مہاراشٹر اور کرناٹک کے بعد پورے ملک میں جادو ٹونا جیسے رواج کے خلاف قانون بنانے کی ضرورت ہے۔
کیا مبینہ اشراف کی’برتر‘کمیونٹی کے پھینکے گئے جوٹھن بھرے پتوں پر لیٹکر’پردکشنا‘ کرنے یاچکر لگانے سے جلدسے متعلق مرض ٹھیک ہو جاتے ہیں؟ذرا سی عقل رکھنے والا شخص اس بات کو سرے سے خارج کر سکتا ہے، البتہ 21 ویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی یہ رواج کرناٹک کے کچھ ضلعوں میں جاری ہے۔
یاد رہے ششٹھی مہوتسو کے دوران کرناٹک کی اُڈُپی ضلع کے سبراہمنیم مندر اور دوسرے مندروں میں لوگوں کا اس طرح لیٹکے پردکشنا کرنا یا چکر لگانا گزشتہ کچھ سالوں سے سرخیوں میں رہا ہے۔انسان کی عظمت کو تار تار کرنے والی’مادے اسنان’نامی اس رواج کے خاتمہ کے لئے ریاست کے عقل و شعور رکھنے والے لوگوں کی طرف سےاورسماجی اورسیاسی کارکنوں کی طرف سے تحریک بھی چلی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ رواج اورعقیدے کی دہائی کی آڑ میں سماج کے رجعت پسندوں کی مخالفت کے چلتے یہ معاملہ لٹکا رہا ہے۔البتہ اب لگنے لگا ہے کہ اس رواج پر جلدہی پابندی لگ جائے گی، کیونکہ توہم پرستی کے خاتمہ کے لئے قانون پر گزشتہ دنوں کرناٹک حکومت نے مہر لگائی ہے۔بل کا عنوان ہے کرناٹک پری وینشن اینڈ اریڈکیشن آف ان ہیومن اِوِل پریکٹسیس اینڈ بلیک میجک ایکٹ 2017۔
المیہ ہی ہے کہ ملک کی سیاست میں الیکشن کی اتنی اہمیت بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے کچھ ضروری مسائل پر نہ بات ہو پاتی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں عوامی بیداری ممکن ہو پاتی ہے۔مجوزہ قانون کے تحت کسی کو آگ پر چلنے کے لئے مجبور کرنا، کسی کے منھ سے لوہے کا راڈ نکالنا، کالے جادو کے نام پر پتھر پھینکنا، سانپ یا بچھو کاٹنے سے زخمی شخص کو طبی مدد نہ دےکر اس کے لئے جادوئی علاج کا انتظام کرنا، مذہبی رسم کے نام پر کسی کو ننگا کرنا، بھوت کے خیال کو بڑھاوا دینا، چمتکار کرنے کا دعویٰ کرنا، اپنے آپ کو زخمی کرنے کے خیال کو بڑھاوا دینا وغیرہ پر روک لگےگی۔
واضح ہو کہ کرناٹک میں کانگریس کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد یہ بات چلی ہے کہ مہاراشٹر کی طرز پر کرناٹک بھی ایک بل بنائے، جس کا مسودہ بھی بنایا گیا تھا، مگر مختلف قسم کے راسخ العقیدہ اور قدامت پسند طاقتوں کی مخالفت کی وجہ سے اس کی مخالفت ہوتی رہی۔عوام کو اس بل کی اہمیت کے بارے میں سمجھانے کی کوشش بھی چلی تھی۔ مثال کے طور پربھوت پریت کے ‘وجود ‘ یا ان کی’بادبانی’ کو لےکر سماج میں موجود توہم پرستی کو چیلنج دینے کے لئے کرناٹک کے بیلاگاوی سٹی کارپوریشن کے تحت آتے وینکٹھ دھام شمشان میں کرناٹک کےاکسائیز وزیر جناب ستیش جرکی ہولی نے سیکڑوں لوگوں کے ساتھ وہیں رات گزاری اور کھانا بھی کھایا تھا۔
