وزیر اعظم نریندر مودی کے دور کو پورا ہونے میں تقریباً16 مہینے کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ لیکن انہیں خود کو اور اپنی حکومت کو آزاد پریس کےتئیں جواب دہ بنانے کی ضرورت آج تک محسوس نہیں ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو تاریخ بنانے کا دعویٰ کرنا اچھا لگتا ہے۔ لیکن، ایک چیز اصل میں ہے، جس میں وہ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں۔ نریندر مودی جمہوری ہندوستان کی تاریخ میں ایک بھی پریس کانفرنس نہ کرنے والے پہلے وزیر اعظم ضرور ہیں۔ان کا دور پورا ہونے میں تقریباً16 مہینے کا وقت باقی رہ گیا ہے، لیکن انہیں خود کو اور اپنی حکومت کو آزاد پریس کے تئیں جواب دہ بنانے کی ضرورت آج تک محسوس نہیں ہوئی ہے۔کسی جمہوریت کے لئے یہ کتنا ضروری ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ‘ فیک نیوز ‘ پر بارود کی طرح پھٹ پڑنے والے اور پریس کو اپنا مستقل دشمن ماننے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی باقاعدہ طور پر پریس سے مخاطب ہوئے ہیں اور وہائٹ ہاؤس نمائندے کے ذریعے تصدیق شدہ نامہ نگاروں کے لئے تقریباً روزانہ پریس بریفنگ کی لمبے وقت سے چلی آ رہی روایت کو بھی انہوں نے برقرار رکھا ہے۔
نریندر مودی اپنے پیش رو ڈاکٹر منموہن سنگھ کا مذاق بناتے ہوئے، ان کو ‘ مون موہن سنگھ ‘ پکارا کرتے تھے۔ لیکن ایک آزاد پریس کو اس کے آئینی وقار سے محروم کرنے کی اپنی کوشش میں انہوں نے منموہن سنگھ کو ضرور شکست دے دی ہے۔مودی کے برعکس، جو ایک منتخب وزیر اعظم ہیں، ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک ‘ نامزد’ وزیر اعظم تھے۔ لیکن پھر بھی منموہن سنگھ نے کبھی پریس مذاکرات سے کترانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے ہرسال کم سے کم دو پریس مذاکرات کیے۔ غیرملکی سفروں کے دوران ہوائی جہاز کے اندر بھی وہ باقاعدگی سے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے تھے۔
مودی نے اپنے چکرا دینے والے غیر ملکی دوروں کے دوران-جس کی تعداد 40 کے قریب ہے، میڈیا کو ساتھ لے جانے کی روایت سے دستبردار ہو گئے۔ مودی کے اس قدم سے رائٹ ونگ ٹرولوں کی جماعت نہ صرف خوش ہوئی، بلکہ انہوں نے اس کے لئے مودی کی جم کر تعریف بھی کی۔بدقسمتی سے مودی نے اس کو لٹین دہلی کے ‘ پیڈ میڈیا ‘ کی عیش و عشرت والیزندگی کی مثال کے طور پر پیش کیا۔ لیکن، حقیقت، جیسا کہ مودی کے ذریعے کئے گئے زیادہ تر دعووں کے ساتھ ہوتا ہے، اس سے الگ ہے۔وزیر اعظم کے ساتھ جانے والے میڈیا اہلکار ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ایئر انڈیا کی فلائٹ میں مفت میں سفر ضرور کرتے تھے، لیکن وہ اپنے ٹھہرنے کے اور دیگر خرچ خود اٹھاتے تھے۔
اس روایت کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ میڈیا کے لوگوں کو اعلیٰ افسروں اور وزیر اعظم کے ساتھ جانے والے وزرا کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملتا تھا اور اس طرح سے وہ حکومت کو عوام کے تئیں جواب دہ بناتے تھے-زیادہ تر جمہوریت میں یہ ایک قابل قبول عام روایت ہے۔مودی نے میڈیا کے تئیں اپنی نفرت کسی سے چھپائی نہیں ہے اور انہوں نے آج تک صرف دو دوستانہ چینلوں کو احتیاط کے ساتھ تیار کئے گئے انٹرویو ہی دیے ہیں۔
