حقوق انسانی

بھوپال گیس سانحہ :گیس متاثرین کے سب سے بڑے اسپتال میں ڈاکٹر کام کیوں نہیں کرنا چاہتے؟

’جس سسٹم میں ہر کام محض خانہ پری کے لیےکیا جاتا ہو، وہاں توقع نہیں کی جا سکتی کہ گیس متاثرین کے لیے حکومتیں بہتر علاج کا انتظام کریں گی۔‘

Bhopal-Gas-Tragedy-Relief-Hospitals

بھوپال گیس سانحہ کے وقت کرشنا جگ تاپ محض 9 سال کی تھی۔ اس رات مچی بھگدڑمیں ایک گاڑی سے ٹکراکر ان کے گھٹنے زخمی ہو گئے تھے۔ حالانکہ وہ چل پھر تو سکتی تھیں لیکن ایک عام آدمی کی طرح ان کے گھٹنے اب کام نہیں کرتے تھے۔اس وقت  سے ہی وہ اسپتالوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ پچھلے کچھ وقت سے ان کا علاج مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعے گیس متاثرین کے مفت علاج کے لئے بنائے گئے 6سرکاری گیس راحت اسپتالوں میں سے ایک ماسٹر لال سنگھ اسپتال میں چل رہا تھا۔ لیکن پچھلے دو مہینے سے ان کا علاج نہیں ہوا ہے۔

اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ‘یہاں پر پہلے آرتھوپیڈک ڈاکٹر سنے جا ہوا کرتے تھے۔ دوسرے ڈاکٹر بھی تھے تو علاج ہو جاتا تھا۔ لیکن اب یہاں پر کوئی ڈاکٹر ہی نہیں ہے۔ اب کس کو دکھائیں؟ یہ کہتے ہیں کہ ڈی آئی جی بنگلہ میں واقع جواہر لال نہرو اسپتال جاؤ۔ لیکن ہمارے پاس کرایہ بھاڑا ہو تب تو جائیں۔ ہم مجبور ہو جاتے ہیں تو رہ جاتے ہیں۔ علاج کیسے ہو اب؟ بیماری کیسے صحیح ہو؟ حمیدیہ اسپتال ضرور پاس ہے لیکن کھڑے ہوتے نہیں بن رہا ہے۔ کیونکہ اب دوا بند ہے۔ جب تک دوا کھاتی تھی، آرام ملتا تھا۔ دوا بند ہونے سے تکلیف بڑھ گئی ہے۔ ‘

گیس راحت اسپتالوں میںمتعلقہ مرض کے  ڈاکٹروں کی کمی کے سبب علاج سے محرومی کی کہانی کرشنا جگتاپ جیسی اور بھی ہیں۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں نے بھوپال گیس متاثرین کے لئے مفت اسپتال اور  مرکز تو بنا دئے ہیں لیکن وہاں ان کو علاج ملے‌گا ہی، یہ طے کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے۔مدھیہ پردیش حکومت نے گیس متاثرین کو مفت علاج مہیّا کرانے کے مقصد سے 6 گیس راحت اسپتالوں کی تعمیر کرائی تھی۔ جو مدھیہ پردیش حکومت کے بھوپال گیس سانحہ راحت اور بازآبادکاری محکمہ  کے تحت کام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ 9ڈےکیئر یونٹ اور 9 یونانی، آیورویدیک اور ہومیوپیتھی مراکز بھی ریاستی حکومت نے متاثر ہ علاقوں میں قائم کئے ہیں۔

تو وہیں بھوپال میموریل اسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر (بی ایم ایچ آر سی)بھوپال کا سب سے بڑا گیس راحت اسپتال ہے۔ اس کا قیام سال 1998میں سپریم کورٹ کے ایک آردڈرکے تحت ہوئی تھی اورسپریم کورٹ کے حکم پرہی بھوپال میموریل اسپتال ٹرسٹ (بی ایم ایچ ٹی)اس کو چلاتا تھا۔موجودہ وقت میں ا س کا ذمہ مرکزی حکومت کےڈی ایچ آرکے پاس ہے۔ اس کے تحت بھوپال کے مختلف گیس متاثرہ علاقوں میں علاج کے لئے مفت آٹھ مرکز بھی چلائے جاتے ہیں۔اس طرح تمام 33 گیس راحت مراکز متاثرین کے علاج کے لئے بھوپال کے گیس متاثرہ علاقوں میں چل رہے ہیں۔ جہاں علاج کے لئے آنے والے مریضوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے کیونکہ علاج، دوا اور جانچ کا یہاں مفت ہے۔

