ماحول کا اثر ہے یا کچھ اور کہ شری شری روی شنکر کو ایودھیا میں کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے۔ لیکن شری شری کی خوش قسمتی کہ وہ میڈیا کی بھرپور سرخیاں بٹور رہے ہیں۔
نومبر کے دوسرے عشرے کی گلابی ٹھنڈ میں جب ایودھیا میں بلدیاتی انتخاب ہو رہے ہیں، نئی نویلی بلدیہ میونسپل کارپوریشن بنی ایودھیا اپنے پہلے میئر کے سنہرے خوابوں میں کھوئی ہوئی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ‘ مہذب اور شرمیلے ‘ امیدوار رشی کیش اپادھیائے، سماجوادی پارٹی کے کنّر امیدوار گلشن بندو کے سامنے پسینہ-پسینہ ہو رہے ہیں اور متھلا سے ہونے کے ناطے جیجا سالی کا رشتہ جوڑکر ان کو روانی سے گالیاں سنا رہی بندو نے ماحول میں ہولی کے رنگ بھر دیے ہیں۔
اس بیچ ‘آرٹ آف لونگ ‘ کے بانی شری شری روی شنکر کو جانے اچانک کیا سوجھی ہے کہ وہ اہل دانش کے ذریعے بہت سوچ سمجھ کر الجھائے گئے رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعے کی گتھی سلجھانے آ پہنچے ہیں۔کیا پتا اس ماحول کا اثر ہے یا کچھ اور کہ کوئی بھی ان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہاہے۔ نہ وہ جن کا مذکورہ تنازعہ سے نزدیک یا دور کا کوئی رشتہ ہے یا رہا ہے اور نہ ہی وہ، جن کا اس سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔
رام ولاس داس ویدانتی جیسی کوئی ‘شخصیت’ان کو جلی-کٹی سنا رہی ہے تو راج ببّر جیسا کوئی کانگریسی مذاق اڑا رہا ہے۔ یہ کہہکر کہ شری شری ایسا مذاق پہلی بار نہیں کررہے۔ وہ لبنان اور سیریا کامسئلہ سلجھانے کی کوشش بھی کر چکے ہیں اور کشمیر کے مسئلہ سے بھی ‘ جوجھ ‘ چکے ہیں۔ایسے میں انہوں نے ایودھیا تنازعہ کو نمٹانے کی حسرت بھی پال لی ہے تو ان پر انہی کے انداز میں مسکرایا ہی جا سکتا ہے۔ لیکن شری شری کی خوش قسمتی کہ اس کے باوجود وہ میڈیا کی بھرپور سرخیاں بٹور رہے ہیں۔ خاص کر اس میڈیا کی جو شری شری کی ہی طرح نہ تو رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کی مختلف تہوں یا پیچیدگیوں سے آگاہ ہے اور نہ اس بات سے کہ یہ تنازعہ ایودھیا کا اکلوتا یا سب سے بڑا غم نہیں ہے۔
ہاں، اس کے نام پر چلائی جا رہی مذہب کی سیاست کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایودھیا کے سادھوسنتوں اور مہنتوں تک نے خود کو نہ صرف سپائی، بھاجپائی، کانگریسی اور بسپائی سنتوں کی شکل میں بلکہ ذاتوں کی بنیاد پر بھی بانٹ رکھا ہے۔
ایودھیا میں اکثر ہر ذات کے الگ الگ مندر ہیں۔ یوں، کہا جاتا ہے کہ ایودھیا کا ہر گھر ایک مندر ہے، جس کا پورا سچ یہ ہے کہ ہر مندر ایک تجارتی تنظیم ہے، جن کے اثاثوں کے تنازعے سنتوں مہنتوں کو اکثر عدالتوں میں کھڑا رکھتے ہیں۔
عدالتی ذرائع کہتے ہیں کہ مقامی عدالتوں کو سنتوں کے تنازعات سے آزاد کر دیا جائے تو ان کا کام کافی ہلکا ہو جائے۔ سرکاری اورنجی سیکورٹی گارڈسے گھرے رہنے اور اکثر لگژری کاروں میں نظر آنے والے سنت مہنت اپنے یگیہ کنندہ کو بھلےہی تحریص وترغیب اور التباس سے پرے رہنے کی نصیحت دیتے ہیں، مندروں کے اثاثوں کے تنازعات میں اکثر لاشیں گراتے یا گرواتے رہتے ہیں۔کیونکہ عدالتی فیصلے کا لمبا انتظار ان سے کیا نہیں جاتا اور بموں اور گولیوں سے متوقع طور پرفیصلہ بہت لبھاتا ہے۔ پرتشددبندوق بازی ان کو اتنی پسند ہیں کہ ان کے لائسنس پانے کے ان کے سینکڑوں درخواست فیض آباد کے کلکٹر کے دفتر میں دھول پھانک رہے ہیں۔
عرصہ پہلے ہوئی رام جنم بھومی کے اہم پجاری لال داس کے ظالمانہ قتل کے بعد سے سنتوں کا پاؤں دابکر شاگرد بننے اور گلا دباکر مہنت بن بیٹھنے کی روایت کا بوجھ ڈھوتےڈھوتے ایودھیا اپنی ایسی شبیہ کی بندنی ہو گئی ہے کہ یاد نہیں کر پاتی کہ کتنے عرصہ پہلے سچ کی زمین پر آسان ہوکر چلی تھی۔سینئر افسانہ نگار دودھ ناتھ سنگھ نے اپنے ‘آخری کلام ‘ میں ایودھیا کو مذہب کی منڈی کے علاوہ شہر کی باقیات اور گاؤں کی الٹی کہا تھا۔ اس باقیات اور الٹی کے سبب ایودھیا کو چھوکر بہنے والی سریو ندی کا وہ پانی بری طرح آلودہ ہے جس سے بھگوان کے بھوگکے سارے ڈش بنتے ہیں۔پھر بھی شراب کارخانہ اور صنعتوں کے سریو میں آنے والی آلودگی کے علاج کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہاہے۔ اب تو اس کو خود کو سیاحت کے عالمی نقشے پر لائے جانے اور وقار کے مطابق ترقی کی ڈھپورشنکھی اسکیموں کی عادت سی پڑ گئی ہے۔
ایودھیا کی گلیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے خوبصورت پر سب سے گندی گلیاں ہیں۔ اس شہر کی خوبصورتی اور سیاحت کے عالمی نقشے پر لانے کے کئی کوشش پچھلی دہائیوں میں دم توڑ چکی ہیں۔ایک وقت ایودھیا پیکیج کی بڑی باتیں ہوتی تھیں پر بات ہوکر ہی رہ گئی۔ کیونکہ اس کے قدیم جاہ وجلال، تہذیب اور فن تعمیر کی حمد وثنا تو بہت ہوتی ہے پر سمجھا نہیں جاتا کہ سیاح کسی بھی شہر کی روح سے مصاحبہ کرنے آتے ہیں اور اس نظریے سے اس کا موجودہ حال بھی خوش حال ہونا چاہیے۔
ایودھیا میں حفاظتی انتظام کو چھوڑ دیجئے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ رام کی سیڑھی، رام کتھا پارک اور چودھری چرن سنگھ گھاٹ جیسے سیاحوں کی کشش کے چند مقام ہیں بھی، تو مناسب دیکھ ریکھ کے فقدان میں گندھاتے رہتے ہیں۔دوسری طرف عوامی دلچسپیاں اتنی بگاڑ دی گئی ہیں کہ مذہبی فلموں کے پردے میں فحش سی ڈی تک فروخت ہوتے پائی جاتی ہے۔ مذہب کی یہ نگری نشے کی گرفت سے بھی نہیں بچ پا رہی۔ جس فیض آباد ضلع میں ایودھیا ہے، پچھلی مردم شماری کے مطابق اس کی تمام آبادی2088929ہے۔ ان میں 281273لوگ شہروں یا قصبات میں رہتے ہیں اور باقی گاؤں میں۔مشرقی اتّر پردیش کے دوسرے حصوں کی طرح غریبی یہاں بھی قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن غریبوں کی کتنی فکر کی جاتی ہے، اس کو سمجھنا ہو تو جاننا چاہئے کہ ابھی غریبوں کی پہچان کا کام بھی پورا نہیں ہو پایا ہے۔پٹواریوں کو غیر تحریر شدہ ہدایت ہیں کہ وہ کسی کی آمدنی بھی اتنی کم ہونے کا تصدیق نامہ جاری نہ کرائیں جس سے وہ اپنے کو غریب تصدیق کر سکے۔
پورے فیض آباد ضلع میں ہاتھ کاغذ، دفتی بنانے، دستکاری، ہینڈلوم اور جوتے بنانے کی چھوٹی صنعتوں کے علاوہ صنعت کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے۔ شاید اس کی وجہ سے علاقے میں کسی بھی طرح کے کچّے مال کی عدم دستیابی ہے۔سریو میں صرف ریت پائی جاتی ہے، مافیا جس کی غیر قانونی کھدائی کرکے کمائی کرتے ہیں۔ ایک بار ریت سے شیشہ بنانے کی صنعت کی تنصیب کی بات چلی تھی پر وہ بھی آئی گئی ہو گئی۔یہاں کئی لوگ کھڑاؤں، مجسموں، کنٹھیوں، پھول مالاوں اور خوبصورت سولہ سنگار وغیرہ کی فروخت سے کاروبار حاصل کرتے ہیں مگر علاج اور صحت کی سہولتوں کے نظریے سے کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
بھگوان شری رام کے نام پر جو ہسپتال ہے، وہ بھی بھگوان بھروسے ہی ہے۔ یہاں غریبی کے اہم دو وجہ بتائے جاتے ہیں۔ پہلی یہ کہ زمین زرخیز ہونے کے باوجود زراعتی کسانی پچھڑی ہوئی ہے۔ دوسری یہ کہ نوجوانوں کو مناسب تعلیم اور روزگار نہیں مل پا رہےہیں۔لیکن زراعت کی حالت سدھارنے اور اس سے متعلق ریسرچ کو بڑھاوا دینے کے لئے آچاریہ نریندردیو کے نام پر جو یونیورسٹی کھولی گئی، بد عنوانی، سیاست اور کاہلی نے اس کی جڑیں بھی کھوکھلی کر رکھی ہیں۔
ڈاکٹررام منوہر لوہیا کے نام پر جو اودھ یونیورسٹی ہے، ستم ظریفی یہ کہ سیاسی مفاد کے سبب اس میں سندھی زبان کی پڑھائی شروع کرنے کی بات کہی جا رہی ہے، لیکن اس میں ابھی تک ہندی کا شعبہ ہی نہیں ہے، جبکہ ڈاکٹرلوہیا خود کو ہندی کے لیے وقف بتاتے تھے۔اس یونیورسٹی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، جس سے اس کے نام کی تھوڑی بہت بھی افادیت ثابت ہو۔ کہنے کو اس میں ایک شری رام ریسرچ سینٹر بھی ہے پر اس کا پچھلے بیس پچیس سال میں ایودھیا کو لےکر ہوئےناقابل فراموش ریسرچ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہی حال معروف و مشہور ایودھیا تحقیقاتی ادارہ کا بھی ہے۔فی الحال، کوئی نہیں جانتا کہ ایودھیا کو ان غموں سے نجات کب ملےگی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر