا‘ کے فروغ کے لئے تیل اور دیئے کم نہ پڑیں۔  ایودھیا میں اسی لئے بھگوان رام کی سوفٹ کی مورتی نصب کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ بھلے ہی لوگوں کو کھانا  نہ ملے ، بدن پر کپڑے نہ ہوں کروڑوں روپئے مورتی پر لگیں گے ہی تاکہ ’ ہندوتوا‘ کی مورتی زمیں بوس نہ ہوسکے ۔

تیاری ہے کہ 2019 کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے بھگوا رام اور رام مندر کا خوب شور مچایا جائے ۔ ان دنوں بھی سارے یوپی میں جگہ جگہ رام کتھاؤں کے پنڈال سجے نظر آتے ہیں جہاں سے دن رات رام کتھائیں سنائی جارہی ہیں ۔ لوک سبھا کے الیکشن کی مہم ؍ 13فروری 2018وز ایک رتھ یاترا نکال کر کی جائے گی ۔ اس دفعہ اس کا نام ’ رام راجیہ رتھ یاترا‘ رکھا گیا ہے ۔ اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی والی رتھ یاترائیں آج بھی لوگ بھولے نہیں ہیں ، یہ دونوں ہی رتھ یاترائیں بالخصوص اڈوانی والی رتھ یاترا ’خونی‘ تھیں ۔ یوگی کی رتھ یاترا کیسی ہوگی اس کا اندازہ ابھی سے کیا جاسکتا ہے ۔ یہ رتھ یاترا چھ ریاستوں سے گزرتی ہوئی رامیشورم میں جاکر ختم ہوگی ۔ یہ کیرالہ سے بھی گذرے گی اور مہاراشٹر سے بھی۔۔۔۔ بی جے پی کا سارا زور اب بس ’ رام مندر‘ پر ہے ۔ یوگی اس پر خوش ہیں، انہیں اس پر کوئی پریشانی نہیں ہے کہ بی جے پی نے وکاس ، غربت ، غریبی، روزگار ، بے روزگاری اور عوامی صحت وتعلیم کے موضوع کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ یوپی کانگریس کے ایک لیڈر محمد نعیم کے بقول ’’ بی جے پی کے پاس اب فرقہ پرستی ہی ایک موضوع رہ گیا ہے اس کے پاس اور کچھ نہیں بچا ہے ۔‘‘

کوشش تھی کہ ایودھیا کے دیوں کی روشنی گجرات اور ہماچل پردیش تک بھی پہنچ جائے ۔ مگر ایودھیا کے دیوں کی روشنی گجرات اور ہماچل تک نہیں پہنچ سکی ہے ۔ منصوبہ یہی تھا کہ ہماچل پردیش اور گجرات کی اسمبلیوں کے الیکشن سے پہلے رام ، رام مندر اور ہندوتوا کی اتنی  تیز صدائیں لگائی جائیں اور ہندوتوا کے ایسے مظاہر سامنے  لائے جائیں کہ سارا گجرات اور سارا ہماچل پردیش بھگوا رنگ میں رنگ جائے ۔ اور سارے ہی ہندو ووٹریکجٹ ہوکر بی جے پی کی جھولی میں اپنے ووٹ ڈال دیں ۔۔۔ مگر گجرات میں ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی اور الپیش ٹھاکور نے ’بھگوا سیاست‘ کی راہ میں کچھ اتنے روڑے کھڑے کردیئے ہیں کہ ایودھیا کی روشنی ان کو پار کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ ہاردک پٹیل  کا’مہاچور‘ کا نعرہ جے شری رام کے نعرے پر حاوی ہوگیا ہے ۔  اور میوانی اور الپیش ٹھاکور کی دلتوں اور پچھڑوں کی سیاست نے ’بھگوا سیاست‘ کو پیچھےڈھکیل دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گجرات ’پریورتن‘ کی سمت چل پڑا ہے ۔ اور ’ پریورتن‘ بھی کچھ ایسا جسے بی جے پی ، نریندر مودی اور امیت شاہ تینوں شاید ہی سہہ سکیں ۔ ہاں کانگریس اور راہل کے لئے یہ پریورتن مثبت ثابت ہوسکتا ہے۔

  رہا ہماچل پردیش تو وہاں بی جے پی اندرونی خلفشار اور کانگریس کے بدلتے تیور سے کچھ اسقدر حیران وپریشان ہے کہ اسے بھگوے اور سرخ رنگ کا واضح فرق تک نظر نہیں آرہا ہے ۔ خبر ہے کہ بی جے پی نے ہماچل پردیش کی ثقافتی شناخت ، پہاڑی ٹوپی، کارنگ بدلا ہے ، مگر زعفرانی میں نہیں لال رنگ میں ! مقامی افراد یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ’ ہم اپنی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کو ہر رنگ میں پہنیں گے صرف لال میں کیوں ! ‘ہا ں یہ ہوسکتا ہے کہ یوگی ہماچل پہنچیں اور لال کو زعفرانی میں بدل دیں۔ان دنوںسنگھ پریوار نے ساری کمان ان ہی کے ہاتھوں میں سونپ رکھی ہے اور ان کا ضمیر اور خمیر چونکہ سب زعفرانی ہے اس لئے وہ سارے ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی ، ایک ناکام کوشش تو کرہی سکتے ہیں!

(مضمون نگار روزنامہ ’’ممبئی اردو نیوز‘‘ کے ایڈیٹر ہیں)