فکر و نظر

نارتھ ایسٹ ڈائری :ایک بیماری جس نے گاؤں کی تقدیر بدل دی

برسوں پہلےاس علاقے میں ہیضہ کی وبا پھیلی تھی،جس سے کئی بچوں کی موت ہوگئی ۔اس صوبہ کا موسم انگلینڈ سے مطابقت رکھتا ہے، اسلئے یہاں کرکٹ کی ٹریننگ کھلاڑیوں کو انگلیڈ کی کاونٹی کےلئے تیار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

NEPic_Iftikhar

سرسبز وادیوں،وسیع و عریض جنگلات، قد م قدم پر ندی نالوں اور آبشاروں سے پر نظاروں کا لطف اٹھاتے ہوئے پہاڑوں کو چیر کر پیچ در پیچ راستوں پر سفر کرتے ہوئے کشمیر کے خطہ پیر پنچال یا وادی چناب کا گما ن ہوتا ہے۔ مگر یہ کشمیر سے کوسوں دور چین ، بنگلہ دیش اور برما کی سرحدوں سے ملحق دنیا کے طویل ترین کوہستانی سلسلہ ہمالیہ کی گود میں بسا بھارت کا شمال مشرقی خطہ ہے۔ قبائلی اکثریتی والے اس علاقہ کے کل8میں سے 6صوبے دہائیوں سے عسکریت کی زد میں ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت61عسکری تنظیمیں اس خطہ میں کہیں پر علٰیحدہ وطن ، خود مختاری اور کہیں پر حق خود اختیاری کے نام پر سرگرم ہیں۔ان میں14تنظیموں کو حکومت نے ممنوعہ قرار دیا ہے۔ فی الوقت 23تنظیمیں سرکاری فورسز یا دیگر قبائل یا نسل کے گروپوں کے ساتھ دست و گریبان ہیں، جن میں سب سے زیادہ یعنی 7تنظیموں کا تعلق میگھالیہ سے ہے۔24دیگر تنظیمیں حکومت کے ساتھ مفاہمت اور گفتگو کے مختلف مراحل میں ہیں۔اس کے علاوہ دہائیوں سے سرگرم 94عسکری تنظیمیں اب غیر فعال ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ 8میں سے 5ریاستوں یعنی منی پور،اروناچل پردیش، میزورم، ناگالینڈاور میگھالیہ میں عیسائی اکثریت میں ہیں۔جبکہ آسام،سکم اور تری پورہ ہندو اکثریتی صوبے ہیں۔گذشتہ ہفتے مجھے اس خطے کی دو ریاستوں آسام اور میگھالیہ کے دورہ کا موقع ملا۔ میگھالیہ کے دارالحکومت شیلانگ میں بھارتی فضائیہ کی ایسٹرن کمانڈ کا مستقر اور فوج کی 101بریگیڈ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ 1971کی جنگ میں اسی بریگیڈ نے یہیں سے کوچ کر کے سلہٹ میں پیش قدمی کی تھی اورڈھاکہ پر قبضہ کیا تھا۔ شیلانگ سے متصل اس بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر کے صدر دروازہ پر جنرل عامر عبداللہ خان نیازی اور جنرل جگجیت سنگھ ارورہ کے ساتھ اس بریگیڈ کی ڈھاکہ آمد کی قد آدم تصاویر آویزاں ہیں۔

یہ صوبہ میگھ یعنی بادلوں کے نام سے موسوم ہے۔ سال میں اکثر یہ بادلوں سے گھرا رہتا ہے۔ پہاڑی راستوں پر کئی مقامات پر لاری بادلوں کو چیر کر نکلتی ہے۔ شیلانگ کلب میں بغل کے کمرے سے غیر متوقع طور پر اونچی آواز میں کسی کو کشمیر ی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ لگا شاید عالم خواب ہے یا سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے کان بج رہے ہیں۔ تجسس کے مارے جب اس کمرے کے دروازے پر دستک دی، توپتہ چلا کہ جموں و کشمیر کی کرکٹ ٹیم براجمان ہے۔ معلوم ہوا چونکہ اس صوبہ کا موسم انگلینڈ سے مطابقت رکھتا ہے، اسلئے یہاں کرکٹ کی ٹریننگ کھلاڑیوں کو انگلیڈ کی کاونٹی کےلئے تیار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ بارش اسی صوبہ کے دو پہاڑی قصبوں چراپونجی اور ماوسرام میں ہوتی ہے ۔ یہ دونوں قصبے آمنے سامنے دو پہاڑیوں پر واقع ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باوجود پچھلے سال چراپونجی میں 12,100ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ اس صوبہ کی ایک اور خاص بات یہ ہے، کہ دارلحکومت شیلانگ سے تقریباً100کلومیٹر دور بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ایشیا ءکا سب سے صاف ستھرا گاؤں ماؤلینگ واقع ہے۔

NE_IftikharGilani

شمالی ہندوستان میں غلاظت، کوڑا کرکٹ اور تعفن زدہ علاقہ دیکھ کر ہی یقین ہوجاتا ہے، کہ ہو نہ ہو یہ مسلم بستی ہوگی۔تین سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی کےلئے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے فلسفہ کو اپنانا اور اسکی ترویج کرنا ایک ٹیڑھی کھیر تھی۔2002کے مسلم کش فسادات میں رول اور ایک پولرائزڈشخصیت کے بطور وہ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی نمائندگی کرنے سے قاصر تھے۔اسلئے سوچ سمجھ کر اس نے سیاسی فلسفہ کے بجائے گاندھی کی صفائی پسندی کو ایک مشن کے روپ میں اپنا کر جنگ آزادی کے قائد کے ساتھ نسبت بنائے رکھنے کی سعی کی اور گاندھی کی 150ویں یوم پیدائش یعنی دو اکتوبر 2019تک پورے بھارت کو صاف و پاک کرنے کا تہیہ کرلیا ۔موجودہ بجٹ میں اس مشن کےلئے 100ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔مگر متواتر خبریں آرہی ہیں کہ یہ مہم کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔آخروافر رقوم کی فراہمی کے باوجود اس مشن کو خاطر خواہ کامیابی کیوں نہیں مل پارہی ہے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کےلئے میں شیلانگ سے علی الصبح ماولینگ کےلئے روانہ ہوا۔ پہاڑی راستوں پرساڑھے تین گھنٹہ کے تھکا دینے والے سفر کے بعد میں اس بے داغ اور ایشاءکے سب سے صاف ستھرے گاؤں کے بیچ کھڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ 500نفوس پر مشتمل اس گاؤں میں صفائی کی شروعات مودی کی شاید سیاست میں آنے سے بہت پہلے 1988میں ہوئی تھی۔قصہ یہ تھا، کہ علاقہ میں ہیضہ کی وبا پھیلی تھی،جس سے کئی بچوں کی موت ہوگئی۔ دو سال تک مسلسل اس وبا نے گاؤں کو لپیٹ میں لیا تھا۔ تبھی مقامی پرائمری اسکول کے ایک ٹیچر ریشوت کھونگتھورم نے گاؤں کی پنچایت میں ہیضہ سے نمٹنے کےلئے گاؤں کی صفائی اور ستھرائی کروانے کی ایک تجویز دی۔ جس کو ناقابل عمل قرار دیکر مسترد کیا گیا۔ مگر اس ٹیچر نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے کچھ نوجوانوں اور فوت شدہ بچوں کے والدین کو ساتھ ملاکر پنچایت کو قائل کیا کہ ان کی زندگیاں گاؤں کی صفائی سے منسلک ہیں۔ کھونگتھورم اب ایک ریٹائرڈ زندگی گذار رہے ہیں۔ ماضی کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے اس نے کہا کہ پہلے مرحلے پر گاؤں والوں کو حکم دیا گیا کہ سبھی پالتوجانورں کےلئے احاطہ بنا کر ان کو بند رکھا جائے۔ آوارہ جانوروں کےلئے پنچایت نے احاط بناکر انکو محدود کردیا۔پھر گھروں کے اند ر بیت الخلا اور ہر صحن میں دو سیپٹک ٹینک بنانے کا فرمان جاری ہوا۔ ایک ٹینک بیت الخلا سے منسلک کرنے کےلئے اور دوسرا حیاتیاتی فضلہ کو ٹھکانے لگانے کےلئے۔یہ فضلہ کچھ عرصہ کے بعد کھاد میں تبدیل ہوکر کھیتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔گاؤں کے کھیتوں میں کیمیائی کھاد کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا۔

چند سال قبل گاؤں میں سگریٹ اور تمباکو نوشی پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسطرح ہر گھر میں بانس کے بنے دو کوڑے دان موجود ہیں۔ہر صبح مرد و عورتیں نامیاتی اور غیر نامیاتی کوڑے کو الگ کرکے علیحدہ کوڑے دانوں میں ڈال دیتے ہیں۔گاؤں کے سرپنچ بانجوپ تھییا ؤکے مطابق ہر ماہ کی مقررہ تاریخ ایک سرکاری ٹرک اس غیر نامیاتی فضلہ کو شیلانگ لے جاتا ہے، جہاں اسکو فیکٹریوں کے حوالے کرکے ری سائیکل کردیا جاتا ہے۔ہر مکان کے سامنے ایک چھوٹا سا گارڈن ہے۔ علاقہ میں گیس کی سہولیت ابھی نہیں پہنچی ہے۔ مگر مکان کے اند ر لکڑی کے چولہے والے کچن کی صفائی اور سلیقہ سے رکھے برتن اور ایندھن کسی پانچ ستارہ ہوٹل کو شرمندہ کرسکتے ہیں۔پانی کی نکاسی کا نظام زیر زمین ہے اور مستعمل پانی گاؤں میں بنی ایک ٹینک میں جمع کیا جاتا ہے، جہاں اسمیں کوڑا کرکٹ الگ کرکے اور پھر اسکو ریت اور کوئلہ سے فلٹر کرکے پاس کے نالہ میں بہنے کےلئے چھوڑا جاتا ہے۔ مودی کے کلین انڈیا مشن پر مامور سرکاری افسران آج کل دور دراز کا سفر طے کرکے اس گاؤں میں وارد ہوجاتے ہیں ۔ بھارت کے دیگر صوبوں میں سرپنچ بانجوپ تھییا ؤکی زبردست مانگ ہے، جہاں و ہ آبادیوں کو صاف ستھرا رکھنے کے گر سمجھاتے ہیں۔جس طرح کشمیر کو جنت ارضی، کیرالا کو God’s Own Country یعنی ملک خدا کے لقب سے نوازا جاتا ہے، یہ گاؤں اب God’s Own Gardenیعنی خدا کا اپنا باغ کے نام سے جانا جاتا ہے۔چونکہ یہ گاؤں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کےلئے ایک کشش رکھتا ہے اور گاؤں میں داخلے کےلئے ہرلاری سے پنچایت ٹیکس وصول کرتی ہے۔ اسلئے اس کو گاؤں کی سڑکوں، پگڈنڈیوں کی مرمت وغیرہ کےلئے سرکاری امداد پر انحصار نہیں کرنا پڑتا ہے۔

NEPic2_IftikharGilani

گاؤں میں 22گیسٹ ہاوس ہیں جو مئی اور ستمبر کے درمیان بھرے رہتے ہیں۔ اسی طرح گاؤں کے مرکز میں سات ریسٹورنٹ سیاحوں کو آرگنک فوڈ فراہم کرواکے بھی پیسہ کماتے ہیں۔ ابتدا میں دیگر گاؤں والے ماؤلینگ کے نواسیوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ مگر جب صفائی کے ساتھ خوشحالی نے بھی اس گاؤں میں ڈیرا ڈالا، تو حکومت نے اس ماڈل کو دیگر علاقوں میں بھی اپنانے کی کوشش کی۔ مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پارہی ہے۔جب میں نے اس منصوبہ کے خالق ریٹائرڈ ٹیچر ریشوت کھونگتھورم سے اس کی وجہ جاننی چاہی تو اس نے کہا ”کہ صفائی ایک سماجی عادت ہے۔ فنڈز اور جبر کے زور پر عادت بدلی نہیں جاسکتی۔ اس کےلئے اجتماعی ضمیر کو بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو حکومتوں اور اسکے افسروں کے بس کی بات نہیں ہے۔“ جاتے جاتے اس ٹیچر نے مجھ سے سوال کیا، کہ اس کے مطالعہ کے مطابق اسلام دھر م میں صفائی پر خاصا زور دیا گیا ہے۔ ”میں نے پڑھا ہے کہ پیغمبر صاحب کو صفائی عزیز تھی، مگر سب سے زیادہ گندگی مسلم بستیوں میں کیوں پائی جاتی ہے؟“ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ رسول کے نام کے شیدائی ہونے کا ہمیں دعوٰی تو ہے، مگر شاید ہم عشق رسول اور سیر ت سے بے بہرہ ہیں۔ اپنے علاقوں اور بستیوں کو صاف ستھرا رکھنے سے بھی دوسری قوموں تک اسلام کے آفاقی پیغام کو پہچانے میں مدد مل سکتی ہے۔