ایک معاملے میں تو مودی اس گروپ (جس کا اس چینل پر ملکیت ہے) کے برانڈ کے رنگکے کپڑے پہنکے آئے تھے اور اس کاروباری گروپ نے اپنی ٹیلی کام کمپنی کو لانچ کرنے کے موقع پر (مودی کی تصویر کے ساتھ) پورے صفحے کا اشتہار تک نکالا تھا۔مودی کے Planetariumسے دہشت زدہ مدیر / اینکر کی وجہ سے یہ انٹرویو ویسی منشا نہ ہونے کے باوجود اصل میں کافی مضحکہ خیز بن گیا تھا، جس میں مودی مدد کرتے ہوئے اپنی طرف سے سوال پوچھ رہے تھے اور مونولاگ یا خودکلامی میں چلے جا رہے تھے۔
ایسا ایک بار بھی نہیں ہوا جب ‘ صحافی ‘ نے ان کو بیچ میں ٹوکا ہو یا جواب سے پیدا ہونے والا ضمنی سوال پوچھا ہو۔ یہ میڈیا کے اندر کے چھپے ہوئے ‘ مودی بھونپو ‘ کی ایک بہترین مثال تھی۔مودی نے یہ طے کیا ہے کہ ان کے وزیر ان کے ہی راستے پر چلیں۔ وہ یا تو میڈیا کے تئیں دشمنی کا جذبہ رکھتے ہیں، مثال کے لئے اطلاعات و نشریات وزیر اسمرتی ایرانی، جنہوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولوں کے ایک گروپ کو پال-پوسکر بڑا کیا ہے، یا ان کو پریس سے ملنے میں ڈر لگتا ہے۔
یہاں تک کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ جیسے وزیر، میڈیا کے ساتھ پہلے جن کا خوشگوار رشتہ ہوا کرتا تھا، انہوں نے بھی خود کو دیواروں کے اندر بند کر لیا ہے۔ شاید انہوں نے ایسا وزیر اعظم دفتر میں بیٹھنے والے طاقتور لوگوں کی ہدایت کے تحت کیا ہو۔اتناہی نہیں، پریس انفارمیشن بیورو سے تصدیق شدہ صحافیوں کی وزارتوں تک آزاد اور بےروک ٹوک پہنچ پر بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر آپ کے پاس پی آئی بی کارڈ ہے بھی، توبھی آپ سے یہ پوچھا جائےگا کہ آپ کس افسر سے مل رہے ہیں۔
اس کے بعد اس افسر سے مشکل سوال و جواب کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ زیادہ تر ‘ ذرائع ‘ ختم ہو گئے ہیں اور نامہ نگاروں کو عام اطلاعات حاصل کرنے میں بھی ناقابل بیان مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس سے بھلے حکومت کے چہرے پر خوشی کا تاثر آئے، لیکن اس سے سب سے زیادہ نقصان شہریوں کا ہو رہا ہے، کیونکہ حکومت ویسی اطلاعات کو باہر آنے سے روکنے کے لئے دھمکیوں کا سہارا لے رہی ہے، جن کو وہ باہر نہیں آنے دینا چاہتی۔
یہاں اطلاع کے حق کا معاملہ لیا جا سکتا ہے۔ ساری طاقتوں کا وزیر اعظم دفتر میں مرتکز کر دینے والی مودی حکومت کا آر ٹی آئی درخواستوں کا جواب دینے کے معاملے میں ٹریک رکارڈ بےحد خراب ہے۔ اس وزیر اعظم دفتر نے بغیروجہ بتائے 80 فیصد آر ٹی آئی درخواستوں کو خارج کر دیا ہے۔صاف ہے، ہمارے سامنے ایک ایسا وزیر اعظم ہے، جو خود کو کسی بھی آئینی یا اصولی تفتیش سے باہر مانتا ہے، پھر چاہے یہ تفتیش میڈیا کے ذریعے ہو یا عوام کی طرف سے۔
مودی نے وزیر اعظم کے پریس صلاح کار رکھنے کی روایت کو بھی ختم کر دیا ہے۔ یہ صلاح کار میڈیا کا آدمی ہوا کرتا تھا۔ مودی سے پہلے، تمام وزیر اعظم نے کسی سینئر صحافی یا کسی افسر کو پریس صلاح کار کے طور پر مقرر کیا تھا۔اب میڈیا کو یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ پی ایم او میں رابطہ کریں، تو کس سے کریں۔پارلیامنٹ کے سینٹرل ہال میں صحافی پارلیامنٹ ممبروں اور وزرا سے مل لیا کرتے تھے۔ لیکن، اب مودی نے وہاں بھی اپنے ایک قابل اعتماد معاون کو تعینات کر دیا ہے۔ گجرات کا یہ افسر داخلہ باب پر کھڑا رہتا ہے اور صحافیوں سے بات چیت کرنے والے بی جے پی وزرا اور رکن پارلیامنٹ کی فہرست تیار کرتا ہے۔
