تمل شاعر پروفیسرحمید نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ افسران کے ذریعے اپنے خلاف کارروائی کی امید کی ،کسی ایوارڈ کی نہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں کبھی ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا تو وہ قبو ل نہیں کریں گے۔
گزشتہ سال 1 دسمبر کو جب تمل شاعر پروفیسر شاہل حمیدکا انتقال ہوا تو جنوبی ہندوستان سے نکلنے والے ایک اہم انگریزی روزنامہ دی نیو انڈین ایکسپریس نےسرخی لگا ئی؛’Makkal Kavignar’ Inquilab passes away۔پروفیسر حمیدانقلاب کے قلمی نام سے مشہور تھے،ان کے انتقال پر لگ بھگ تما م سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے رنج و غم کا اظہار کیا تھااور ان کی موت کو ایک ناقابل تلافی نقصان بتا یا تھا۔یہی انقلاب ان دنوں خبروں میں ہیں۔
اس بارساہتیہ اکیڈمی نے اپنے ایوارڈکا اعلان کیا تو اس میں پروفیسر حمید کے نام کا بھی اعلان کیا گیا ۔اپنی حیات میں احتجاج کی نظمیں لکھنے والے اس تمل شاعر کے اہل خانہ نے ایوارڈ لینے سے منع کر دیا،اس کے بعد سے مسلسل اخباروں کی سرخی میں انقلاب کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔دراصل ان نظموں میں احتجاج کی آوازبہت بلند ہے۔انہوں نے عوام کے حقوق کی بات کی،بعض لوگوں کی رائے میں ان کا سیاسی اور سماجی شعور ہی ان کو خاص طرح کی احتجاجی شاعری کرنے کے لئے اکساتا تھا۔انہوں نے ہمیشہ حکومت وقت کی نکتہ چینی کی اور سماج کی غیر برابری کے خلاف لکھا۔یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی نظموں میں حکومت وقت کے لیے صحیح معنوں میں اپوزیشن کا رول اد اکر رہے تھے۔شاید اس لیے ان کو ’مکل کوینگنر‘یعنی شاعر عوام کے نام سے بھی جانا پہچانا گیا۔وہ بیک وقت شاعر ،ڈراما نگار،فکشن نویس اور کالم نگارتھے ۔
1965کے ہندی مخالف آندولن میں نمایاں رول ادا کرنے کے لیے بھی پروفیسر حمید کا نام لیا جاتا ہے۔وہ کئی طرح کے آندولن اور تحریک سے وابستہ تھے۔ایل ٹی ٹی ای کے بانی وی پربھاکرن سے بھی ان کی ملاقات تھی۔2006میں تمل ناڈو حکومت کی طرف سے دیے گئے کلائی ممانی(Kalaimamani) ایوارڈ کو یہ کہہ کر کو لوٹا دیا تھا کہ حکومت شری لنکا میں تمل لوگوں کی حفاظت نہیں کر پائی۔ان کی نظموں میں (‘manusangada, naanga manusangada’)یعنی ہم سب انسان ہیں کو 70اور 80 کی دہائی میں مختلف تحریکوں ،بالخصوص دلت آندولن میں ایک نعرے اور نغمے کے طور پرخاص جگہ حاصل تھی۔کہا جاتا ہے کہ پروفیسر حمید پیریا ر کے صحیح معنوں میں عقیدت مندتھے اور ان کو اپنی زندگی میں بہت اہمیت دیتے تھے۔
اسی تمل شاعر انقلاب کے اہل خانہ نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لینے سے منع کردیا ہے۔ان کو یہ اعزاز ان کی موت کے بعد دیے جانے کا اعلان گزشتہ روز کیا گیا تھا۔ان کی فیملی کا کہنا ہے کہ انقلاب ایک ایسی حکومت سے کسی طرح کا اعزاز و اکرام نہیں لیتے جو فرقہ پرست اور شدت پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی ہے۔انقلاب 72 سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔
روزنامہ دی ہندو کی ایک خبر کےمطابق وہ مارکس وای لینن وادی تھے ۔ان کو اپنے تمل ہونے پر فخر تھا ۔وہ مبینہ طور پر ’وانم پڑی ‘نامی نظم کی تحریک سے بھی وابستہ تھے۔انقلاب کے ساتھ کام کر چکی اور ان کے ڈراموں کی ہدایت کارڈراماٹسٹ منگئی کا کہنا ہے کہ جب وہ حیات سے تھے تب ان کو یہ اعزاز دیا جانا چاہیے تھا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ اس کو قبول کرتے یا لوٹا دیتے یہ الگ بات ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ کئی بار ایوارڈ کے لیے ان کے نام پر غور کیا گیا ۔لیکن ان کا نام صرف اس لیے خارج کر دیا گیا کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے رہتے تھے اور اپنی تخلیق میں ان کی آواز کو اٹھاتے تھے ۔
انقلاب ٹرسٹ سنبھالنے والی ان کی بیٹی امینہ کا کہنا ہے کہ میرے والد کہا کرتے تھے کہ اپنی تخلیق کے لیے ایوارڈ پانے کی چاہت انہیں کبھی نہیں تھی ۔اس کی جگہ ان کو تنقید اور الزام جھیلنے پڑے۔
واضح ہو کہ انقلاب کو ان کی نظموں کے مجموعہ ’کاندھل ناٹکل‘ کے لیے ایوارڈ دیا جانا تھا۔ان کے بیٹے ایس انقلاب کا کہنا ہے کہ میرے والد کسی ایوارڈ کے پیچھے نہیں بھاگے۔انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ افسران کے ذریعے اپنے خلاف کارروائی کی امید کی ،کسی ایوارڈ کی نہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں کبھی ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا تو وہ قبو ل نہیں کریں گے۔