باہری طور پر دیکھنے میں یہ نظام مفادعامہ کے لیے جان پڑتا ہے،لیکن مفت علاج دستیاب کرانا، معیاری علاج کی گارنٹی نہیں ہوتی۔یہ بات ان تمام اسپتالوں اور مراکز کے تناظر میں ثابت بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ مریضوں کا علاج ڈاکٹر کرتے ہیں، اسپتال کے بڑےبڑے ڈھانچے نہیں۔ لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ان تمام گیس راحت مراکز میں ماہرین  اور ڈاکٹروں کی کمی کے چلتے کئی سنگین بیماریوں سے منسلک  اہم شعبے خالی پڑے ہیں۔ وہیں معاون اسٹاف کی بھی بہت کمی ہے۔مدھیہ پردیش حکومت کے ذریعے قائم گیس راحت علاج اکائیوں میں تمام 1294 عہدہ منظور شدہ ہیں۔ پہلے زمرہ میں ماہرین، صلاح کار اور ایڈمنسٹریٹیو تقرری کے لئے تمام 89 عہدہ منظور شدہ ہیں اور دوسرےزمرہ طبی افسران کے 157 عہدہ۔

Bhopal-Gas-Tragedy-BMHRC-Memorial

وہیں معاون اسٹاف جن میں نرس اور پیرامیڈکل اسٹاف شامل ہوتے ہیں، کے 1048عہدہ ہیں۔ لیکن مدھیہ پردیش حکومت کے بھوپال گیس سانحہ راحت اور بازآبادکاری شعبے کے ذریعے جاری سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان تمام عہدوں پر بالترتیب 60،122اور 829 ملازم ہی  ہیں۔اس طرح 283 عہدے خالی ہیں۔ جس میں پہلے اور دوسرے زمرے کے سب سے زیادہ اہم خالی عہدوں کی تعداد 64ہے۔ جب ڈاکٹر ہی نہیں ہے تو علاج بھگوان  بھروسے ہی ہو سکتا ہے۔دوسری طرف بی ایم ایچ آر سی کا شاندار ڈھانچہ دیکھنے پر آنکھوں کو جتنا زیادہ سکون ملتا ہے، بدحال صحت خدمات اس سے کئی گنا زیادہ تکلیف دیتی ہیں۔

بھوپال گروپ آف انفارمیشن اینڈ ایکشن سے جڑے ستی ناتھ سارنگی کہتے ہیں، ‘ بی ایم ایچ آرسی کا حال دیکھیں‌گے تو پائیں‌گے کہ یہ تقریباً  پوری طرح سے بند ہے۔ مطلب وہاں پورے پورے شعبہ بند ہیں۔ پل مونری شعبہ پورا بند ہے۔ یہ شعبہ ہے جس میں گیس متاثر مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ 70 فیصد سے زیادہ ڈاکٹر اور ماہرین کے عہدے سالوں سے خالی ہیں۔ کوئی ڈاکٹر اس اسپتال میں کام کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ‘دستیاب دستاویز بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اپنی بیرونی شان و شوکت سے مسحور کرنے والے اس ہسپتال میں کام کرنا ڈاکٹر کسی ڈارونے خواب سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔

تمام گیس راحت اسپتالوں پر نگرانی کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے ایک پانچ رکنی نگرانی کمیٹی بنا رکھی ہے۔ یہ نگرانی کمیٹی تمام گیس راحت ہسپتالوں کے کام کاج کی مانیٹرنگ کرتی ہے اور اسپتالوں سے جواب طلب کرتی ہے۔ پھر اپنی رپورٹ اصلاح کے لئے ضروری مشورےکے ساتھ سہ ماہی  طور پر ہائی کورٹ کو سونپتی ہے۔اس کمیٹی کی صدارت اس وقت مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے سبکدوش جج وی کے اگروال کرتے ہیں۔  تقریباً  3.5 سال کے دور اقتدار میں اب تک 11 سہ ماہی  رپورٹ تیار کی جا چکی ہیں۔ جن کے مطالعہ کرنے پر ہم پاتے ہیں کہ ان سالوں میں بار بار تمام سفارشیں کرنے کے باوجود بھی بی ایم ایچ آرسی میں نیفرولاجسٹ (کڈنی ماہر) تک کی تقرری نہیں ہو سکی ہے۔

