ڈگ ڈگ بھر زمین میں اس طرح مکان بنے ہیں کہ دیکھکر لگتا ہے کہ آرکٹیکٹ پڑھنے والے طالب علموں کو ایسے گھروں پر اسٹڈی کرنا چاہیے۔
جیسے اچانک بارش سے دھلا آسمان صاف نظر آنے لگتا ہے، ویسے ہی یہ مکان اچانک سے رنگین نظر آنے لگے۔ جنوبی دلی کی ڈفینس کالونی فلائی اوور سے اترکر آپ جب سرائے کالے خاں جانے کے لئے باراپُلا فلائی اوور پر چڑھتے ہیں، دیواروں کے رنگ نظر آنے لگتے ہیں۔ نالا کے کنارے دیواروں کے رنگ کوچی کے کمال نہیں ہیں بلکہ شہر کو فن کارانہ شکل دینے کا نظریہ ہے۔ یہ مکان نظام الدین بستی کی پیٹھ ہے۔ آخری سرا جہاں مکان نالہ کے کنارے پہنچکر رُک جاتے ہیں۔ یہ نالہ جمنا میں جاکرملتا ہے۔
زمانے تک ان گڑھ مکانوں کو بد رنگ دیکھا تھا۔ ڈگ ڈگ بھر زمین میں اس طرح مکان بنے ہیں کہ دیکھکر لگتا ہے کہ آرکٹیکٹ پڑھنے والے طالب علموں کو ایسے گھروں پر اسٹڈی کرنا چاہیے۔ زیادہ تر لوگ اپنا گھر بغیر کسی ناپ کی سمجھکے ہی دیواروں کے سہارے گھر بنا لیتے ہیں۔ اکثر رات کو ان گھروں میں رہنے والے لوگوں کو باراپُلا فلائی اوور پر دیکھا ہے۔ وہ رات اندھیرے میں اپنے گھروں کی انہی کھڑکیوں کو دیکھتے ہیں، جیسے ہم ریل سے گزرتے ہوئے پٹری کے کنارے بنے گھروں کے کمرے میں جلتی ہوئی بتیوں کو دیکھتے ہیں۔ کئی دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ کچھ تو ہے جو بدل رہا ہے۔ آہستہ آہستہ بارش کے بعد دھلے آسمان کی طرح سب کچھ صاف ہونے لگا۔ ان کو کوئی رنگ رہا ہے۔ یہ لوگ رنگ رہے ہیں یا کوئی اور رنگ رہا ہے۔
آج بھی کار نکل ہی گئی تھی مگر راستہ خالی تھا اس لئے آہستہ آہستہ بیک کیا، کار سے اترا اور تصویریں لے لی۔ باراپُلا اور ان گھروں کے درمیان ایک نالہ بہہ رہا ہے۔ اس کے بعد گھاس کی پٹی ہے۔ پچاس میٹر سے زیادہ کی دوری کی وجہ سے میری آواز کھڑکی سے جھانک رہے لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ یہ رنگ کون کرا رہا ہے، میں زور زور سے چلّا رہا تھا۔ ایک لڑکی سمجھ گئی۔ اس نے اپنی کھڑکی سے زور لگاکے کہا آغا خاں۔ ہمایوں کا مقبرہ آغاخاں ٹرسٹ نے ہی پھر سے محفوظ کیا ہے۔ میں نے اس پر رویش کی رپورٹ کی تھی۔ بس مجھے میری کہانی مل گئی۔
میں نے رتیش نندا کو فون کر دیا۔ انہوں نے بتانا شروع کر دیا کہ نالہ کے کنارے بستی کا کچرا جمع ہو گیا تھا۔ چار ہزار ٹرکوں میں بھرکے اس کچرے کو ہٹایا گیا۔ اس میں چار پانچ سال لگ گئے۔ کسی گھر میں سیور لائن نہیں تھا۔ بیت الخلا بنا کسی سیور کے تھے۔ سارا ملبہ نالہ میں گرتا تھا۔ قریب دو سو گھروں کو سیور لائن سے جوڑا ہے۔ کچرے کی صفائی اور اٹھائی کے بھی انتظام کئے گئے ہیں۔ نالہ کا کنارہ ایک دم پارک کی طرح صاف ستھرا بن چکا ہے۔ آغا خاں ٹرسٹ کا کام اس علاقے میں شاندار ہے۔ ایک بستی میں رنگ بھرنے کا کام ویسے بھی خوبصورت ہوتا ہوگا۔
ایک دم آخری سرے پر آپ کو پنسل کی طرح ایک گھر کھڑا دکھ رہا ہوگا۔ یہ سیڑھی گھر نہیں ہے بلکہ گھر ہے۔ کئی سال سے سوچ رہا تھا کہ کبھی کیمرا لےکر اس پر شو بناؤںگا مگر اب ٹی وی کے پاس ایسے وسائل نہیں رہے۔ مگر یہاں سے گزرتے وقت یہ مکان مجھے یاد ضرور دلاتا تھا۔ اس نالہ سے ایک رشتہ بھی ہے۔ نیا نیا کام کرنا شروع کیا تھا، این ڈی ٹی وی میں۔ تبھی خبر آئی تھی کہ لاجپت نگر کے پاس ایک نوجوان لڑکی مین ہول میں گر گئی۔ وہاں سے وہ بہتے ہوئے اسی نالہ سے ہوتی ہوئی جمنا کی طرف جا ملی تھی۔ مجھے وہ لڑکی آج تک یاد آتی ہے۔ شاید این ڈی ٹی وی پر رپورٹ بھی ہوئی تھی۔
ٹی وی کے لئے بستی کے ان مکانوں پر شو تک نہیں بنا سکا مگر آج تصویریں لےکر خوش ہو گیا۔ چلو کچھ تو خواب پورا ہوا۔ اس جگہ کی ایک کہانی آخر میں نے لکھ ہی دی۔ آپ جب بھی اس راستے سے جائیں اس کی خوبصورتی کا لطف لیجئے۔
(بہ شکریہ نئی سڑک، قصبہ / تصویریں رتیش نندہ اور رویش کمار)
Categories: فکر و نظر