خبریں

’مہاراشٹرکے آٹھ ضلعوں میں جنوری سے اب تک 907 کسانوں نے کی خودکشی‘

مہاراشٹر میں  اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ ریاست میں بی جے پی حکومت کے تین سال کے دور اقتدار میں 10000 کسانوں نے خودکشی کی ہے۔

علامتی تصویر /PTI

علامتی تصویر /PTI

نئی دہلی : مہاراشٹر میں اپوزیشن پارٹیوں نے الزام لگایا ہے کہ ریاست میں پچھلے تین سال کی بی جے پی حکومت  کے دور اقتدار میں 10000 کسانوں نے فصل خراب ہونے اور قرض کے سبب خودکشی کر لی ہے۔ حکومت کے ذریعے کسانوں کی قرض معافی کے اعلان کے بعد بھی ریاست میں کسانوں کو کوئی راحت ملتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ بحران زدہ علاقوں میں خودکشی کا سلسلہ جاری ہے۔

سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر کے مراٹھواڑا علاقے میں جنوری سے اب تک 907 کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ ‘ مراٹھواڑا علاقے کے آٹھ ضلعوں میں جنوری سے اب تک 907 کسانوں نے خودکشی کی۔ افسر ان خودکشی کی وجہ فصلوں کا خراب ہونا اور کسانوں پر بڑھتے قرض کو بتا رہے ہیں۔ ‘

خبر میں کہا گیا ہے کہ ‘ اورنگ آباد ڈویزنل کمشنریٹ کے مطابق، ‘ جنوری سے اب تک 907 خودکشیوں میں ضلع بیڑ  میں سب سے زیادہ 187، ناندیڑ میں 141، اورنگ آباد میں 125، عثمان آباد میں 119 اور ضلع پربھنی میں 118 کسانوں نے خودکشی کی۔ تین دیگر اضلاع جالنا، ہنگولی اور لاتور میں 100 کسانوں نے خودکشی کی۔حکومت کی طرف سے مقرراسپیشل ٹاسک فورس کے چیف کشور تیواری نے کہا، ‘ اصل میں قرض معافی کی رقم کسانوں کو نہیں مل رہی ہے۔’

مہاراشٹر میں  اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ ریاست میں بی جے پی حکومت کے تین سال کے دور اقتدار میں 10000 کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ ہندی اخبار نوبھارت ٹائمس کی ایک خبر کے مطابق، اسمبلی سیشن شروع ہونے سے پہلے اپوزیشن  کے لیڈر رادھاکرشن وکھے پاٹل اور دھننجے منڈے نے کہا کہ بی جے پی حکومت کے تین سال میں ریاست میں 10000 کسان خودکشی کر چکے ہیں۔

خبر میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن نے اسمبلی میں کسانوں کی خودکشی اور بچوں کی موت کی شرح کا مسئلہ اٹھانے کی تیاری کے سلسلے میں کہا کہ بی جے پی کے تین سال میں 10000 کسانوں نے خودکشی کی اور 67000 بچوں کی موت ہوئی۔ حکومت نے کسانوں کی قرض معافی کا اعلان کیا، لیکن چھے مہینے بعد بھی اس کا فائدہ کسانوں کو نہیں مل پایا ہے۔

مدھیہ پردیش کے ضلع ہردا میں بجلی بل جمع کرنے کے لئے عدالتی نوٹس ملنے سے دکھی ہوکر ایک کسان نے سوموار کو مبینہ طور پر کنویں میں کود‌کر جان دے دی۔ہردا کےپولیس سپرنٹنڈنٹ راجیش کمار سنگھ نے بتایا، ہنڈیا تھانے کے گرام ابگاؤں کلاں کے کسان دنیش پانڈیہ (60) نے کنویں میں کود‌کر خودکشی کر لی۔ وہاں کے باشندوں کی اطلاع پر موقع پر پہنچی پولیس نے اس کی لاش کو کنویں سے باہر نکالا اور پوسٹ مارٹم کے لئے ہردا اسپتال بھیجا۔

مردہ کسان کا بیٹا سنجے پانڈے نے بتایا، تین دن پہلے پولیس اہلکار ہمارے گھر پر آئے تھے۔ انہوں نے والد کو 9111 روپیے کا بجلی بل جمع کروانے کا عدالتی نوٹس دیا تھا۔نوٹس کے مطابق  بل جمع کرنے کی آخری تاریخ 12 دسمبر تھی۔ تبھی سے میرے والد پریشان تھے اور ذہنی دباؤمیں تھے۔ اسی کے سبب انہوں نے اپنی جان دے دی۔

سنجے نے کہا کہ میرے والد  اتوار دوپہر سے لاپتہ تھے۔ رشتہ دار اور محلے والے ان کی تلاش‌کر رہے تھے۔ سوموار کی صبح ان کی لاش کنویں میں تیرتی ہوئی ملی۔حالانکہ، پولیس سپریٹنڈنٹ نے کہا، اس تعلق سے ہنڈیا پولیس تھانے میں معاملہ درج کر لیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ موقع پر تحصیل دار اور تھانہ انچارج کو بھیجا ہے۔ فی الحال موت کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

اتر پردیش میں مظفرنگر ضلع کے مدکریم پور گاؤں میں  دل کا دورہ پڑنے سے  37سالہ کسان کی موت ہو گئی۔  فیملی  ممبروں نے بتایا کہ وہ زمین کے معاملوں کو لےکر پریشان تھے۔سب ڈویژن مجسٹریٹ رام اوتار گپتا نے بتایا کہ کسان کی فیملی کے مطابق، مول چند کو اس کی زمین کا معاوضہ نہیں ملا ہے۔ اسی وجہ سے وہ پریشان تھا اور اسی وجہ سےاس کی موت ہوئی ہے۔

 فیملی نے الزام لگایا کہ اس کی زمین ریلوے نے لی ہے لیکن اس کا معاوضہ اس کو نہیں دیا ہے۔ افسر نے بتایا کہ واقعہ کی بابت جانچ‌کے حکم دے دئے گئے ہیں۔اڑیشہ میں بھی کسانوں کا مسائل سلجھنے کے بجائےخوفناک ہوتے جا رہے ہیں۔ ریاست کے برگڑھ میں اتوار کو ایک ساٹھ سالہ کسان نے خودکشی کر لی۔ نیو انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، کارلا گاؤں کے ارجن ستنامی نے پیسٹی سائڈ پی‌کر خودکشی کر لی۔

خبر کے مطابق، ارجن نے پانچ ایکڑ زمین پر دھان کی فصل اگائی تھی۔ اس میں سے دو ایکڑ زمین ان کی اپنی ہے اور تین ایکڑ لیز پر لی تھی۔ دھان کی کھیتی کے لئے انہوں نے کوآپریٹو سوسائٹی سے 60000 اور 30000 روپیے پرائیویٹ لون لیا تھا۔ارجن کی بیوی الکمتی سمنامی نے بتایا کہ ارجن قرض اور فصل خراب ہونے سے ذہنی دباؤمیں تھے۔ قرض کے لئے ساہوکار ان کو پریشان کر رہا تھا۔

مہاراشٹر کے وزیراعلی دیویندر فڑنویس نے سوموار کو اپوزیشن  پر کسانوں سے متعلق مسئلوں پر گھڑیالی آنسو بہانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اقتدار میں رہنے کے دوران کانگریس اور راکانپا نے ان کے لئے مناسب قدم نہیں اٹھائے۔فڑنویس کا بیان ناگ پور میں دو ہفتے تک چلنے والے سرمائی اجلاس کے پہلے دن آیا۔ ان کا بیان اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید کے جواب میں آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی حکومت کسانوں کے مسائل کو دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اسمبلی کا سیشن شروع ہونے پر حزب مخالف کے رہنما رادھاکرشن وکھے پاٹل نے الزام لگایا کہ ریاست میں بی جے پی شیوسینا حکومت بری طرح ناکام رہی ہے اور انہوں نے قرض معافی اسکیم کی تکمیل میں کمیاں بتائیں۔اس کا جواب دیتے ہوئے فڑنویس نے کہا، کانگریس اور راکانپا کی فکر اور کچھ نہیں بلکہ مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ یہ فرضی فکر ہے۔ دراصل، کانگریس اور راکانپا حکومت نے ریاست میں کسانوں کو کافی مایوس کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی کانگریس اورراکانپا حکومت کے دور اقتدارکے دوران ودربھ کے لئے اعلان کئے گئے پیکیج کا بمشکل ہی کسانوں کو فائدہ ہوا تھا۔ کانگریس اور راکانپا نے اقتدار میں رہنے کے دوران کسانوں کی مدد نہیں کی تھی۔وکھے پاٹل نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت نے کسان قرض معافی اسکیم کو نافذ کرنے میں کئی غلطیاں کیں۔

انہوں نے کہا، جس کمپنی کو اعداد و شمار کو پروسیس کرنے کی ذمہ داری دی گئی اس نے بھی کئی غلطیاں کیں۔ کانگریس رہنما نے کہا، قرض معافی کا اعلان جون میں کیا گیا تھا اور اب تک اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اعداد و شمارنہیں ہیں کہ کتنے کسانوں کو واقعی میں اسکیم کا فائدہ ملا ہے۔کسان قرض معافی کو لےکر تیز ہوتی آواز کے درمیان ریزرو بینک کے سابق گورنر وائی وائی ریڈّی نے کہا کہ اس طرح کے قدم معیشت اور قرض کلچر کے لئے ٹھیک نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے لیکن طویل مدت میں اس طرح کے فیصلوں کو صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

 ریزرو بینک کے ایک اور سابق گورنر سی رنگراجن نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کاقرض معاف کئے جانے کے بجائےان کو قرض لوٹانے کے لئے لمبا وقت دینا بہتر ہوگا۔ریڈّی ایک عالمی کانفرنس کےموقع پر نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔

انہوں نے کہا، اس کے علاوہ کسی خاص سال میں جب پریشانی ہے، اس سال قرض کی قسط یا سود کی ادائیگی سے چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے پریشانی والے سال میں آپ سود کی ادائیگی سے چھوٹ دے سکتے  ہیں۔ اس سے کسانوں کو قرض لوٹانے کے لئے زیادہ وقت مل جائے‌گا اور آخرمیں کامیابی نہیں ملنے پر قرض معافی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔

ریزرو بینک کے دونوں سابق گورنر کے یہ مشورے اس لحاظ سے اہم ہیں کہ حال ہی میں اتر پردیش، مہاراشٹر اور پنجاب میں قرض معافی کا اعلان کیا گیا۔ سیاسی جماعتیں ووٹروں کو لبھانے کے لئے قرض معافی کا اعلان کر رہی ہیں۔گجرات میں چل رہے اسمبلی انتخابات کے دوران کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا کہ اگر ان کی حکومت اقتدار میں آئی تو وہ کسانوں کا قرض معاف کر دیں‌گے۔

غور طلب ہے کہ 2009 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات پہلے 2008 کے بجٹ میں اس وقت کی کانگریس حکومت نےکسانوں کے 74000 کروڑ روپیے کے قرض معاف کئے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)