کڈنی کےماہرین کی تقرری نہ ہونے کا ذکر کرنا اس لئے بھی ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ گیس متاثرین میں کڈنی سے متعلق بیماری عام ہے۔ وہیں پہلی رپورٹ سے لےکر آخری رپورٹ تک ماہر ڈاکٹروں کی نوکری چھوڑنے، مختلف شعبوں میں ماہر ڈاکٹروں کے خالی اسامی کو جلد از جلد بھرنے کی سفارشیں بار بار کی گئی ہیں۔ لیکن اس دوران کچھ بھی نہیں بدلا۔یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ جسٹس اگروال کی صدارت والی نگرانی کمیٹی کی تیسری رپورٹ حالات کی خوفناکی کو بخوبی بیان کرتی ہے جس میں درج ہے، ‘کام کرنے کے حالات میں تبدیلیوں کے چلتے بی ایم ایچ آرسی کے مختلف شعبوں کے ماہر ڈاکٹر اپنی نوکری چھوڑ‌کے کہیں اور جا رہے ہیں۔ اس منتقلی کے چلتے اسپتال کا تقریباً ہر شعبہ جونیئر ڈاکٹروں کے بھروسے چل رہاہے۔ ‘یہ حالت تب سے اب تک قائم ہے۔ اور 11ویں رپورٹ میں بھی ماہر ڈاکٹروں کے لمبے وقت سے خالی عہدہ بھرنے، ڈاکٹروں کو کام کرنے بہترین ماحول پیدا کرانے کی سفارشیں کی گئی ہیں۔

ایسی حالت میں سمجھا جا سکتا ہے کہ گیس متاثرین کو حکومتیں کیسا علاج دستیاب کرا رہی ہیں؟ نگرانی کمیٹی کے صدر جسٹس اگروال کہتے ہیں، ‘بی ایم ایچ آرسی میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی کے چلتے علاج کا اسکوپ بہت کم ہو گیا ہے۔ اسی طرح ریاستی حکومت نے بھی گیس متاثرین کے لئے جواسپتال بنائے ہیں، وہاں بھی کئی شعبوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ کچھ اور کمیاں بھی ہیں، جیسے-ہائی جینک کنڈیشن بہت اچھی نہیں ہیں۔ ایمبولینس اور ایمرجنسی علاج کی سہولت نہیں ہے۔ سنگین بیماریوں سے متاثر مریضوں کو بھی خودہی ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال جانا ہوتا ہے۔ بس سردی، کھانسی،زکام جیسے معمولی علاج کا انتظام ہو رہا ہے۔ وقت وقت پر ہم دونوں ہی حکومتوں کا دھیان  متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن علاج کا اطمینان بخش انتظام پھر بھی نہیں ہو رہا ہے۔ ‘

ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ حالات پچھلے کچھ وقت میں بنے ہوں۔ پچھلی مانیٹرنگ کمیٹی کی 2004سے 2008کے درمیان تیار رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو پاتے ہیں کہ تقریباً  دہائی بھر سے زیادہ وقت سے مسلسل گیس راحت اسپتالوں میں ماہرین کی کمی، ڈاکٹر کی کمی،تکنیکی اسٹاف اور اس کی ٹریننگ کی کمی بنی ہوئی ہیں۔کوئی علاج پروٹوکال نہیں بنایا گیا ہے۔ دواؤں کی فراہمی نہیں ہے۔ مشینوں کا رکھ رکھاؤ صحیح نہیں ہے۔ انہی وجوہات کے چلتے تین دہائی بعد بھی گیس متاثر ین کی صحت سے متعلق مسائل کا حل نہیں ہو پا رہا ہے۔

یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر بی ایم ایچ آرسی جیسے بڑے اسپتال میں ڈاکٹر کام کیوں نہیں کرنا چاہتے؟

