وبھوتی نارائن رائے کی یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہئے جو جمہوری ہندوستان کے غیر جمہوری چہرے کو دیکھنا چاہتا ہو ۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے کے ہاتھوں تحریر کی گئی یہ کتاب فرقہ وارانہ فسادات کی داستان ہی نہیں ہندوستانی مسلمانوں کی مظلومیت ، بے چارگی اور انصاف سے محرومی کا نوحہ بھی ہے ۔ یہ کتاب تحریر کرنے میں وبھوتی نارائن رائے کو ،جو ہندی کے ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں ،29 سال لگے !اور کتاب ہاشم پورہ قتل کی 30ویں برسی پر شائع ہوئی ۔ تین دہائیوں کا عرصہ مختصر نہیں کہا جاسکتا ۔ مگر اس لمبی مدت میں بھی نہ میرٹھ اور ملیانہ اورنہ ہی ہاشم پورہ قتل عام کے متاثرین کو انصاف مل سکا ہے اور نہ ہی قصورواروں کو جنہیں میرٹھ کے مسلمان ’مجرم‘ قرار دیتے ہیں۔سزا ہی دی جاسکی ہے ۔
اور یہ ’قصوروار‘ یا ’ مجرم‘ کوئی اور نہیں پولیس والے ہی ہیں ، یوپی کی بدنام زمانہ پی اے سی کے جوان۔ یہ کتاب اس لئے ایک خاص اہمیت اختیار کرلیتی ہے کہ پولیس والوں کی درندگی اور مسلمانوں کی مظلومیت کو ایک پولیس والے نے ہی اُجاگر کیا ہے ۔
کتاب ابتدائیہ کے علاوہ نو ابواب پر مشتمل ہے۔ ہاشم پورہ کے قتل عام کی داستان انتہائی دل دہلانے والے انداز میں تحریر کی گئی ہے ۔حقائق سے کہیں روگردانی نہیں کی گئی ہے۔میرٹھ کے فسادات کا دور شدیدقسم کی فرقہ پرستی کا دور تھا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک زوروں پر تھی، راجیوگاندھی نے مسجد کا بند دروازہ کھلوا دیا تھا۔فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ پی اے سی نے اپنے ہی ایک مسلم افسر کی تقریباً اس وقت جان لے لی تھی جب اس نے مسلمانوں کو ہراساں کئے جانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ان حالات میں22؍ مئی1987 کو وہ واردات ہوئی جسے رائے نے ’ ہندوستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ قرار دیا ہے ۔ اس رات جو کچھ ہوا رائے نے پہلے باب میں اسے بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ انہوں نے یہ پتہ لگانے کی بھی کوشش کی ہے کہ ہاشم پورہ قتل عام کی ’ وجہ ‘ کیا تھی؟
بات 21 مئی 1987 سے شروع ہوتی ہے جب ایک فوجی افسر میجر ستیش چندرکوشک کےبھائی پربھات کوشک کو ، جو مکان کی چھت پر تھا ایک گولی آکر لگی اور اس کی موت ہوگئی۔ بتادیں کہ ستیش اور پربھات کی خالہ شکنتلا شرما بی جے پی کی اس وقت کی شعلہ بیان لیڈرتھیں ۔21 مئی کو پربھات کی موت ہوئی اور22 مئی کو پی اے سی کی 41ویں بٹالین کمانڈر سریندر پال سنگھ کی قیادت میں ہاشم پورہ پہنچی ۔ گواہ موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ پی اے سی کی ٹکڑی کے ساتھ میجر ستیش چندر کوشک بھی تھے۔42 مسلم نوجوانوں کو بندوقوں کی نوک پر گھروں سے نکال کر ٹرک میں بھرا گیا ۔ ٹرک پہلے مرادنگر پہنچا پھر مکن پور، جہاں اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے کنارے پرمسلم نوجوانوں کو ٹرک سے اترنے کے لئے کہا گیا ، وہ جیسے جیسے اترتے گئے ویسے ویسے پی اے سی والے انہیں گولی ماکر ندی میں پھینکتے گئے ۔ ’ہاشم پورہ22 مئی ‘ان ہی مقتولین کی داستان ہے ۔ دو ایسے افراد کی زبانی یہ ساری المناک داستان رائے نےجمع کی ہے جو گولی باری سے شاید اس لئے بچ نکلے تھے کہ دنیا کے سامنے پی اے سی کی درندگی کو افشا کرسکیں ۔رائےلکھتے ہیں ؛
