خبریں

رافعہ ناز یوگا معاملہ :ایک بار پھرسنسنی میڈیا کے شکار ہوئے مسلمان

سنسنی میڈیا کو اس سے اچھا منظر کیا ملتا؟ ایک معصوم لڑکی، وہ بھی مسلم، وہ بھی روتی ہوئی، اور اپنے سماج کے کٹھ ملّوں  سے لڑتی ہوئی، اور دنیا بھر میں یوگا کا ڈنکا پیٹتی ہوئی، سب کچھ تو مل گیا۔

RafiyaNaaz_AajTak

ہر سماج میں ترقی پسند تحریک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلم سماج کی امیج دقیانوسی بھلے ہی بنا دی گئی ہولیکن ان میں بھی ترقی پسند تحریک کافی موثر ہے۔جھارکھنڈ میں رانچی کی طالبہ رافعہ ناز نے یوگا ٹیچر کے روپ  میں ایک ایسے ہی ترقی پسند تحریک کو آگے بڑھایاہے۔ اس لڑائی میں وہ اکیلی نہیں تھیں بلکہ مسلم سماج کا بڑا حصہ ان کے ساتھ تھا۔ بچپن سے ہی وہ یوگا کرتی اور سکھاتی آئی ہیں۔ سب نے حوصلہ بڑھایا۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں آیا۔ یہاں تک کہ اپنی اسی سماجی پہچان کے ساتھ رافعہ نے طلبہ یونین کا انتخاب بھی جیتا۔

اس کے باوجود نومبر2017 میں اچانک ان کو غیر ضروری تنازعے میں  تماشہ بنا دیا گیا۔ غور سے دیکھیں تو وہ سنسنی میڈیا کا شکار بنی ہیں۔ جبکہ غلط فہمی یہ پھیلائی گئی ہے جیسےوہ مسلم شدت پسند طاقتوں کا شکار ہوئیں۔ حالانکہ رافعہ بار بار کہتی ہیں کہ وہ دونوں کمیونٹی کی نازیبا تبصروں کا شکار ہوئی ہیں۔واقعہ دیکھیں، تو سب کچھ آسانی سے سمجھ پائیں‌گے۔

رافعہ ناز اس وقت سے یوگا ٹیچر کا کردار نبھاتی آئی ہیں، جب بابا رام دیو کا کسی نے نام تک نہیں سنا تھا۔ رافعہ کےاہل خانہ، رشتہ داروں اور مسلم سماج نے ہمیشہ ان کا حوصلہ بڑھایا۔ ان کو تعلیم دینے والے مولانا بھی اس کی اس صلاحیت پر فخر کیا کرتے۔سال 2015 میں رانچی میں سوامی رام دیو کے منچ پر ان کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ چرچامیں آئیں۔ لیکن اس وقت بھی کسی قسم کی مخالفت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے بعد انہوں نے پوسٹ گریجویشن کی پڑھائی کرتے ہوئے مارواڑی کالج میں طلبہ یونین کا انتخاب بھی جیتا، جس میں ان کو اپنے سماج کا پورا تعاون ملا۔پھر آخر نومبر 2017 کے پہلے ہفتے میں اچانک ایسا کیا ہوا، جس نے رافعہ کو ناخوشگوار صورتحال میں دھکیل دیا؟

سب سے پہلے 14 اکتوبر 2017 کو نیوز ونگ میں محمد اصغر خان نے اپنی رپورٹ میں رافعہ کی غمناک کہانی سنائی۔ رپورٹ کے مطابق رافعہ کا کہنا ہےکہ رام دیو کے پروگرام میں شامل ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا میں ان کے خلاف نازیبا تبصرےآنے لگے ۔ “اس سے پہلے میرا یوگا کرنا لوگوں کو اچھا لگتا تھا۔ گھر پر آکے گارجین سے میری تعریف کرتے تھے۔ اب پاپا، بھائی سے ہمیں سمجھانے کے لئے کہتے ہیں۔ مجھے اینٹی اسلام کہتے ہیں”۔

اس رپورٹ میں رافعہ کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکی کا ذکر ضرور ہے، لیکن وہ کافی غیر سنجیدہ طریقے سے ہے۔ ایک بار بھی واضح نہیں کیا گیا ہے کہ کب، کس نے، کس طرح سے، کیا دھمکی دی ہے۔ کسی دھمکی کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرانے کا کوئی ذکر بھی اس رپورٹ میں نہیں تھا۔ اگر جان سے مارنے کی کوئی حقیقت میں دھمکی ملی ہوتی، تو رافعہ نے اس پر پولیس میں رپورٹ ضرور کرائی ہوتی۔ ایسے میں اس ایف آئی آر کی خبر سارے اخباروں میں آتی۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ خبر صرف نیوز ونگ نامی ایک ویب سائٹ پر آئی۔ ایک مسلم نوجوان صحافی نے ایسی خبر لکھ‌کر رافعہ کی ترقی پسند تحریک کو بڑھانے اور اپنے سماج کے شدت پسند  لوگوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے پر کسی اخبار کی پہلی رپورٹ بھی ایک مسلم صحافی نے ہی لکھی۔ دینک بھاسکر کے رانچی ایڈیشن میں 18 اکتوبر 2017 کو سید شہروز قمر نے رافعہ کو مل رہی دھمکیوں پر خبر بنائی۔ حالانکہ اس خبر میں بھی کسی اصل دھمکی کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔ شہروز ایک حساس اور سنجیدہ صحافی ہیں۔ انہوں نے رافعہ کے ذریعے یوگا سکھانے اور دقیانوسی خیالات سے لوہا لینے کی تعریف کرتے ہوئے مسلم سماج میں ترقی پسند تحریک کو بڑھانے کی کوشش کی۔

مذکورہ دونوں رپورٹ کے صحافیوں کا مذہب بتانا تھوڑا اٹ پٹا ضرور لگ رہا ہے، لیکن یہ جاننے سے ہی پورا معاملہ سمجھ میں آئے‌گا۔ دراصل رافعہ ناز کے ساتھ ایسا کوئی فوری واقعہ ہوا ہی نہیں تھا، جس سے ایسی کوئی خبر بنے۔ رافعہ در اصل سوشل میڈیا میں ٹرولنگ کا شکار ہیں۔ طلبہ یونین کا انتخاب لڑ‌کر جنرل سکریٹری بننے اور سوامی رام دیو کے ساتھ یوگا کی وجہ سے وہ مقامی سطح پر مشہور ہستی بن چکی ہیں۔ اس کی وجہ سے سوشل میڈیا میں تبصرہ کرنے والوں کی کمی نہیں۔

اس ضمن میں مشہور صحافی مرحوم پربھاش جوشی کی مثال دیکھیں۔ انہوں نے 1993 میں اپنے مضمون ‘ ہندو ہونے کا مذہب ‘ میں بتایا تھا کہ ان کے ساتھ کیسا برا سلوک ہو رہا ہے۔ ایودھیا معاملے پر ان کے خیالات کی وجہ سے ان کو ملّا، میرجعفر اور جےچند کہا گیا، ماں باپ پر غلط سوال اٹھے۔ یہاں تک کہ ان کو کتّےکی موت مار ڈالنے تک کی بات کہی گئی۔ لیکن پربھاش جوشی کو ملی ان دھمکیوں کے لئے کبھی ہندو سماج کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ اس بات کو ان کی جان پر خطرے کے طور پر بھی نہیں لیا گیا۔

دراصل محمد اصغر خان اور سید شہروز قمر نے اپنی رپورٹ کے ذریعے مسلم سماج کے دقیانوسی حصے پر چوٹ کرنے کی معنی خیز کوشش کی تھی۔ یوگا کو اپنی زندگی کا حصہ بناکر اور طلاق جیسے مسائل پر کھلے خیالات کے ذریعے رافعہ بھی ایک ترقی پسند سماجی اصلاحی تحریک کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ویب سائٹ اور اخبار میں رپورٹ کی پیشکش میں سنجیدگی ہونے کی وجہ سے اس وقت کوئی تنازعہ بھی نہیں ہوا۔لیکن ان دونوں رپورٹ کے آنے کے لگ بھگ بیس دن بعد اچانک سنسنی میڈیا نے تل کا تاڑ بنا دیا۔ ایک نیوز چینل پر رافعہ ناز سے گفتگو کے دوران اچانک دو پولیس افسر اس نیوز اسٹوڈیو میں پہنچ گئے۔ رافعہ کے تحفظ کے نام پر دو پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا۔

اس کے بعد تو ملک بھر میں تماشہ بنا۔ کچھ اخباروں اور چینلوں نے چلانا اورچیخ‌کر کہنا شروع کیا کہ رافعہ کے خلاف ملّا نے فتویٰ جاری کر دیا ہے۔ جبکہ خود رافعہ بار بار بتاتی رہیں کہ کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوا۔ ریاست کی مسلم تنظیموں نے بھی پریس  ریلیز جاری کرکے واضح کر دیا کہ کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوا ہے اور رافعہ کے یوگا سے متعلق کام سے کسی کو اعتراض نہیں۔ لیکن کسی بھی میڈیا ادارے نے یہ سوچنے یا بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ اگر کوئی فتویٰ ہے، تو کب اور کس نے جاری کیا، کہاں جاری کیا، اور اس میں کیا لکھا ہے۔حد تو اس وقت ہوئی جب کچھ نیوز چینل کے لوگ رافعہ ناز کے گھر پہنچ‌کر ان سے جبراً آن ایئر انٹرویو دینے کی ضد کرنے لگے۔ رافعہ اور ان کے والد کے ذریعے بار بار منع کرنے کے باوجود ان  کو آن ایئر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں کامیاب نہیں ہونے پر تو ایک بڑے چینل کے صدر دفتر سے ایک بڑے اینکر نے تو کافی ناراضگی بھی جتائی۔ اس سلسلے میں رافعہ کے رشتہ دار، دوست، خیر خواہ ا س کے گھر کے نیچے جمع ہو گئے۔ یہ سارے لوگ رافعہ کی حمایت میں آئے تھے۔ لیکن ان کو رافعہ کے خلاف جمع بھیڑ کے طور پر دکھایا گیا۔ محض دو کمرے کے چھوٹے سے گھر میں ایسی تمام حرکتیں اور حالات سے گھبرائی رافعہ کو ٹی وی پر لائیو بحث میں کسی باہری مولوی نے  برا بھلا کہنا شروع کیا۔ اس سے گھبرائی رافعہ چینل پر ہی رو پڑیں۔

سنسنی میڈیا کو اس سے اچھا منظر کیا ملتا؟ ایک معصوم لڑکی، وہ بھی مسلم، وہ بھی روتی ہوئی، اور اپنے سماج کے کٹھ ملّوں  سے لڑتی ہوئی، اور دنیا بھر میں یوگا کا ڈنکا پیٹتی ہوئی، سب کچھ تو مل گیا۔ اس پر بھی جب سامنے کوئی جاہل مولوی چیختا ہوا اول جلول حرکت کر رہا ہو، تو تفریح کا سارا پیکیج تیار ہو جاتا ہے۔کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ٹی وی چینل نے اس بیوقوف مولوی کو جھارکھنڈ کے مسلم سماج سے نمائندہ کے طور پر کیوں پیش کیا؟ اگر رانچی سے مسلم سماج کے کسی نمائندے کو بحث میں لایا گیا ہوتا، تو سارا تنازعہ پل بھر میں ختم ہو جاتا۔

لیکن اس موضوع پر ہمارے سسٹم کا اوچھاپن ابھی سامنے آنا  باقی تھا۔ ٹی وی چینلوں کی گہماگہمی کے درمیان جھارکھنڈ کے ڈی جی پی خود جاکر رافعہ کے گھر پر ملے اور تحفظ کا بھروسہ دلایا۔ پولیس ڈائریکٹر جنرل نے ایسا کرکے ایک نیک قدم اٹھایا۔ لیکن اس کے ایک ہفتہ بعد تک اس معاملے میں ایک بھی آدمی کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ نہ ہی پولیس کی ایسی کوئی کوشش نظر آئی، نہ رافعہ نے کسی کے خلاف کاروائی کی مانگ کی۔

دراصل اس پورے معاملے میں اب تک ایک بھی ملزم کا نام سامنے نہیں آیا ہے۔ کون ہے بدمعاش، یہ نہ کوئی پوچھ رہا ہے اور نہ پولیس کو اس کی تلاش ہے۔ اگر کوئی اصل خطرہ ہوتا، تو اس کو پکڑنے کے لئے ایک معمولی سپاہی کافی ہوتا۔ اس کے لئے ایس ایس پی یا ڈی جی پی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن یہ تو سوشل میڈیا کی ٹرولنگ اور سماج کی عدم رواداری اور کٹرپن سے جڑا عدم تحفظ ہے۔ رافعہ خودہی بتاتی ہیں کہ ان پر غلط کمنٹ کرنے والوں میں دونوں کمیونٹی کے لوگ ہیں، صرف مسلم شدت پسند  نہیں۔ لیکن سنسنی میڈیا نے ایسا ماحول بنایا جیسےمسلم سماج اس کے پیچھے پڑا ہو۔ ایک خیالی دشمن کھڑا کر دیا گیا ہے اور اس سے جدو جہد کی احمقانہ حرکتوں نے ان پڑہ سماج کو بھرم میں ڈال دیا ہے۔

بہر حال، اس موضوع سے مسلم سماج کے اندر ترقی پسند تحریک چلانے والوں کو جھٹکا لگا ہے۔ اخبار میں پہلی خبر لکھنے والے سید شہروز قمر کے مطابق انہوں نے رافعہ کے ذریعے سماجی اصلاح کی سمت میں کوششوں کو آگے بڑھانے کے لئے مدد کرنی چاہی تھی۔ لیکن جس طرح رافعہ اور مسلم سماج کو آمنے سامنے کرنے کی کوشش کی گئی، اس سے ایسی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ بے شک ایسی ترقی پسند مہم چلانے والوں کا حوصلہ ٹوٹا ہے۔ شہروز کو افسوس ہے کہ اس کی ایک اصلاح پسند کوشش کو سنسنی میڈیا کے شدت پسند کردار نے شرمناک تنازعے میں بدل دیا۔

دراصل سماجی اصلاح کی ضرورت ہرسماج کو ہے۔ سنسنی میڈیا میں چیخنے والے اینکر اپنے سماج کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ جبکہ مسلم سماج کی دقیانوسی چیزوں سے لڑنے کے لئے رافعہ ناز، اصغر خان اور سید شہروز قمر جیسے نوجوان کافی ہیں۔ ان کو اپنا کام کرنے دیں۔ اگر سنسنی میڈیا اور پولیس انتظامیہ، حکومت ان کا استعمال اپنے مفادات میں اور مسلم سماج کے خلاف کرنا چاہیں، تو یہ ستم ظریفی ہی ہے۔

(مضمون نگارسینئر صحافی ہیں اور رانچی میں رہتے ہیں۔بشکریہ : میڈیا ویزل)