یاد رہے کہ مہاراشٹر کی طرز پر کرناٹک اسمبلی میں توہم پرستی مخالف بل لانے میں انتہائی فعال رہے وزیر دراصل لوگوں کے دل میں موجود اس فرضی کہانیوں کو دور کرنا چاہتے تھے کہ ایسے مقامات پر ‘ بھوت قیام ‘ کرتے ہیں۔مجوزہ قانون کو لےکے کرناٹک کے عقل و شعور رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس شکل میں اس مسودہ کو پہلے بنایا گیا تھا، اس میں کافی ساری چیزیں ہٹا دی گئی ہیں، لہذا یہ ایک کمزور بل ہے۔
کہہ سکتے ہیں کہ اندھ ‘شردھا نرمولن کمیٹی’ کو مہاراشٹر میں اٹھارہ سال تک لڑنا پڑا تھا اور ڈاکٹر دابھولکر کے قتل کے بعد جس طرح آناً فاناً میں بل کو منظور کیا گیا، اس سے واضح ہی تھا کہ اس کو کافی ہلکا کیا گیا تھا۔اس کے باوجود اس بات کو نشان زد کرنا ضروری ہے کہ بل پر لگی مہر صحیح سمت میں اٹھنے والا قدم ہے اور سائنسی فکر کے تمام لوگوں کو کمزور لگنے والے اس بل سے بھی ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ایسا ماحول بنانا چاہئے کہ کرناٹک میں اس مسئلے کو لےکر کوئی حیلہ بہانہ نہ دکھے۔
نریندر نایک جیسے ذی فہم،نے تحریک کی قیادت کر تے ہوئےاس بل کا (جن پر گزشتہ دنوں حملہ بھی ہوا) یہ کہہ کر استقبال کیا ہے کہ کم از کم شروعات تو ہوئی ہے۔یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر اس بل کے مبینہ طور پر ‘کمزور’بنے رہنے کی وجہ کیا ہے؟ دراصل جب سے اس بل کی گفتگو چل پڑی ہےتبھی سے ہندتووا تنظیموں نے یہ کہہکر ہنگامہ شروع کیا تھا کہ یہ ایک ‘ ہندو مخالف بل ہے ‘جبکہ اس کےمرکز میں تمام مذاہب کےرواج ہیں۔ہم یاد کر سکتے ہیں کہ ڈاکٹر دابھولکر اور ان کی تنظیم کو بھی ایسے لوگوں کی زبردست مخالفت جھیلنا پڑی تھی اور یہی کہا جاتا ہے کہ ان کے قتل کے پیچھے انہی انتہا پسندوں کا ہاتھ ہے۔
ہندتووا کے ذریعے مخالفت کی ان کہی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ بل ذات اور جنس کی بنیاد پرسلوک کو لے کرسوال اٹھاتا ہے، پھر چاہے مادے اسنان جیسا رواج ہو (خصوصاً دلت پسماندہ کمیونٹی کے لوگ مبینہ اعلیٰ ذاتوں کے جوٹھے پتّوں پر لیٹ کر پردکشنا کرتے ہیں)یا دیوداسی رواج کے نام پر انہی طبقوں سے آنے والی دوشیزاؤں کو مندر میں نذرکیا جاتا ہے، جہاں وہ زبردست جنسی استحصال اور ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔
اپنے ایک مضمون میں ورونی بھاٹیہ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ جیوں ہی آپ اس قانون کو اس نقطہ آغاز سے دیکھتے ہیں کہ وہ خصوصاً ذات اور جنس کی بنیاد پرامتیازی سلوک کے خاتمے کا بل ہے تو اس کی ترجیحات بدل جاتی ہے۔ وہ اس بات سے ہٹ جاتا ہے کہ مذہب کی سچائیاں کیا ہیں؟حالانکہ ان کو اس بات پر شک ہے کہ مجوزہ بل کے حامی اور مخالف دونوں کیا اس کو اس طرح دیکھ پائیںگے کہ وہ ‘امتیازی سلوک کے مخالف قدم ‘ ہے نہ کہ ‘ مذہب مخالف ‘ ہے۔
