ادبستان

اگر آپ مولانا کو مسلمانوں کا نمائندہ کہتے ہیں تو ان کی شخصیت کو محدود کر رہے ہیں: ٹام آلٹر

مولانا کا مائند سیٹ صرف ایک مسلم کا نہیں تھا ،ایک انسان کا تھا۔ہندوستان کا تھا،ایک ہندوستانی کا تھا۔

آج مولانا ابواکلام آزادکا یوم پیدائش ہے،اور اس موقع پر انہیں یاد کیا جارہا ہے۔یوں تو مولانا کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کے خیالات بہت سارے لوگوں تک مشہور ایکٹر ٹام آلٹر کے سولو ڈرامے کے ذریعے پہنچے۔ٹام نے مولانا پر وقتاً فوقتاً اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ،اور اپنی خودنوشت میں لکھا کہ؛

’میرے والد مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے عقیدت مند تھے اور یہی عقیدت مولانا آزاد کے عنوان سے اس پِلے میں میرے کام کرنے کا سبب بنی جس کے پلے رائٹ اور ہدایت کار ڈاکٹر ایم سعید عالم صاحب ہیں۔یہ پِلے میں گزشتہ پندرہ برسوں سے دنیا بھر میں خصوصاً تقسیم سے قبل کی تاریخ کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کے مقصد سے کررہا ہوں۔ یہ ایک سولو پلے ہے جس میں میرے مرکزی کردار کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ میں اسٹیج پر تمام وقت تنہا ہی موجود رہتا ہوں۔ جب سعید عالم صاحب مولانا آزاد پلے کا اسکرپٹ لے کرمیرے پاس آئے تھے تو میرے ذہن میں مولانا آزاد کے بارے میں بہت سے سوالات تھے، اس لیے، میں نے اس پلے کے بارے میں صرف ایک ایکٹر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے بھی غور کیا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ مولانا آزادسے میرے والد کو اس درجہ عقیدت کیوں تھی؟‘

یہ بھی دیکھیں :الوداع ٹام آلٹر

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا آزاد پر سولو ڈرامہ کے لیے معروف ٹام نےراجیہ سبھا ٹی وی کے’ سمویدھان‘ نامی سیریل میں بھی مولانا آزاد کا رول کیا تھا ،واضح ہو کہ اس سیریل میں دستور ہند کی تشکیلی تاریخ کو دکھا یا گیا ہے۔اسی سیریل کے پریمئیر پر جب ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ؛مولانا آزاد کا رول کرتے وقت آپ نے مسلم سائکی کا مطالعہ کیا ہوگا تو ٹام آلٹر نے بر جستہ کہا تھا؛

مولانا کا مائند سیٹ صرف ایک مسلم کا نہیں تھا ،ایک انسان کا تھا۔ہندوستان کا تھا،ایک ہندوستانی کا تھا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ،محض ایک مسلمان کا نہیں تھا۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا؛

مولانا نے ہندوستان کی نمائندگی کی مسلمانوں کی نہیں،اگر آپ ان کو مسلمانوں کا نمائندہ کہتے ہیں تو ان کی شخصیت کو محدود کر رہے ہیں ۔

یہ مضمون11 نومبر 2017کو شائع کیا گیا تھا۔