جسٹس اگروال کہتے ہیں، ‘8-7سال پہلے جو ڈاکٹروں کی کمی تھی اب اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ خاص طور پر یہ ہے کہ اس اسپتال نے اب تک سروس رولس نہیں بنائے ہیں۔ جس کے چلتے ڈاکٹر اپنے مستقبل کے  مدنظر دوسرے بڑے اسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔ وہاں ان کو بہتر ٹرمس اینڈ سروس کنڈیشن دستیاب کرائی جا رہی ہیں۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘دستیاب ڈاکٹر چھوڑ‌کے چلے گئے۔ نئے آ نہیں رہے۔ کیونکہ ان کے لئے کوئی پختہ آفر نہیں ہے۔ ایڈہاک لینا چاہتے ہیں جبکہ ان کو کہیں پرماننٹ جگہ مل سکتی ہے۔ غیریقینی کے درمیان کیوں کوئی ماہر آنا چاہے‌گا؟ یہ مرکزی حکومت کے ہی ہاتھ میں ہے۔لیکن وہ بس سالوں سے یقین دہانی کروا رہی ہے۔ شاید ان کی ترجیح صحت نہیں ہے۔ ‘

جسٹس اگروال کہتے ہیں، ‘بی ایم ایچ آرسی کو حکومتیں اتنی اہمیت نہیں دیتیں، یہ ہم محسوس‌کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہر بار یکساں جواب ملتا ہے کہ فائل اس ٹیبل سے اس ٹیبل پہنچ گئی ہے۔ اس کو اصلاح سمجھیں تو اصلاح ہے، پر ہماری سمجھ میں زیرو ہے۔ جب تک آدمی کو کھانا نہ ملا اور یہ کہنا کہ اس میں ہلدی ڈال دی، نمک ڈال دیا، بس چھونک لگانا ہے، اس کا کیا مطلب ہوا؟ بھوکا آدمی تو بیٹھا ہی ہے۔ مریض کو تو ڈاکٹر چاہئے۔ ‘وہیں ان اسپتالوں کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں مریضوں کو معیاری علاج بھلے ہی نہ دیا جائے لیکن مناسب علاج کی کمی ان کی جانیں ضرور جا رہی ہیں۔

گیس متاثرین کے حقوق کے لئے لمبے وقت سے لڑ رہیں رچنا ڈھینگرا بتاتی ہیں، ‘2004 سے 2008 کے درمیان بی ایم ایچ آرسی میں ہی گیس متاثرین پر خفیہ طور پر کلینکل ٹرائل ہوا۔ ایسے 13ٹرائل کئے گئے۔ ان میں سے جب تین کی آڈٹ ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا نے کیا تو پایا کہ 13 لوگوں نے ان میں اپنی جان گنوائی ہے۔ سوچئے ذرا کہ تمام ٹرائل کی تفتیش ہونے پر مردے کی تعداد کیا ہو سکتی ہے؟ ‘

غور طلب ہے کہ یہی وہ معاملہ تھا جس کے باہر آنے پر سپریم کورٹ نے سماجی کارکنوں کی عرضی پر بی ایم ایچ ٹرسٹ کوتحلیل کر دیا تھا۔اہم  بات یہ بھی ہے کہ ٹرسٹ کے تحلیل ہونے کے بعد سے اسپتال کا آپریشن کر رہی مرکزی حکومت اس کو چلانے کے لئے اب تک تین محکمہ بدل چکی ہے۔سب سے پہلے ڈپارٹمنٹ آف بایو ٹیکنالوجی اور ڈپارٹمنٹ آف ایٹامک انرجی نے مشترکہ طور پر اس کو سنبھالا۔ 2012 میں اس کو ہندوستانی طبی ریسرچ مرکز کے حوالے کر دیا گیا۔ اور 2016 سے اس کو ڈپارٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ریسرچ سنبھال رہا ہے۔جو صاف دکھاتا ہے کہ حکومت کے پاس اس کو چلانے کی کوئی پختہ اسکیم ہی نہیں ہے۔ ہاں، حکومت اب یہ ضرور چاہتی ہے کہ اس کو ایمس بھوپال میں ملا دیا جائے۔ لیکن اس بیچ حکومت بھول رہی ہے کہ یہ اسپتال ان پیسوں سے بنا ہے جو معاوضے کے طور پر یونین کاربائیڈسے وصول کیے گئے تھے۔ اس لئے اس پر پورا حق گیس متاثرین کا ہے۔ کیا اس کا انضمام گیس متاثرین سے ان کے حق چھیننے جیسا نہیں ہوگا؟جبکہ قابل غور  بات یہ بھی ہے کہ گیس متاثرین کی بیماری کوئی عام نہیں ہے۔ یہ یا تو میتھائل آئسوسائنیٹ گیس کی دین ہیں یا پھر یونین کاربائیڈ کے آس پاس آلودہ زیرزمیں پانی میں موجود نقصان دہ عناصر کا۔ اس لئے ان کے علاج کے لئے ریسرچ کی ضرورت ہے۔

Bhopal-Gas-Tragedy-BMHRC

ستی ناتھ کہتے ہیں، ‘تین دہائی گزرنے  پر بھی کوئی علاج پروٹوکال نہیں ہے۔ پروٹوکال کا مطلب ہے کہ گیس نے جسم کے الگ الگ نظام کو اندرونی نقصان پہنچایاہے۔ جس کے چلتے الگ الگ علامت سامنے آتی ہیں۔ اب اگر صرف فوری علاج دیں‌گے تو وہ علامت بار بار آتی رہیں‌گی۔ وہیں فوری علاج میں درد مارنے والی دوا اور اینٹی بایوٹک جیسی نقصان دہ دوائیں کھلائی جا رہی ہیں۔ جو فوری طور پر اس کو دبا دیتی ہیں لیکن بعد میں اس سےسنگین مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے اس موضوع پرریسرچ کی ضرورت ہے۔ ‘اس بات کی تصدیق گیس متاثر بھی کرتے ہیں۔ کملا نہرو اسپتال میں علاج کو آئے سید شاکر علی کہتے ہیں، ‘تب سے یہی حال ہے کہ جب تک دوا کھاؤ، ٹھیک۔ بند کر دو تو پھر وہی حال۔ ‘

کرشنا جگتاپ کہتی ہیں، ‘درد میں راحت تب تک ہی ہے جب تک دوا کھاؤں۔ ‘ شاکر علی اسپتال کی دوا تقسیم کرنے والے مرکز پر لائن میں کھڑے گووند باتھم کہتے ہیں، ‘ ڈاکٹر کبھی نہیں کہتے کہ ٹھیک بھی ہوں‌گے۔ بس سالوں سے سنتے آ رہے ہیں دوا کھاؤ۔ بند کرتے ہیں تو دقت بڑھنے لگتی ہے۔ ‘ گیس بہاؤ کا سب سے زیادہ اثر جھیلنے والے جے پی شہر کے باشندہ بھی یہی بات کہتے ہیں۔

حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ اس سے متعلق ریسرچ کی پہل نہ کی گئی ہو۔ بی ایم ایچ آرسی بھی ایک ریسرچ ادارہ ہی ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ جسٹس اگروال کے مطابق ایم ایچ آرسی میں بھی کوئی ریسرچ کام نہیں ہوا۔ساتھ ہی 2010 میں آئی سی ایم آر کے ذریعے نیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار انوائرمینٹل ہیلتھ (نریہ) کا بھی قیام بھوپال میں کیا گیا تھا، جس کا مقصد ہی میتھائل آئسوسائنیٹ کے اثر سے گیس متاثرین میں پیدا ہوئی بیماریوں پر ریسرچ کرنا تھا۔ستی ناتھ کہتے ہیں، ‘نریہ میں ریسرچ کا پہلا مقصد تھا کہ متاثرین کو کیا علاج دیا جائے، اس پر ریسرچ ہو۔ لیکن المیہ یہ ہےکہ سات سالوں میں اب تک کوئی ریسرچ شائع نہیں ہوا ہے۔ جبکہ تقرریاں برابر ہو رہی ہیں۔ ‘

 اصلاح کی جو کوشش بھی ہوئی ان پر حکومتوں نے کوئی باقاعدہ رد عمل نہیں دیا۔ بقول ستی ناتھ، ‘ ڈاکٹر آر شری نواس مورتی نے حادثے کے بعد 86-1985 میں گیس متاثرین کی دماغی صحت کے بارے میں ایک ریسرچ کیا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ 30 فیصد گیس متاثر سنگین دماغی بیماری کے شکار ہوئے تھے۔ 25 سال بعد وہی ڈاکٹر نریہ سے جڑے اور وہی ریسرچ انہوں نے دوبارہ بھی کی۔ تب چونکانے والے نتیجے سامنے آئے کہ حادثے کے 25 سالوں بعد میں لوگوں کے دماغی صحت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ ان کے مطابق ایسا پہلی بار دیکھا گیا تھا۔ ‘ستی ناتھ آگے کہتے ہیں، ‘اکثر بڑے حوادث میں وقت کے ساتھ لوگوں کے مزاج میں اصلاح ہو جاتی ہے۔ چرنوبل جیسے بڑے حوادث میں یہ دیکھا گیا ہے، لیکن بھوپال کے حالات الگ ہیں۔ اس ریسرچ کا فائدہ علاج میں لینے کے بجائے الٹے  حالات یہ ہیں کہ ریاستی حکومتی 6 اسپتالوں میں ایک ماہرنفسیات ہے وہ بھی پرماننٹ نہیں ہے۔ ‘

وہ بتاتے ہیں، ‘اسی طرح ڈاکٹر وجین نے بھی نریہ سے جڑے رہ‌کے پھیپھڑوں پر کام کیا۔ اور پایا کہ فیزیوتھراپی اور یوگ کے ذریعے حالات سدھارے جا سکتے ہیں انہوں نے اس کا ڈمانسٹریشن بھی کیا اور تبدیلی پائی۔ لیکن حکومتوں نے اس کی جانکاری تب بھی نہیں لی۔ ہم نے کوشش کرکے دو ریاستی حکومت گیس راحت اسپتالوں میں یوگ مرکز شروع کروائے۔ 2000 لوگوں کو فائدہ ہوا تو دیگر گیس راحت اسپتالوں میں بھی شروع کرنے کی مانگ کی۔ لیکن شروع کرنے کے بجائے حکومت نے مذکورہ دو اسپتالوں کے ماہر ڈاکٹروں کو خط لکھ‌کر پوچھا کہ کیا یوگ سے تبدیلی آ رہی ہے؟ انہوں نے یوگ کے اسپتال میں ضرورت نہیں بتائی۔ اور جو دو مراکز شروع ہوئے تھے، وہ بھی بند کر دئے گئے۔ ‘لوگوں پر گیس کے نقصان دہ اثرات جاننے کے لئے ریسرچ کی کمی ہی وجہ ہے کہ آج سیکڑوں کی تعداد میں گیس متاثرین کے معذور  بچّے علاج سے محروم ہیں اور ان کو صرف چنگاری ٹرسٹ کا ہی سہارا ہے۔

چنگاری ٹرسٹ کی فاؤنڈر حسینہ بی بتاتی ہیں، ‘گیس اور آلودہ  پانی کے نقصاندہ اثرات سے بچّے معذور پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے ماں باپ علاج کے لئے اسپتال لے جاتے ہیں تو ان کو یہ کہہ‌کر لوٹا دیا جاتا ہے کہ ان کا علاج ہی ممکن نہیں۔ تب وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔ 900 بچّے ہمارے پاس رجسٹرڈ ہیں۔سینکڑوں ٹھیک ہونے کے بعد جا چکے ہیں۔ ہم ان کو ٹھیک کر سکتے ہیں تو ڈاکٹر کیوں نہیں؟ ‘

وہ کہتی ہیں، ‘اصل میں اس سسٹم اورحکومت کے پاس قوت ارادی ہی نہیں ،حالات سدھارنے کی۔ نہ وہ خود کوشش کریں‌گے اور نہ کسی اور کی کوششوں کو منظور کریں‌گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ذریعے بار بار مدھیہ پردیش حکومت کی گیس راحت اور بازآبادکاری وزیر کو چنگاری میں مدعو کرنے پر بھی وہ کبھی نہیں آتے۔ ‘اصل میں جس نظام میں ہر کام محض خانہ پری  کے لیےکیا جاتا ہو، وہاں توقع نہیں کی جا سکتی کہ گیس متاثرین کو حکومتیں معیاری علاج دستیاب کرا سکیں۔اس لئے آج تین دہائی بعد بھی گیس متاثرین اس گیس کی جلن اپنی آنکھوں میں محسوس کرتے ہیں اور اپنے آنسوؤں  سے اس بنیادی نظام کو کھسکانے کی کوشش کرتے ہیں۔2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو یونین کاربائیڈ کے بھوپال واقع کارخانے سے نکلنے والی  زہریلی گیس میتھائل آئسوسائنیٹ سے3000لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور تقریباً 1.02لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)