مہاراشٹر اور کرناٹک کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ باقی ریاست میں بھی ایسی کوشش ہونی چاہئے کہ پورے ملک کی سطح پر ایک مرکزی قانون بنے۔حقائق سامنے آئے ہیں کہ جب سے مہاراشٹر کا یہ جادوٹونا مخالف قانون بنا ہے (بھلے اس کے حدود ہیں) تب سے گزشتہ ساڑھے تین سال میں کم از کم چار سو باباؤں کے خلاف اس کے تحت مقدمہ درج کئے گئے ہیں جن میں سے سات قصوروار بھی پائے گئے ہیں۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ آئین (آرٹیکل 51 اے) انسانیت اور سائنسی فکر کو بڑھاوا دینے میں حکومت کے پرعزم رہنے کی بات کرتی ہے، یہ آرٹیکل ریاستی سوچ کو بڑھاوا دینے کی کی بھی بات کرتا ہے۔حال کے چند واقعات کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ ایسے قانون کی کتنی ضرورت ہے ،کہ عقیدہ کی دہائی دیتے ہوئے تمام غریبوں، محروموں کو ٹھگ اور فریب سے بچایا جا سکے اور پورے سماج میں سائنسی فکر کی عظمت پر اصرار کیا جاسکے۔مثال کے طور پر جب اس بل پر کرناٹک کابینہ نے مہر لگائی تھی ان دنوں ایک بےحد شرمناک سا لگنے والا نظارہ تمل ناڈو کے مدورائی ضلع کے ویلّالور مندر میں دیکھنے کو ملا تھا، جہاں سات دو شیزاؤں کو پندرہ دن تک ‘دیوی ‘ کی شکل میں مندر میں مرد پجاری کے ساتھ رہنا تھا،انھیں اوپرکے حصے میں لباس پہننے کی اجازت نہیں تھی۔
کسی صحافی نے اس مسئلے پر اسٹوری کی۔ کافی ہنگامہ مچا اور بالآخر حکومت کو مداخلت کرنی پڑی اور ہدایت دینی پڑی کہ اس رواج کو فوراً ختم کیا جائے۔حال کے وقتوں میں جن جن باباؤں کا پردہ فاش ہوا ہے، ان میں سے کئی ایک کے بارے میں یہی بات بار بار سامنے آئی ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے دائرہ اثر میں لانے کے لئے چمتکار دکھاتے ہیں یا جادوٹونا کرتے ہیں اور ان کو قبضے میں لےکر جسمانی اور ذہنی استحصال کرتے ہیں۔یقینی طور پر ملک کی سطح پر ایسے قانون کو نافذ کرنے کے راستے میں کافی چیلنج ہیں جس کی طرف جانےمانے فلم ایکٹر اور ہدایت کار جناب امول پالیکر نے پونے کے ایک عوامی جلسہ میں اشارہ کیا تھا۔
اندھ شردّھا نرمولن کمیٹی کے سرپرست نریندر دابھولکر کے قتل کے چار سال پورے ہونے کے موقع پر منعقد مجلس میں بولتے ہوئے انہوں نے صاف صاف پوچھا کہ جس ملک کے سرپرست سائنس دانوں کی کانفرنسوں میں ظاہری طور پر غیر سائنسی، روایتی باتوں کو ‘سائنس ‘کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوں، وہاں سائنسی تحقیق یا فکر کی اشاعت کی آخر کتنی گنجائش ہے؟
(مصنف سماجی کارکن اور مفکر ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر