ایک جانب پولیس ‘فسادی اورشیوسینک تھے ۔ ان کے ساتھ بی جے پی کے لیڈراور کارکنان بھی تھے ۔ حدتو یہ ہے کہ کئی جگہ آرپی آئی اورکانگریسی لیڈروں نے بھی فسادیوں کا ساتھ دیا۔ شیوسینا اور شیوسینا کے پرمکھ بال ٹھاکرے کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا ۔
پورے 25سال بیت چکے ہیں۔سلسلے وار بم دھماکوں کے مجرموں کو تو سزائیں مل چکی ہیں لیکن ممبئی کے جن فسادات سے سلسلے وار بم دھماکوں کےبیچ پڑے تھے وہ فسادات بھی بھلادئیے گئے ہیں اور وہ فسادی بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ انصاف کا خون صرف میرٹھ،بھاگلپور،گجرات اور ہاشم پورہ میں ہی نہیں ہوا ‘ ممبئی میں بھی انصاف کا خون ہواہے۔ہاشم پورہ کے ’قتل ِ عام ‘ کا عدالتی فیصلہ توتقریباً تین دہائیوں کے بعد آیابھی۔بھلے ہی اس فیصلے نے متاثرین سے انصاف نہ کیا ہو‘مگرانصاف کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ایک راہ ضرور دکھادی ہے ۔رہے ممبئی کے فسادات، توکسی عدالتی فیصلے کی اب کوئی امید تک باقی نہیں رہ گئی ہے۔وہ جنہوں نے مسلمانوں کی جان اور مال کا نقصان کیاتھا آج بے فکری سے آزادگھوم رہے ہیں‘ وہ پولیس والے جو فسادیوں کے ساتھی تھے آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے اورسیاسی پارٹیوں‘فرقہ پرست تنظیموں اورپولیس کے فرقہ پرستانہ چہرے کوجس سری کرشنا کمیشن رپورٹ نے اُجاگرکیا تھا وہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دی گئی ہے ۔ کانگریس کا کرداراس معاملے میں انتہائی گھناؤنا رہا ہے ‘بجائے اس کے کہ یہ ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘ پرعمل کرتی اس کی تقریباًتین سرکاروں نے انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھـ’ مسلمان کانگریسیوں‘ کی مددسے ایسا چکر چلایاکہ کمیشن کی رپورٹ پرعمل درآمد کا سوال عدالت کے گلیاروں میں آج تک گردش کررہا ہے اورنہ جانے کب تک گردش کرے گا !رہے وہ افراد جوعدالتوںمیں انصاف کی جنگ لڑرہے تھے یا تواب نہیں رہے یا مزید قانونی لڑائی لڑنے کا حوصلہ ہاربیٹھے ہیں،اورسب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ جِن عناصر نے 93-1992میں ممبئی کو دومرحلوںمیں فسادات کی آگ میں جھونکا تھا آج ریاست مہاراشٹر پران ہی کی حکومت ہے ‘وہ سیاہ وسفید کے مالک ہیں لہٰذا یہ امیدرکھنا ہی بے کار ہے کہ انصاف ملے گا۔
بات اس روزکی ہے جب اترپردیش کے فیض آباد ضلع کے ایودھیا نامی قصبے میں تاریخی بابری مسجد فرقہ پرستوں‘بھاجپائیوں اوربجرنگی وسنگھی کارسیوکوں کے ہاتھوں شہید کردی گئی تھی یعنی 6دسمبر 1992ء کی ۔ممبئی کے مسلمان ایک جمہوری ملک میں غیرجمہوری اندازمیں اپنی عبادت گاہ شہید کئے جانے کی مجرمانہ واردات سے مغموم بھی تھے اور مشتعل بھی اس لیے انہوں نے سڑکوں پر اترکرجمہوری انداز میں احتجاج اورمظاہرے کرنے کی کوشش کی جوپولیس کی غیرضروری قوت کے سبب پرتشدد ہوگئی ۔
منصوبہ سیدھا سادا تھا ‘ مسلمانوں کو مظاہرے نہ کرنے دوبلکہ انہیں مشتعل کرواور جب وہ تشدد پراتر آئیں توانہیں گولیاں ماردو۔ ایسا ہی ہوا ‘پولیس کی گولی باری نے سینکڑوں نوجوانوں کے سینوں کوخون کی لالی سے سرخ کردیا۔یہ فسادات کا آغازتھا !6دسمبر 1992اورپھر 5جنوری 1993دومرحلوں میں ہونے والے فسادات میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 900افراد ہلاک ہوئے جِن میں مسلمانوں کی تعداد 575اورہندوؤں کی تعداد 275تھی ۔ پولیس کے فرقہ پرستانہ رویّے کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی گولی باری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 356تھی ۔ پولیس کی گولیاں ‘ پولیس مینول کے اصول وضوابط کے برخلاف سینوں پرچلیں‘ کمرسے نیچے نہیں۔
ایک جانب پولیس ‘فسادی اورشیوسینک تھے ۔ ان کے ساتھ بی جے پی کے لیڈراور کارکنان بھی تھے ۔ حدتو یہ ہے کہ کئی جگہ آرپی آئی اورکانگریسی لیڈروں نے بھی فسادیوں کا ساتھ دیا۔ شیوسینا اور شیوسینا کے پرمکھ بال ٹھاکرے کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا ۔ سری کرشنا کمیشن رپورٹ‘میں جسٹس سری کرشنا نے تمام ’حقائق‘ کویوں عیاں کردیا ہے جیسے کہ سورج کی تیزروشنی میں زمین پر پڑے وہ ذرّے عیاں ہوجاتے ہیں جو تاریکی میں چھپے رہتے ہیں۔ رپورٹ میں واضح لفظوں میں تحریر ہے:
’جنوری 8‘1993سے تواس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ شیوسینا اورشیوسینکوں نے اپنے لیڈروں کی رہنمائی میں مسلمانوں اوران کی املاک پر منظم حملے کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا ‘شاکھا پرمکھوں سے لے کرشیوسینا پرمکھ بال ٹھاکرے تک کی رہنمائی انہیں حاصِل تھی ‘بال ٹھاکرے کسی تجربہ کار جنرل کی طرح اپنے وفادار شیوسینکوں کوہدایت دے رہے تھے کہ وہ مسلمانوں پرمنظم حملے کرکے ان سے انتقام لیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں شیوسینکوں بالخصوص بال ٹھاکرے کے بیانات اوران کے ہندی اور مراٹھی روزنامہ ’سامنا ‘ کے اشتعال انگیزاداریوں کے حوالے دے کراس سچائی کی جانب تو جہ دلائی تھی کہ اس طرح کے بیانات اوراداریوں نے ’ہندوؤں ‘کو مشتعل کیا ‘‘۔رپورٹ میں ایک جگہ تحریر ہے :’’ شیوسینک لیڈروں کے بیانوں اورسرگرمیوں اوربال ٹھاکرے کی تحریروں اور ہدایتوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی چلی گئی ‘ شیوسینا نے جوفسادات شروع کئے تھے وہ مقامی مجرم پیشہ عناصر نے ہائی جیک کرلیے اورفوری فائدہ اٹھالیا۔ اورجب تک شیوسینا کو یہ احساس ہوکہ ’انتقام ‘ خوب لے لیاگیا تب تک تشدد اس کے لیڈروں کے کنٹرول کی پہنچ سے دورنکل گیاتھا ‘‘۔
کمیشن کی رپورٹ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے پھیلنے اور ممبئی کے فسادات کے اسباب میں بابری مسجد کی شہادت‘ بی جے پی کے لیڈروں کی رتھ یاترائیں اورسنگھ پریوار کی اشتعال انگیزی بھی شامل ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ’ممبئی کے فسادات ‘ کوسارے سنگھ پریوار کی کارستانی قرار دیاتھا توغلط نہیں ہوگا۔ ظاہرہے کہ یہ رپورٹ نہ اس وقت شیوسینا اور بی جے پی کوبھائی تھی اورنہ آج بھارہی ہے۔ جب ممبئی کے فسادات کے بعدشیوسینا بی جے پی کی حکومت بنی تھی تب کمیشن کی رپورٹ کو جو1998میں پیش کی گئی تھی ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیاتھا۔ وزیراعلیٰ منوہر جوشی اورریاستی سرکار نے ‘ریاستی اسمبلی اور کونسل میں اس رپورٹ کی پیشی کے بعداِسے ردّ کرکے ایوان میں ’ایکشن ٹیکن رپورٹ ‘ پیش کی تھی اور یہ کہا تھاکہ ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘’’ہندو مخالف ’مسلم موافق اورجانبدارانہ ہے ‘‘۔