’’رات کے کوئی ساڑھے دس بجے ہونگے ، ہاپوڑ سے میں بس ابھی واپس لوٹا ہی تھا ۔ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی کو ان کی سرکاری رہائش گاہ پرچھوڑ کر میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر اپنے گھر کے قریب پہنچا ہی تھا کہ میری کار کی ہیڈلائٹس ڈرے سہمے وہاں کھڑے سب انسپکٹر وی بی سنگھ پر پڑیں جو لنک روڈ پولیس اسٹیشن کے انچارج تھے۔ مجھے احساس سا ہوا کہ اس کے حلقے میں کوئی خوفناک بات ہوگئی ہے ۔ میں نے ڈرائیور سے کارروکنے کو کہا اور باہر نکل آیا ۔‘‘
اس کے بعد رائے نے سنگھ کی زبانی یہ خبر سننے کی تفصیل بیان کی ہے کہ پی اے سی نے چند مسلمانوں کو قتل کردیا ہے ۔رائے کے دماغ میں سوالات اٹھنے لگے ، انہیں کیوں قتل کیا گیا ہے ؟ کتنوں کو قتل کیا گیا ہے؟ انہیں کہاں سے اٹھایا گیا تھا؟ رائے نے ان سوالات پر غور ہی نہیں کیا بلکہ وہ مرادنگر کی سمت روانہ ہوئے ۔ اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہوئے قتل عام سے تین افراد بابودین، ذوالفقار اور قمرالدین بچ نکلے تھے ۔ بابوالدین کورائے نے ندی سے نکالا تھا ، اس کو دوگولیاں لگی تھیں ۔
آج30سال بعد لوگوں کے ذہنوں سے ہاشم پورہ قتل عام کے نقوش محو ہوچکے ہیں جنہیں دوبارہ اجاگر کرنے کا کام رائے نے اس کتاب سے کیا ہے۔۔ رائے نے اسے ’آزاد ہندوستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ کہا ہے۔ وہ اسے ’ریاست کی بہت بڑی ناکامی‘ قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی واردات ہے جس میں ریاست کے ایجنٹ قاتلوں کے ساتھی بنے ہوئے تھے اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے ۔
جب ہاشم پورہ کی واردات ہوئی تھی تب رائے پڑوسی ضلع غازی آباد میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے ۔انہوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ پی اے سی کی چھاونی بھی گئے اور اس ٹرک کو بھی دیکھا جس میں مسلمانوں کو بھر کرلے جایا گیا تھا، ٹرک کو پانی سے دھویا جارہا تھا۔رائے نے اعلیٰ پولیس افسران تک ’قتل عام‘ کی خبر پہنچائی۔ قتل عام کا معاملہ درج کرانے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کی ۔ انہوں نے تفتیشی ایجنسیوں کی چھان بین پر نگاہ رکھی۔ پی اے سی والوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھی۔ انہوں نے پایا کہ ’ ریاست اور پولیس نے مل کر قتل عام کی ایک المناک واردات پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ ‘
رائے نے 22 مئی کے روزہی پی اے سی کی چھاونی پر ’چھاپہ مارنے‘ کی تجویز پیش کی تھی جو ٹھکرادی گئی تھی۔ یہ تجویز انہوں نے صرف اعلیٰ پولیس افسران کو نہیں اس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے سامنے رکھی تھی۔اس وقت رائے نے ’قتل عام‘ کی واردات سے بھی انہیں باخبر کیا تھا اور یہ تجویزبھی سامنے رکھی تھی کہ پی اے سی کی چھاؤنی پر چھاپہ مارا جانا چاہئے تاکہ ثبوت اکٹھے کئے جاسکیں۔ مگر کانگریس نے ہمیشہ کی طرح میرٹھ فسادات اور ہاشم پورہ قتل عام کو بھی نہ صرف دبانے کی بلکہ ساری واردات کو ’ من گھڑنت‘ قرار دینے کی کوشش کی اور اس میں وہ اعلیٰ پولیس افسر بھی شریک تھے جنہیں یہ خبر رائے نے خود دی تھی کہ قتل عام ہوا ہے۔ رائے کہتے ہیں کہ ہاشم پورہ کے مقتولین اور متاثرین کیسے جمہوریت کے تینوں ستونوں کی طرف سے نظرانداز کئے گئے بلکہ تینوں ہی ستونوں یعنی مقننہ، عاملہ اور عدلیہ نے ان سے ’ ناانصافی‘ کی ۔وہ لکھتے ہیں کہ ہاشم پورہ قتل عام کی کہا نی ’’ہندوستانی ریاست اور اقلیتوں کے درمیان گھناونے تعلقات کی ، پولیس کے اخلاقی رویّے اور پریشان کن سست رفتار عدالتی نظام کی کہانی ہے ۔ ‘‘رائے کے مطابق ’’ ہاشم پورہ آج بھی بہیمانہ ریاستی جبر اور ایک بے ریڑھ والی ایسی حکومت کی علامت بنا ہوا ہے ،جو اپنے ہی لوگوں ۔۔۔قاتلوں کے آگے سرنگوں ہوگئی تھی۔‘‘
ایک پولیس اور انٹلی جنس افسر کے طور پر رائے نے تفصیل سے بتا یا ہے کہ کیسے ’ تفتیش‘ کا رخ موڑا گیا ۔وہ بہت سارے چہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور بہت سارے کرداروں کے ’رویّے‘ کو اجاگر کرتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیسے اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہوئے قتل عام سے بچنے والے نوجوانوں کو وہ محفوظ ٹھکانے تک لے گئے ۔ وہ مرحوم سید شہاب الدین سے ملاقات کا اور بابودین کو ان کے سامنے پیش کرنے، ان کی ڈاکٹر صاحبزادی کی جانفشانی اور ان کے ذریعے ہاشم پورہ قتل عام کو اجاگر کرنے کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے کرتے ہیں ۔
راجیوگاندھی، پی چدمبرم (ان دنوں وزیر داخلہ تھے)، ایل کے اڈوانی وغیرہ کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے ۔راجیوگاندھی نے پہلے ’ دلچسپی‘ دکھائی تھی پھر ’بے رخی‘۔ اس زمانے کی میرٹھ کی رکن پارلیامنٹ محسنہ قدوائی کا بھی ذکر ہے جنہوں نے دوٹوک انداز میں رائے کی مدد سے انکار کردیا تھا۔
وبھوتی نارائن رائے نے جس کتاب کو تحریر کرنے کا آغاز1987 سے کیا تھا اس کی تکمیل وہ ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمے کے فیصلے کے بعد کرنا چاہتے تھے ۔ فیصلہ 21 مارچ 2015 کو آیا ، اس سے قبل 21 جنوری 2015 کو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا ، عدالت نے اپنے فیصلےمیں تمام ملزم پولیس والوں کو بری کردیا ۔ رائے اس فیصلے پر کہتے ہیں کہ’ فیصلہ افسوسناک ضرور ہے مگر امید کے برخلاف نہیں‘۔ رائے کا ماننا ہے کہ جانچ کو دانستہ غلط رخ دیا گیا ۔ وہ اپنی تحریر میں مسلم قائدین پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں ، اس وقت کی ایم پی محسنہ قدوائی ان کے قلم کی کاٹ سے نہیں بچ پاتیں اور نہ ہی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ،سی آئی ڈی سید خالد رضوی اور اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی جو ای وی ایم پر اُٹھنے والے اعتراضات کے دور میں الیکشن کمیشن تھے ۔
وبھوتی نارائن رائے کی یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہئے جو جمہوری ہندوستان کے غیر جمہوری چہرے کو دیکھنا چاہتا ہو ۔ کتاب انگریزی میں پنگوئن نے شائع کی ہے ۔ ہندی میں بھی ہے ۔ ضرورت ہے کہ یہ اردو زبان میں بھی آئے ۔
Categories: ادبستان, حقوق انسانی