ہندوستان کی سیکولرازم کو بچانے کی لڑائی ہندو بنام مسلم لڑائی ہے ہی نہیں۔ وہ ہندو بنام ہندو کی لڑائی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات کے پھسلتے انتخاب کو’ وچاردھارا‘اور اپنے کرشمہ کے دم پر ہار کے منھ سے نکال لیا۔ یہی ان کی اور بی جے پی کے لئے بڑی کامیابی ہے اور 2019 کے لئے بڑی امید بھی۔ لیکن ’ وچاردھارا‘ کا یہی پولرائزیشن اپوزیشن کے لئے امید بھی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مودی نے پہلے وکاس اور پھر راشٹرواد کے بہانے ہندو ووٹ کو جتنا گول بند کیا ہے اتنا اس سے پہلے نہ تو اڈوانی کر پائے تھے اور نہ ہی اٹل بہاری واجپئی۔ کئی لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مودی 80 فیصد بنام 20 فیصد کا کھیل کھیل رہے ہیں اور اب 2019 میں ان کا راستہ کوئی روک نہیں پائےگا۔
واضح طور پر اس کا مطلب یہی ہے کہ ماہر سماجیات این این شری نواس کے ذریعے دئے ووٹ بینک نام کے محاورے کی سب سے زیادہ پٹائی کرتےکرتے بی جے پی نے اس کا سب سے زیادہ فائدہ لے لیا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں بھولنا چاہیےکہ کٹّر ہندو کا پولرائزیشن جب بھی تیز ہوتا ہے تو اس کی مخالفت میں آزاد خیال ہندو اپنی مانگوں اور ایجنڈے کے ساتھ گول بند ہوتے ہیں۔
لال کرشن اڈوانی بابری مسجد گراکر بھی مرکز میں 13 دن پھر تیرہ مہینے کی حکومت تبھی بنوا سکے تھے جب انہوں نے اٹل بہاری واجپئی جیسے آزاد خیال امیج کے رہنما کو آگے کیا تھا۔ اس وقت اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے رام مندر، آرٹیکل 370 اور کامن سول کوڈ جیسے متنازع مدعوں کو اتحاد (این ڈی اے) کے ایجنڈے سے باہر رکھا تھا۔
یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ نریندر مودی 2014 میں تب قابل قبول ہوئے جب گجرات فسادات کے الزام سے بری ہو گئے اور انہوں نے مندر بنانے کا نعرہ لگانے کے بجائے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگایا۔ یہ دعویٰ کرنے والے کم نہیں ہیں کہ 2014 کا انتخاب اچھے دن کے نعرے کے ساتھ جیتا گیا۔ حالانکہ اس کے اندر ہندوتوا کی اندرونی سوچ موجود تھی۔
آج گجرات میں نریندر مودی نے اپنے قلعہ کو منہدم ہونے سے بچانے کے لئے گجراتی عظمت کا تو سہارا لیا ہی ساتھ ہی راشٹر واد کے نئے پرانے تمام طرح کی روایت کو زندہ کیا اور آخر میں اس کا ٹھیکرا پاکستان کے بہانے منی شنکر ایّر کے سر پھوڑ دیا۔ گجرات میں حاصل کی گئی جیت مودی کے راشٹرواد کی جیت ہے جس نے گجراتی گورو کے سوال کے ساتھ ملکرنوٹ بندی، جی ایس ٹی اور ریزرویشن کی مانگ کررہے پاٹیداروں کی ناراضگی کو درکنار کر دیا۔
بی جے پی اور اس کے حمایتی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مذہب کے نام پر راشٹر واد کی یہ روایت اتنی مضبوط ہے کہ وہ 2019 میں بھی پورے ملک کو بہا لے جائےگی اور وہ ویسے ہی اقتصادی مدعوں کو بھول جائےگا جیسے سورت کے لوگ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو بھول گئے۔ لیکن اسی وضاحت میں پوشیدہ ہے اپوزیشن کی امید۔
اگر ہندتووادی بیانیہ کا جادو اس ملک میں چلےگا تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں ’ وچاردھارا‘ کی موت نہیں ہوئی ہے۔ وہ اگر دایاں بازو کی شکل میں زندہ ہے تو اس کے کمیونسٹ اوردرمیانی ہونے کا امکان بھی ہے۔ یہ امکان اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کانگریس اور اس کے ساتھ ملکر مودی کو ہرانے میں لگے ہاردک پٹیل کا اثر سورت میں نہیں پڑا تو سوراشٹر اور شمالی گجرات ان کے اثر سے اچھوتا نہیں رہا۔
اسی کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ اگر این سی پی اور بہوجن سماج پارٹی الگ امیدوار نہ کھڑا کرتے تو ہندو توا سے الگ خیالات کے سیاسی تنظیموں کی گول بندی ہوتی اور حزب مخالف کو کچھ اور سیٹیں مل سکتی تھیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلےسال تک این ڈی اے حکومت اچھے دن لانے والے کسی اقتصادی پروگرام کا سہارا لیتی ہے یا پھر وہ منفی تشہیر کے ذریعے انتخاب جیتنے کا فیصلہ لیتی ہے۔
ممکن ہے کہ بی جے پی کے مشیر وکاس اور ہندو توا کا ایک ملاجلا پیکیج تیار کریں اور اس کے سہارے انتخاب جیتنے کی کوشش کریں۔ اس کے باوجود یہ طے ہے کہ اگر شدت پسند خیالات کا پولرائزیشن بڑھےگا تو لبرل خیالات کا پولرائزیشن بھی بڑھ سکتا ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ شدت پسندوں کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہو۔ وہ ایک طرف شدت پسندی کا بھی فائدہ اٹھائے تو دوسری طرف سخاوت کا بھی۔ یہ کام آسان نہیں ہے اور کرشمائی لیڈر کے بغیر بکھرے حزب مخالف کو یکجا کرنا بھی ہتھیلی پر سرسوں اگانے جیسا ہے۔
اس کے باوجود کانگریس اگر گجرات میں کی گئی کڑی محنت جاری رکھتی ہے اور جنگ آزادی اور فرقہ پرستی کو سب سے زیادہ طاقت دینے والے قرون وسطی کی وضاحت بھکتی شعرااور ان کے فلسفہ کے ذریعے شروع کرے تو وہ ایک عظیم بیانیہ تیارکر سکتی ہے جس سے ہندو توا کی بنیاد کمزور ہو سکتی ہے۔ یہ کام لمبا ہے لیکن بےمعنی نہیں ہے۔اگر صوفی شعرا کی روایت بےکار نہیں گئی تو ان کی یاد بھی بےکار نہیں جائےگی۔ اگر تقسیم ہونے کے باوجود گاندھی نہرو کی فکر و نظر آج بھی دو قومی نظریہ رکھنے والوںکے لئے چیلنج ہے تو ان کی مصدقہ روایت ملک کی سیاست کو نئی توانائی دے سکتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ ہندوستان کی سیکولرازم کو بچانے کی لڑائی ہندو بنام مسلم لڑائی ہے ہی نہیں۔ وہ ہندو بنام ہندو کی لڑائی ہے۔
اس کو مسلم بنام مسلم بنایا جا سکے تو بہت اچھا۔ یعنی یہ لبرل ہندو بنام شدت پسند ہندو کی لڑائی ہے اور اس کی تقلید کرتے ہوئے مسلم سماج بھی اپنے اندر سخاوت کی نئی پہل کر سکتا ہے۔
اس کے باوجود بی جے پی اور مودی کی تکثیریت پسندی کا مقابلہ اقلیتی سماج نہیں کر پائےگا۔ وہ اکیلے کرےگا تو تکثیریت پسندی مضبوط ہوگی۔ اس کا مقابلہ تکثیری سماج کے لبرل لوگ ہی کریںگے۔مودی جی نے نظریاتی پولرائزیشن کی سیاست شروع کرکے اپنے لئے لام بندی ضرور شروع کی ہے لیکن اس کا اثر لبرل سوچ کی لام بندی میں ہوئے بنا نہیں رہےگا۔ سخاوت جمہوریت کے لیے آکسیجن ہے۔جمہوریت میں اگر اس کی کمی ہوگی تو اس کو آکسیجن کا سلینڈر لگانا پڑےگا۔ اس لئے تمام خیالات کے ایسے ہرے بھرے پودے لگانے ہوںگے جس سے آکسیجن بچی رہے اور کٹرپن کے کاربن ڈائ آکسائڈ کی مقدار نہ بڑھنے دے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مہاتما گاندھی انتراراشٹریہ ہندی یونیورسٹی میں ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں۔)