سونیا گاندھی کے دورکی سب سے بڑی بدقسمت یہی کہی جائےگی کہ وہ فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس کو بہت مضبوط نہیں کر پائیں۔
کانگریس صدر کے طور پرسونیا گاندھی کادور(Tenure) سب سے لمبا رہا ہے۔ وہ 19سال کانگریس کی صدر رہی ہیں۔ نہروگاندھی فیملی کے ممبروں میں بھی ان کا دور ہی سب سے طویل رہا۔ سونیا گاندھی کے بعد جواہر لال نہرو (11 سال) اور اندرا گاندھی (7 سال) کا مقام آتا ہے۔اگر ہم ان کے اس طویل مدت کو دیکھیں تو یہ جدّو جہد بھرا رہا ہے۔ جس طرح سے وہ سیاست میں آئیں اور لمبی پاری کھیلیں، میرے حساب سے تاریخ اس کو زیادہ بہتر طریقے سے یاد کرےگی۔ ہندوستانی سیاست میں ان کی خدمات بہت اہم ہیں۔انہوں نے اپنے حق میں جو فیصلے لئے، جیسے 1991میں جب کانگریس کے صدر اور وزیر اعظم کا عہدہ ٹھکرانا یا پھر 2004میں عوامی فرمان ملنے پردوبارہ وزیر اعظم کے عہدے کو ٹھکرانا یا پھر آفس آف پرافٹ کے مسئلے پر استعفیٰ دےکر پھر سے انتخاب لڑکر جیتنا یا سب سے بڑا ابھی ریٹائرمنٹ لینے کا اعلان کرنا۔ ہماری سیاست سے کوئی ریٹائر نہیں ہوتا ہے لیکن سونیا نے ایک اچھی شروعات کی ہے۔
سونیا گاندھی نے 2004 میں اٹل بہاری باجپئی جیسے بڑے لیڈرکو ہرایا اور پھر 2009 میں بھی کانگریس کو اقتدار ملا۔ یہ جو 10سال کی حکومت رہی اس کے لئے کانگریسی ان کے بہت احسان مند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ وہ لوگ راہل گاندھی کو بھی موقع دیں گے اور سمجھنے کی کوشش کریںگے۔ہندوستانی سیاست میں سونیا ایک ایسی شخصیت کےطور پر سامنے آئیںگی جس کے بارے میں آنے والے وقت میں کافی کچھ لکھا جائےگا۔ لوگ حیرت کریںگے کہ ایک ایسی خاتون جو اٹلی میں پیدا ہوئی تھی، وہ ہندوستان کو اچھے سے سمجھ سکی۔ جس طریقے سے انہوں نےاپوزیشن کو یکجا کیا، مخالفوں سے تال میل قائم کیا اور قربانی کا مجسمہ بنکر منموہن سنگھ کو وزیر اعظم بنایا، یہ سب اپنے میں بےمثال ہے۔اگر ان کی کمیوں کی بات کریں تو انہوں نے پارٹی میں بہت نظم وضبط نہیں رکھا۔ وفاداری کو بہت برتری دی اور کانگریس کی جدیدکاری جیسے کرنی تھی وہ نہیں کر پائیں، لیکن 19 سال کانگریس کو سنبھالے ہوئے چلنا بھی آسان نہیں رہا۔ سب سے بڑی بات اس دوران کوئی ایسا خیمہ نہیں تھا جو ان کا کاٹ کرتے ہوئے چل رہا ہو۔
اگر راجیو گاندھی کے دورکو دیکھیں تو ان کو تمام چیلنج ملے، لیکن سونیا کے ساتھ ایسا نہیں رہا۔ صرف شرد پوار جیسے لیڈروں نے غیرملکی ہونے کی بات کو لےکر بغاوت کی لیکن اس دوران باقی تمام لیڈر سونیا کے ساتھ کھڑے رہے۔جہاں تک بات اقتدار کے دو مرکز بنانے اور کمزور وزیر اعظم کی ہے، تو یہ بات وہیں بےمعنی ہو جاتی ہے جب عوام نے 2009 میں ان کو اکثریت دے دی۔سونیا نے قومی مشاورتی کونسل (این اے سی) بناکر بہت ساری جمہوری پالیسیوں جیسے آر ٹی آئی، فاریسٹ رائٹ، رائٹ ٹو ورک کو لےکر حکومت کا بڑا پیسہ خرچ کیا جس کو لےکر ہندوستانی مڈل کلاس تھوڑا سا بےچین ہوا۔ ان فیصلوں سے انہوں نے کئی صنعت کاروں کو بھی ناراض کر دیا۔
شاید یہی وجہ رہی کہ مذہب، سیاست اور بڑے صنعت کاروں نے ان کے خلاف جب نریندر مودی کی قیادت میں ایک فرنٹ بنایا، تب وہ اس کا مقابلہ اس مضبوطی سے نہیں کر پائیں، جس مضبوطی سے انہوں نے اٹل بہاری باجپئی جیسے لیڈر کا کیا تھا۔یہ ایک اتارچڑھاؤ کا دور ہوتا ہے۔ پوری مدت کی اگر ہم بات کریں تو سونیا کا دور یادگار رہا۔
اگر سونیا کے غلط فیصلوں کی بات کریں تو انہوں نے کانگریس پارٹی میں سینئر ہونے کے پیمانے کو بہت توجہ دی۔ ہم سونیا کے زمانے میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کو دیکھیں تو بڑی تعداد میں لوگ راجیہ سبھا سے منتخب ہو کر آئے ہوتے تھے یا پھر وفاداری کے پیمانے پر کھرے اترتے تھے۔ پارلیامنٹ کے ممبروں کی تعداد اس میں کم ہی رہی۔اس کے علاوہ پرتبھا پاٹل کو صدر بنائے جانے کے دوران بھی صلاحیت سے زیادہ وفاداری کو توجہ دی گئی۔ ملک کے وزیر داخلہ کے انتخاب کے لئے وہ سشیل کمار شندے اور شیوراج پاٹل میں پھنسی رہیں۔
راہل گاندھی کو لےکر بھی انہوں نے ایک متوازی اقتداری مرکز بنایا، ان کو اگر سیاست میں لانا تھا تو کچھ ٹریننگ دینی چاہئے تھی۔ راہل کو حکومت میں شامل کیا جانا چاہئے تھا۔ ان سے یہ بڑی چوک ہوئی۔دوسرا سماجی سطح پر فرقہ پرستی بہت گہری ہے۔ فرقہ پرستی کو لےکر ہر سطح پر لڑنے کی ضرورت تھی لیکن سونیا گاندھی اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھاسکیں۔کانگریس نے اس کا ایک ونگ بنایا تھا سدبھاونا کے سپاہی۔ لیکن جب تک سنیل دت زندہ رہے تب تک یہ چلتی رہی، ان کے بعد اس ونگ کا کسی نے نام نہیں سنا ہے۔ابھی راہل گاندھی کہہ رہے ہیں یہ تو نفرت پھیلاتے ہیں، ہمیں لڑنا ہوگا لیکن آپ کیسے لڑیں گے؟ ایک پرانا قصّہ سنئے۔
1947 میں دہلی میں فسادات پھیلے ہوئے تھے۔ گاندھی جی آئے اور سبھدرا جوشی سے پوچھے کہ سنا ہے دلّی میں بڑی مارکاٹ مچی ہوئی تھی۔ سبھدرا نے کوئی تعداد بتاتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں اتنے لوگ مارے گئے۔تب گاندھی جی نے پوچھا اس میں سے کانگریس کے کتنے لوگ مرے؟ سبھدرا خاموش ہو گئی۔ تب گاندھی نے کہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے جو برٹش حکومت کے خلاف لڑ سکتا ہے، وہ اپنے ملک کی فرقہ پرستی کے خلاف کیسے نہیں لڑ پایا۔وہ سوال آج اس وقت سے زیادہ روشن ہو گیا ہے۔ سونیا گاندھی کے دورکی سب سے بڑی بدقسمت یہی کہی جائےگی کہ وہ فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس کو بہت مضبوط نہیں کر پائیں۔
(رشید قدوائی سینئر صحافی ہیں، انہوں نے سونیا: اے بایوگرافی اور 24 اکبر روڈ نام سے دو کتابیں لکھی ہیں۔ یہ مضمون امت سنگھ سے بات چیت پر مبنی ہے۔)
Categories: فکر و نظر