بہار کے وزیراعلی پدماوتی فلم کے ریلیز میں الجھےہوئے ہیں۔ پدماوتی کی عزّت کی ان کو فکر ہے لیکن ریاست میں نابالغ دلت لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ اور فیملی کے تین لوگوں کے قتل کی واردات پر حکومت خاموش ہے۔
شیشہ کا دروازہ کھولکے ہم ایک بڑے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ سامنے آئی سی یو ہے۔ شیشہ کے باہر کچھ صاف نہیں نظر آ رہا ہے۔ میلے بستروں پر لمبی قطاروں میں مریض پڑے کراہ رہے ہیں۔ہم اندر جھانکتے ہیں۔ لڑکی کا چہرہ سوجا ہوا ہے، آنکھیں بند ہیں، دانت بھنچے ہوئے۔ اس کے چہرے سے تکلیف صاف جھلکتی ہے۔ ڈاکٹر کے چہرے پرغم کے آثار ہیں۔ وہ کہتے ہیں مریض کی حالت سنگین ہے۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ہم ہسپتال سے باہر آ تے ہیں۔ باہر لڑکی کے کچھ رشتہ دار ہیں ڈرے ہوئے، کھل کر کچھ کہنا نہیں چاہتے۔ ببلو چاچا زاد بھائی ہے۔ ساتھ میں چاچی ہے۔ 25 نومبر کی رات یہ واقعہ ہوا۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر دکھ کی گہری لکیریں ابھر آتی ہیں۔ اس کے رخسار اب بھی آنسووں سے گیلے ہیں۔ اس کی آنکھیں کہیں دور دیکھ رہی ہیں۔
24 نومبر کی رات بھاگل پور ضلع کے بیہپور کے جھنڈاپور گاؤں میں ایک دلت فیملی کے تین ممبروں کا بےدردی سےقتل کر دیا گیا۔ ان کی آنکھیں نکال دی گئیں، کسی دھاردار ہتھیار سے ان کا گلا کاٹ دیا گیا۔کنک رام اور 10 سال کے بچّے چھوٹو کا عضوتناسل کاٹ دیا گیا، بیوی مینا دیوی کا گلا کاٹ دیا گیا۔ خون سے لت پت فرش پر ان کی 14 سال کی بیٹی تڑپ رہی تھی۔اس کے جسم پر سے کپڑے نوچکر الگ کر دئے گئے۔ اس کا گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے سر پر لوہا کے ہتھیار سے حملہ کیا گیا تھا۔
یہ بھیانک اور خوفناک چہرہ ہمارے سماج کا ہے!
خون میں شرابور بچّی کو اس دن تک ہسپتال آئے ہوئے پانچ دن ہو گئے تھے۔ وہ کوما میں تھی۔ ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ اس کے سر میں گہری چوٹ ہے، خون جم گیا ہے۔اس وحشیانہ قتل پر حکومت کا کوئی بیان نہیں آیا نہ ہی اس بچّی کو دیکھنے کسی بھی سرکاری محکمے سے کوئی آیا۔ بہار کے وزیراعلی پدماوتی فلم کو ریلیز نہیں کرنے کے بیان میں الجھے ہوئے ہیں۔ پدماوتی کی عزّت کی فکر ہے ان کو۔
اسی ریاست میں ایک 14 سال کی دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ہوتی ہے، اس کی فیملی کے تین لوگوں کا بے دردی سے قتل ہوتاہے، لیکن حکومت خاموش ہے۔بیہپور کے جھنڈاپور گاؤں میں ملی جُلی آبادی ہے۔ دلت ٹولے میں 70 سے زیادہ گھر ہیں، جو ایک دوسرے سے بالکل سٹے ہوئے ہیں۔ کئی دلت فیملی مچھلی کے کاروبار سے جڑے ہیں۔
کنک رام نے حال ہی میں جلکر (مچھلی پالنے کا تالاب) کو ٹھیکے پر لیا تھا۔ جلکر پر اس علاقے کی اونچی ذات کا قبضہ ہے۔ اس قتل کے پیچھے جلکر تنازعہ اور دلتوں کی ترقی بھی ایک وجہ بتائی جا رہی ہے۔جس بچّی کا گینگ ریپ ہوا، وہ 7ویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ چودھری ٹولہ میں واقع سرکاری اسکول میں پڑھنے جاتی تھی، جہاں اس کے ساتھ کچھ دبنگوں نے چھیڑخانی کی، جس کی مخالفت لڑکی نے کی تھی۔ایسی کئی باتیں سامنے آ رہی ہیں، پر دہشت اتنی ہے کہ کوئی کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے ایک سال میں دلتوں اور خواتین پر ہو نے والے پرتشدد حملے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ویشالی کے دلت رہائشی اسکول میں ایک لڑکی کی آبروریزی کے بعد بہیمانہ قتل، بھاگل پور میں دلت خواتین پر حملہ اور روہتاس ضلع کے کاراکاٹ تھانہ علاقے کے موہن پور گاؤں میں 15 سال کے ایک دلت لڑکے کو دبنگوں کے ذریعے زندہ جلا دئے جانے سمیت کئی بڑے معاملے سامنے آئے۔
انڈیا ٹوڈے میں شائع اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک میں ہر 18 منٹ پر ایک دلت کے خلاف جرم ہوتا ہے۔ اوسطاً ہر روز تین دلت خواتین ریپ کا شکار ہوتی ہیں، دو دلت مارے جاتے ہیں، اور دو دلت گھروں کو جلا دیا جاتا ہے۔37 فیصدی دلت غریبی ریکھا سے نیچے رہتے ہیں، 54 فیصدی غذائی قلت کے شکار ہیں، فی ایک ہزار دلت فیملی میں 83 بچّے پیدائش کے ایک سال کے اندر مر جاتے ہیں۔
یہی نہیں 45 فیصدی بچّے ان پڑھ رہ جاتے ہیں۔ قریب 40 فیصدی سرکاری اسکولوں میں دلت بچّوں کو قطار سے الگ بیٹھکے کھانا پڑتا ہے، 48 فیصدی گاؤں میں پانی کے لئے چانپا کل وغیرہ پر جانا منع ہے۔جب ملک کے حالات یہ ہیں تو بہار کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہار اپنی نیم زمیندارانہ نظام سے اب تک نکل نہیں پایا ہے۔ اس کے اثرات آج بھی زندہ ہیں۔
سیاسی منظرنامے بھی بدلے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال امیر داس کمیشن کا ختم ہوناہے۔ دوبارہ اقتدار میں آتے ہی نتیش حکومت نے امیر داس کمیشن کو ختم کر دیا۔اسے ختم کرنے کے پیچھے کس کا دباؤ تھا یہ سب جانتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی یہ پرانی مانگ رہی ہے۔ امیر داس کمیشن بی جے پی کی اعلیٰ ذات کی سیاست کے لئے خطرہ رہا ہے۔
یہاں سماجی ڈھانچے میں دلت آج بھی حاشیے پر ہیں۔ یہ وہی بہار ہے جہاں نکسلباڑی تحریک کی جڑیں گہری رہی ہیں۔ جہاں دلتوں کے جدو جہد کی لمبی تاریخ رہی ہے۔ اس جدو جہد میں ان کی بستیاں، کھیت کھلیان جلتے رہے ہیں۔بہار نے ذات پات سے متعلق کئی فسادات دیکھے ہیں، جن میں رنویر فوج کا ہاتھ رہا ہے، جس نے دلتوں اور غریب خواتین کا قتل عام کیا۔ حاملہ خواتین کے حمل ضائع کر دیئےاور عورتوں کی چھاتیاں تک کاٹ دی گئیں۔
یہ فوج بہار میں آج بھی سر گرم ہے، جس کو ایک خاص سیاسی جماعت کا تحفظ ملا ہوا ہے۔ یہ مانا جا رہا ہے کہ ظلم ، بربریت اور عدم مساوات کے خلاف بولنے کی سزا دلتوں کو ملی ہے۔
اس طرح کے تشدد نے ہمارے سماج کو خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ ہمارا عام رویہ، ہمارا سماج، ہمارے خواب تک ان سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کتنی طرح کی دراڑیں ہیں ہمارے درمیان۔کسی بھی دراڑ کے پاس آگ لگائیے، بھاری مقدار میں سیاسی توانائی پھوٹ پڑتی ہے جس کا وہ استعمال کرتے ہیں۔جھنڈاپور گاؤں میں دہشت ہے۔ کوئی کچھ نہیں بولنا چاہتا۔ پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں نامعلوم لوگوں کے نام ہیں۔
جس دنیا کا ہم غم منا رہے ہیں وہ پہلے سے ہی بیمار اور مریض ہے، تشدد کا سروکار صرف حکومتوں سے نہیں ہے ۔ یہ ایک نظریہ ہے۔ یہ دنیا کے سامنے پوری طرح ننگے اور بے حیا کھڑے ہیں۔سب کی نگاہیں اس بچّی پر ہیں جو ہسپتال میں موت سے جوجھ رہی ہے۔ اس کے ہوش آنے پر شاید کوئی سراغ ملے۔ اگر اس کو ڈاکٹر بچا نہیں پائے تو کیا اس بے رحم قتل کے گنہگارپکڑے جائیںگے؟
(نویدیتا آزاد صحافی ہیں اور پٹنہ میں رہتی ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر