خبریں

ممبران پارلیامنٹ کا مطالبہ ،جی ایس ٹی سے ہینڈلوم انڈسٹری کوجلد از جلد الگ کیا جائے

 نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے اقدام سے عام لوگوں کو،خاص طور پر بنکروں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اس نے ہینڈلوم انڈسٹری کی کمر توڑ دی ہے۔

Photo : Delhi Solidarity Group

Photo : Delhi Solidarity Group

نئی دہلی : جی ایس ٹی کو ٹیکس ٹیررازم سے تعبیر کرتے ہوئے،تلنگانہ کے راجیہ سبھا رکن اور تلنگانہ کانگریس کے سکریٹری آنند بھاسکر نے مانگ کی ہے کہ ہینڈلوم سیکٹر کو جی ایس ٹی سے الگ رکھنا چاہئے ۔کیوں کہ  اس کی وجہ سے بنکروں کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مسٹر بھاسکر بدھ کو یہاں کانسٹی ٹیوشن کلب میں Rashtriya Chenetha Jana Samakhya اور دہلی سالڈیریٹی گروپ کی  جانب سے منعقد ملک میں بنکروں کی صورتحال اور ہینڈلوم انڈسٹری کی بدحالی کے متعلق پارلیامنٹ ممبروں کےساتھ ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں بول رہے تھے۔

مسٹر بھاسکر نے مزید کہا کہ ہم حکومت کی مثبت پالیسیوں کے ساتھ ہیں۔ مگر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے اقدام سے عام لوگوں کو،خاص طور پر بنکروں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اس نے ہینڈلوم انڈسٹری کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ جی ایس ٹی کو واپس لے تاکہ عام لوگوں کو راحت پہنچ سکے۔ مہاتما گاندھی کے نمک ستیہ گرہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہینڈلوم کو خام نمک کی طرح خام مال کے طور پر تسلیم کرنا چاہئے۔

weaving_despair

اس موقع پر  Weaving Despairs : The Challenges of the Handloom Sector in India کے عنوان سے ایک رپورٹ بھی ریلیز کی گئی۔ اس رپورٹ میں بھی جی ایس ٹی کو واپس لینے کی مانگ کی گئی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے مزدور سے لےکر مل مالک اور کاروباری لوگوں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر اور اس رپورٹ کے لئے پیپر لکھنے والی ڈاکٹر مونامی سنہا کا کہنا کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے مزدور اور چھوٹے کاروباری بھوک مری پر مجبور ہیں اور عین ممکن ہے کہ کئی علاقوں میں قحط سالی کی صورتحال پیدا ہو جائے۔

واضح ہو کہ اس راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں مسٹر بھاسکر سمیت ایک درجن ممبر پارلیامنٹ شریک ہوئے۔تمام ممبر پارلیامنٹ نے رپورٹ میں درج نکات سے اتفاق کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس رپورٹ کی سفارشات پر حکومت کو جلد از جلد عمل کرنا چاہیے۔انہوں نے یقین دلایا کہ وہ ان سفارشات کو ایوان کے اندر بھی پیش کریں گے۔

راجیہ سبھا کے سابق رکن علی انور نے کانفرنس میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ  12 سالوں میں ہم مسلسل  پارلیامنٹ کے اندر اور باہر بنکروں کے مسائل کو اٹھاتے رہیں مگر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری آواز ‘ نقّارخانے میں طوطی کی آواز ‘ کی طرح ہو گئی ہے۔ مسٹر انور نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو بنکر اور ان کی بنائی ہوئی چیزیں صرف عجائب گھروں  کا حصہ رہ جائیں‌گی۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما اور ممبر پارلیامنٹ ڈی راجا نے کہا کہ ہمیں بنکروں کے لئے سوشل سیکیورٹی کے بارے میں بات کرنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کے ملک میں بنکروں کے حقوق اور روزگار کے لئے ایک مضبوط تحریک چلانے کی ضرورت ہے،جس کے لئے تمام لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