شیوسینا اوربی جے پی کی ریاستی سرکار سے یہی توقع تھی۔ رپورٹ میں شیوسینا اوربی جے پی کو فسادات کا قصوروار قرار دیاگیاتھا اور بال ٹھاکرے سمیت کئی شیوسینکوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دیاگیاتھا۔شیوسینا اوربی جے پی کی حکومت اپنے قصورکو مان بھی کیسے سکتی تھی ! لیکن ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘ جوردکی گئی تھی دوبارہ اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے کہنے پر پھرسے ’زندہ ‘کی گئی۔ ریاستی سرکار نے جسٹس سری کرشنا پریہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ صرف فسادات کی نہیں 12مارچ 1993ء کے ممبئی کے سلسلہ واربم دھماکوں کی چھان بین بھی کریں اور فسادات اوربم دھماکوں میں کیا مطابقت ہے یا ان دونوں کا کیا ’رشتہ ‘ہے ‘اسے بھی اپنی رپورٹ میں شامل کریں۔ جسٹس سری کرشنا نے یہ چھان بین بھی کی مگر مزیدچھان بین نے ان کی اس ’رپورٹ ‘کومزید تقویت بخشی کہ فسادات سنگھی ذہن رکھنے والوں کی سازش کا نتیجہ تھے اوریہ بم دھماکے نہ ہوتے اگر بابری مسجد شہید نہ ہوتی اورممبئی میں دومرحلوں میں فسادات نہ ہوئے ہوتے۔
ایک سوال جو آج ممبئی بم بلاسٹ کے ایک قصوروار یعقوب میمن کی رحم کی اپیل کے خارج ہونے، ’ہاشم پورہ قتل عام ‘ کے عدالتی فیصلے اور ممبئی میں باندرہ میں اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے ضمنی الیکشن میں کانگریس کے امیدوار‘سابق شیوسینک اورممبئی کے سابق وزیراعلیٰ نارائن رانے کی اس اپیل کے بعد کہ ’سیکولر طاقتوں کواپنے ووٹوں کی طاقت سے مضبوط کریں ‘اٹھ رہا ہے کہ بھلا ممبئی کے فسادات کوآج 25برسوں کی طویل مدت کے بعد بھی نظراندازکیوںکیاجارہا ہے ؟کیا کانگریس پارٹی اور آج کے کانگریسی اورکل کے شیوسینک نارائن رانے یہ نہیں جانتے کہ واقعی میں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اورانہیں انصاف مِلناچاہئے بالکل اسی طرح جس طرح 1984کے سکھ مخالف فسادات کے متاثرین کوانصاف فراہم کیاگیا ہے ؟ ممبئی کے فسادات اپنی شدت وبربریت ‘سنگدلی اوربے رحمی میں گجرات کے فسادات سے کم نہیں تھے ۔ جس طرح گجرات میں خواتین کا ریپ کیاگیا ‘لوگوںکو زندہ جلایا گیا اور بے رحمی کے ساتھ ‘لوگوں کی املاک تباہ کی گئیں اسی طرح ممبئی میں ہوا تھا۔’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘میں کئی واقعات کی تفصیلات موجود ہیں۔ مثلاً اگرپولیس کی بربریت کی مثال چاہئے توممبئی کے محمد علی روڈ پرواقع سلیمان عثمان بیکری اوراس سے لگ کر دارالعلوم امدادیہ اور سیوڑی علاقہ کی ہری مسجد میں کی گئی گولی باریوںکی مثالیں موجود ہیں۔
سلیمان عثمان بیکری ابراہیم رحمت اللہ روڈپرواقع ہے ‘ 9جنوری 1993 کے روزوہاں موجود ایک پولیس پارٹی نے یہ رپورٹ دی کہ سلیمان عثمان بیکری کی چھت سے ان پر فائرنگ کی گئی تھی ۔ اس رپورٹ کے بعداس وقت کے جوائنٹ پولیس کمشنر رام دیوتیاگی (جو بعدمیں ممبئی کے پولیس کمشنر بنے )اپنے اسپیشل آپریشن اسکواڈ کے ہمراہ وہاںپہنچے۔سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اسکواڈ کے لوگوں نے ’’صدردروازہ توڑدیا اوربیکری میں داخل ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق بیکری میں داخل ہونے کے بعدچاپڑوں‘ آہنی سلاخوںاور چاقوؤں سے لیس 40سے 50افراد نے پولیس والوں پرحملہ کردیااورپولیس کی وارننگ کے باوجود جب حملہ آوروں نے ہتھیارنہیں پھینکے تو پولیس نے وارننگ دے کرگولی چلادی اور آگے بڑھنے لگی لیکن 40سے 50 افراد نے پولیس والوں کو روکنے کی کوشش کی ‘ آپریشن اسپیشل اسکواڈ چھت پر پہنچ گیا جہاں 40سے 50افرا دپانی کی ٹنکی اورچونا بھٹی مسجد کی دیوارکے درمیان چھپے بیٹھے تھے ۔ انہیںسرینڈر کرنے کا حکم دیاگیا لیکن انہوں نے آٹومیٹک اسٹین گن سے پولیس پرحملہ کردیا جواب میں پولیس نے فائرنگ کی جس میں 8سے 10افراد نے مسجداوربیکری کے درمیان گٹرمیں چھلانگ لگادی اورفرار ہوگئے ۔ آپریشن اسپیشل اسکواڈنے چندکوپکڑلیا ‘ان سے ہتھیار چھین لیے اورانہیںحراست میں لے لیا ‘ بیکری میں موجود 78 افرادحراست میں لئے گئے اس کارروائی میں 9افراد مارے گئے ‘‘۔پولیس کے بیان پر جسٹس سری کرشنا خودموقعہ واردات پر پہنچے اور انہوں نے جائزہ لینے اورگواہوں سے ملنےکے بعدرپورٹ میں تحریر کیا :
بیکری میں موجود افراد غیرمسلح اورنہتے تھے اورانہیں بے دردی سے گولی ماری گئی تھی۔ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پولیس کواندھا دھند فائرنگ کی ضرورت تھی‘ پولیس نے خوشی خوشی گولیاں چلائی تھیں اور9بے گناہ افراد کو ہلاک کیاتھا۔ اس سارے معاملے کی ذمہ داری جوائنٹ پولیس کمشنر آرڈی تیاگی ‘اے پی آئی دیشمکھ اورپولیس انسپکٹر لہانے پرعائد ہوتی ہے ۔
اتنی واضح رپورٹ کے باوجود تیاگی ممبئی کے پولیس کمشنر بنے اور سارے الزامات سے بری کردیئے گئے ۔ سیوڑی کی ہری مسجد میں ظہر کی نماز کے موقع پر ایک پولیس اہلکار نکھل کاپسے نے گھس کرگولی باری جس میں9؍مسلمان شہید ہوئے۔کمیشن کی رپورٹ میں مسجدکے اندرمسلمانوں کی شہادت کا ذمے دار نکھل کاپسے کی اندھا دھند اور بلااشتعال فائرنگ کو قرار دیاگیاہے۔افسوس کہ آج تک کاپسے کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔کارروائی صرف شیوسینا کے ایک ایم پی مدھوکر سرپوتداراور ان کے دو شیوسینک ساتھیوں جینت پرب اور اشوک شندے کے خلاف ہوئی۔خصوصی عدالت نے انہیں فسادات کا قصوروار قرا ر دیا مگر انہیں فوری ضمانت مل گئی۔اور دو سال بعدسرپوتدار کی موت ہو گئی۔یہ معاملہ بھی اب ختم ہو چکاہے۔بال ٹھاکرے کے خلاف ان کی موت تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
(مضمون نگار ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر ہیں)
Categories: فکر و نظر