صاف ہے، اتنے کھلے طور پر نظر رکھے جانے اور فہرست میں درج ہونے والے اب اپنے مستقبل کی فکر کرکے صحافیوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ ایک سینئر وزیر نے بتایا، ‘ ایک بار پرنٹ میڈیا کے ایک سینئر مدیر سے میری آسانی سے کچھ بات ہو گئی۔ میرے پاس اسی دن پارٹی کے ایک اعلیٰ رہنما کا یہ پوچھنے کے لئے فون آ گیا کہ میں نے ان کو کیا بتلایا۔ یہ میرے لئے کافی شرم والی بات تھی۔ ‘وزیراعلی کے طور پر مودی کو کور کرنے والے گجرات کے صحافی ان سب سے ذرا بھی حیران نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی نے گاندھی نگر میں بھی انہی طریقوں کا استعمال کرکے پریس کو پوری طرح سے باہر کر دیا۔
مودی نے یہ بھی طے کیا کہ اسمبلی کے کم سے کم اجلاس ہوں۔ جب سیشن چلتے بھی تھے، تو ان میں شرکت کرنے میں لوگوں کی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ پارلیامنٹ کی سیڑھیوں پر ڈرامائی طورپر پیشانی ٹیکنے کے باوجود اصل میں انہوں نے دلّی میں ‘ گجرات ماڈل ‘ کو ہی اتارنے کا کام کیا ہے۔ اس بار کا چھوٹا سرمائی اجلاس اس کا ایک ثبوت ہے۔ پارلیامنٹکے سرمائی اجلاس کو اس لئے کتر دیا گیا، کیونکہ مودی اور ان کی پوری ٹیم گجرات میں انتخابی تشہیر کرنے میں مصروف تھی۔
مودی اپنے ٹوئٹر ہینڈل، اپنے ‘ نمو ‘ ایپ اور اپنے ریڈیو ایکالاپ ‘ من کی بات ‘ کے سہارے یکطرفہ مکالمہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس یکطرفہ تقریر میں کسی بھی سوال کی نہ اجازت ہے، نہ اس کو برداشت کیا جاتا ہے۔غیر ملکی صحافی بھی یہ شکایت کرتے ہیں کہ اگر وہ کوئی ایسی اسٹوری لکھتے ہیں، جس کو مودی حکومت اپنی شان کے خلاف مانتی ہے، تو ان کے ساتھ ‘ اچھوتوں ‘ جیسا عمل کیا جاتا ہے۔
ایک فرینچ اخبار کے سینئر مدیر نے کافی مایوسی بھرے آواز میں کہا، ‘ میں ‘ لو جہاد ‘ اور گائے کے نام پر مسلموں کو پیٹ پیٹ کر مار دینے کو مودی حکومت کی اچھی حکومت کا چمکتا ہوا مثال کیسے قرار دے سکتا ہوں؟ یا پھر میں نوٹ بندی کی آفت کے بارے میں کسی بھی طرح سے تعریفی لہجے میں کیسے لکھ سکتا ہوں؟ ہمیں ناراض وزرا کے فون کال آ جاتے ہیں اور یہ کافی ہے۔ اس کے بعد ہماری پہنچ محدود کر دی جاتی ہے۔ ‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی کو صرف آزاد میڈیا ناپسند ہے۔ کچھ چیئرلیڈر چینل، جنھیں سابق بی جے پی رہنما ارون شوری ‘ شمالی کوریائی چینل ‘ کہتے ہیں، جو اپنا سارا وقت اپوزیشن پر حملہ کرنے اور ان کی جوابدہی طے کرنے پر خرچکر دیتے ہیں، ساتھ ہی مودی حکومت کے دور میں سامنے آئے پروپگینڈہ ویب سائٹس، آج نہ صرف پھل-پھول رہی ہیں، بلکہ بلاواسطہ طریقے سے بی جے پی کے ذریعے ان کی فنڈنگ بھی کی جا رہی ہے۔
کسی بھی جمہوریت کی سب سے بڑی خاصیت کہی جانے والی آئینی جوابدہی کے تئیں مودی کے اندر جو نفرت کا جذبہ ہے، وہ ایک خطرناک بدشگونی کی آہٹ ہے، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ اور بی جے پی صدر امت شاہ ایک کے بعد ایک ہونے والے ریاستی اسمبلیکے انتخابات اور 2019 کے عام انتخاب کے لئے 24/7 کے انتخابی تشہیر والی کرنسی میں آنے والے ہیں۔
ایک بھی پریس کانفرنس کا نہ ہونا اور یہ یقین کہ وہ کسی بھی میڈیا پوچھ تاچھ سے الگ ہیں، بلاشبہ، ہندوستانی جمہوریت پر پڑا مودی کا ڈراونا اثر ہے۔
(سواتی چترویدی صحافی ہیں اور دہلی میں رہتی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر