بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد یہ کہہ رہی ہے کہ امبیڈکر اس کے لئے یاد گار ہیں لیکن انہی کی تنظیم اور پارٹی کےلوگ منواسمرتی کے ساتھ آئین کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔
بھیماکورےگاؤں میں پہلی جنوری 2018 کو ہوئی ریلی کے دوران ہوا حملہ اور اس کے جواب میں ہوئے بند کے دوران ہوئی توڑپھوڑ اور تشدد قابل مذمت ہے لیکن اس سے نکلا ڈسکورس اور قیادت اہم ہے۔اب معاملہ محض ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ساتھ لڑنے والوں کی شجاعت و بہادری بنام باجی راؤ پیشوا کی فوج اور ان کی دیسی حکومت سے ہمدردی رکھنے تک محدود نہیں ہے۔
معاملہ اتناہی نہیں ہے کہ نوآبادیاتی حکومت کے دوران ملنے والی سماجی عزت چاہیے یا دیسی حکمرانوں کی حکومت میں ملنے والی غلامی چاہیے۔ یہ صرف راشٹر بھکتیبنام حب الوطنی کا معاملہ بھی نہیں رہ گیا ہے۔اس کے ساتھ اب نوجوانوں کے خواب اور روزگار کا سوال بھی جڑتا جا رہا ہے اور اقلیتی سماج بھی اس کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔
بات نکلی ہے تو دور تک چلی گئی ہے اور اکثر اقتدار کے لئے تو کبھی اسباب کے سوال پر بکھراؤ کی حالت میں رہنے والی دلت کمیونٹی پرکاش امبیڈکر اور جگنیش میوانی کے ساتھ ملکر پوچھ رہی ہے کہ کیا یہ وہی ملک ہے جس کو بنانے کے لئے بابا صاحب امبیڈکر نے 1927 کے مہاڑ ستیہ گرہ میں منواسمرتی جلائی تھی اور 1950 میں جدید منو کے طور پر آئین بناکر ملک کو سونپا تھا۔
وہ پوچھ رہا ہے کہ دلتوں کا ملک کہاں ہے مہاراج؟ اسی لئے گجرات اسمبلی میں حال میں منتخب ہوکر آئے دلت ایم ایل اے جگنیش میوانی نے نو جنوری کو سنسد مارگ پر ہوئی ریلی میں ایک ہاتھ میں منواسمرتی اور دوسرے ہاتھ میں آئین لےکر وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھا کہ اپنے کو امبیڈکر کا بھکت بتانے والے مودی جی کو کیا منظور ہے۔
بھیماکورےگاؤں سے نکلی دلتوں کی قومیت کا یہ ڈسکورس ہندو توا کی قوم پرستی کو سیدھے چیلنج دے رہا ہے اس لئے اس کے اہلکار کہہ رہے ہیں یہ ‘ بریکنگ انڈیا بریگیڈ ‘ ہے اور ذات پرستی کا زہر پھیلا رہا ہے۔مہاراشٹر سے نکلا یہ ڈسکورس ملک کے کس کس حصے تک جائےگا یہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن 2016 میں بابا صاحب کی 125 ویں یوم پیدائش کے موقع پر سنگھ پریوار نے جس جوش و خروش سے ان کو اپنے نظریاتی اور تنظیمی دائرے میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی اور ووٹ کی سطح پر ایک حد تک اس میں کامیاب بھی رہے تھے وہ اب نسلی انسداد کے سوال پر ان کو پریشان کر رہا ہے۔
پیچھے پلٹکر دیکھیں تو تعجب نہیں ہوگا کہ 14 اگست 1931 کو مہاتما گاندھی سے اپنی پہلی ملاقات میں بابا صاحب کی مخالفت اور ان کے سوال تقریباً اسی طرح کے تھے۔ امبیڈکر نے کہا تھا، ‘ گاندھی جی میرے پاس مادر وطن نہیں ہے ‘ اور ان کےاس تبصرہ کو سنکر گاندھی جی سکپکا گئے تھے۔
گاندھی جی نے کہا تھا کہ ‘ ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس مادر وطن ہے اور اس کی خدمت کس طرح کی جائے یہ آپ کے کاموں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ‘اس کی سخت مزاحمت کرتے ہوئے امبیڈکر نے کہا تھا، ‘ جس ملک میں ہم کتّا اور بلی جیسی زندگی جیتے ہیں اس زمین کو جائے پیدائش اور اس مذہب کو اپنا مذہب میں تو کیا کوئی باعزت انسان اور نفس پرور بھی نہیں کہہ سکتا۔ میرے پاس مادر وطن نہیں ہے سادیت ہے اور اسی کی بنیاد پر ممکن ہے کوئی قومی خدمت ہو گئی ہو۔ ‘
حالانکہ ان 87 سالوں میں بہت کچھ بدلا ہے اور ایک دلت شہری دوسری بار اس ملک کا صدر بنا ہے، عدلیہ کے اوپر پر دلت پہنچ چکے ہیں، سب سے بڑی ریاست میں ایک دلت خاتون پانچ بار وزیراعلیٰبنی ہے اورپارلیامنٹ میں درج فہرست ذات کے تقریباً ڈیڑھ سو رکن پارلیامنٹ ہیں اور ریزرویشن کا فائدہ لےکر شہروں میں ایک لائق متوسط طبقہ بھی کھڑا ہوا ہے۔
اس کے باوجود سماجی سطح پر قائم دوری اور عداوت اور اس کے چلتے جگہ جگہ دلت کمیونٹی پر ہونے والے مظالم امبیڈکر کے اس قول کو نئے سرے سے بامعنی کر دیتے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک طرف ہندو مذہب کا نظریہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے کہ امبیڈکر ان کے لئے یاد گار ہیں تو انہی کی تنظیم اور حکومت سے متعلق لوگ منواسمرتی کے عظیم الشان افتخار کے ساتھ آئین کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔
سرکاری تنظیموں اور سماجی تنظیموںکے ذریعے حیدر آباد، اونا، سہارن پور اور میرٹھ جیسے ملک کے مختلف حصوں میں دلتوں پر ہونے والے مظالم کے واقعات اور وقت وقت پر ظاہر ہونے والے آئین مخالف قول دلتوں کے ساتھ ہی سماج کے جمہوری تنظیموں اور آدمیوں میں ڈر پیدا کرتے ہیں اور بھیماکورےگاؤں کی جنگ کے دو سو سال کی یاد گاری جشن کے انعقاد سے نکلے بیان سے ان کو جوڑتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ 1818 کی اس جنگ میں پہلے انگریزی فوج پھر مہاروں کی بہادری اور جیت کا جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ انگریزوں کے ذریعے گڑھا گیا ہے اور دوسرا حصہ بابا صاحب امبیڈکر اور ان کے پیروکاروں کے ذریعے۔پہلے انگریزوں کو ہندوستانیوں کو منقسم کرنے کی ضرورت تھی تب انہوں نے وہاں ستون کھڑا کیا اور بعد میں بابا صاحب کو انگریزی فوج میں مہاروں کی بھرتی کے ذریعے ان کو روزگار اور عزّت دلانا تھا اس لئے انہوں نے اس کی وضاحت ذات کی عزّت اور بہادری سے جوڑکر کی۔
بابا صاحب کے ذریعے ہندوستان کو مادر وطن کہنے سے انکار کرنے کے بعد 87 سال بیت چکے ہیں اور آج دلت قوم پرستی کا ایک ڈسکورستیار ہو چکا ہے اور ان کو بھی ہندوستانی ملک کی عظیم شخصیت کی شکل میں پہچان مل چکی ہے۔اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ذات کا قومی بیان کمزور ہوتا ہے جو امیر اور طاقتور نہیں رہتی اور دن رات روزی روٹی کے لئے جدو جہد کرتی رہتی ہے۔
آج دلت سماج اگر اپنے پروقار ماضی کی تلاش میں اور متاثر کن قوم پرستی کے مقابلے بھیماکورےگاؤں کے ذریعے اپنی نسبی امارت تیار کر رہا ہے تو یہ گاندھی کی قیادت میں تیار کئے گئے کانگریس کی سیاسی قوم پرستی اور سنگھ پریوار کے ذریعے تیار ثقافتی قوم پرستی کی طرح ہی دلت قوم پرستی کا ایک تیسرا رجحان ہے جو مہاراشٹر میں مضبوط طریقے سے موجود ہے۔
Benedict Andersonاپنی مشہور کتاب ‘ Imagined Communities’ میں مانتے ہیں کہ قوم پرستی ایک خیالی کمیونٹی کی تخلیق پر ہی کھڑی ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پونے، ناگ پور اور وردھا کے آس پاس کہیں قوم پرستی کی ان تینوں دھاراؤں کا مرکز بھی تلاش کیاجا سکتا ہے اور اسی لئے یہیں وہ سب سے زوردار طریقے سے ٹکراتی بھی ہیں۔
دلت ذاتوں کی اس قومیت کو ابھارتے ہوئے 1901 میں ہندوستانی مردم شماری کے سپریٹنڈنٹ رابرٹ وانے رسیل نے رائےبہادر ہیرالال کے ساتھ ملکر لکھی گئی اپنی کتاب ‘ کاسٹ اینڈ ٹرائی آف سینٹرل انڈیا ‘ (1916) میں لکھا ہے کہ مہاراشٹر دراصل مہاروں کا ملک ہے۔ حالانکہ بعد میں زیادہ تر فلسفی اس کی پیدائش مراٹھی زبان اور ذات سے بتاتے ہیں۔
مہاراشٹر جہاں دلتوں کی آبادی 12 فیصد کے آس پاس ہے وہاں کبھی 1857 میں انگریزوں کی حمایت کرنے والے مہاتما جیوتی باراؤ پھولے تو کبھی انگریزوں کو ساتھ لےکر سماجی برائی سے لڑنے والے امبیڈکر کے خیالات اور جدو جہد کی علامتوں کے سہارے اس کہانی کو تیار کیا جاتا ہے۔
دھیان رہے کہ انگریزوں کو ملیچھوں سے آزادی دلانے والا خیال آنندمٹھ میں وندے ماترم جیسا گیت لکھنے والے بنکم چندر میں بھی تھا اور بعد میں تمام ہندووادی رہنماؤں میں بھی۔ اس لئے محض انگریزوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے کوئی قوم پرستی کو خارج کرنے کےلائق نہیں ہو جاتا۔
مہاراشٹر سے ٹھیک الگ اتر پردیش میں دلت تحریک نے اودا دیوی پاسی، بجلی پاسی، جھلکاری بائی اور ماتادین جیسے دلت کرداروں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ آزادی کی جنگ میں دلتوں کی فعال شراکت داری رہی ہے۔اس بات کو بدری ناراین اور چاروگپتا جیسے سماجی ماہرین نے اپنی ریسرچ میں بھی پیش کیا ہے اور ڈی سی ڈینکر نے ‘سوادھینتا سنگرام میں اچھوتوں کا یوگدان ‘ لکھکر ان کی قومی شراکت کو دکھانا چاہا ہے۔
آج سوال یہ ہے کہ اپنے ملک اور قومیت کی تلاشکر رہے دلتوں کو کیا پہلے کے گاندھی واد کی طرح آج ہندوتواسے ٹکرانا ہی پڑےگا اور پہلے ان کے لئے جابرانہ رہےگاندھی واد آج ہندو توا کے سامنے ان کا معاون اور نجات و ہندہ ثابت ہوگا؟
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مہاتما گاندھی بین الاقوامی ہندی یونیورسٹی میں ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں)
Categories: فکر و نظر