اونا کی دلت تحریک سے مشہور ہوئے جگنیش میوانی گجرات کی وڈگام سیٹ سے آزاد ایم ایل اے ہیں۔
تقریباً دو سال پہلے گجرات میں مری گائے کا چمڑا اتار رہے کچھ دلت جوانوں کی پٹائی کے بعد ہزاروں کی تعداد میں دلت کمیونٹی کے لوگ سڑکوں پر اترے۔ اس تحریک کے مرکز میں جو نام ابھرکر سامنے آیا، وہ تھا جگنیش میوانی۔اونا میں ہوئی دلت تحریک کے دوران جگنیش نے حکومت کو گھیرتے ہوئے تیکھے سوال پوچھے۔ انہوں نے اس وقت کی بی جے پی حکومت سے کہا، ‘ گائے کی دم آپ رکھو، ہمیں ہماری زمین دو۔ آپ مری گائے کا چمڑا اتارنے پر ہمارا چمڑا اتار لیںگے؟ تو آپ اپنی گائے سے کھیلتے رہو۔ ہمیں نہ زندہ گائے سے مطلب ہے، نہ ہی مری ہوئی گائے سے۔ ہمیں زمینوں دو۔ ہم روزگار کی طرف جائیںگے۔ جس پیشے کے لئے ہمیں اچھوت کہا گیا، آپ اسی کے لئے ہمارا چمڑا ادھیڑ رہے ہو، یہ کیسے چلےگا؟ ‘
دراصل جوانوں پر ہوئے مظالم کے بعد جگنیش فعال ہوئے اور دلت کمیونٹی کے لوگوں کو اس بات کے لئے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھے کہ اب وہ نہ تو میلا ڈھوئیں اور نہ ہی مرے ہوئے جانوروں کےچمڑےاتارنے کا کام کریں۔1980 میں میہسانا میں پیدا ہوئے جگنیش کے والد کلرک تھے۔ انگریزی ادب سے گریجویٹ جگنیش صحافی بھی رہ چکے ہیں۔ وہ مختلف مورچوں پر سماجی کاموں سے منسلک رہکر دلتوں، مزدوروں اور کسانوں کے مسائل اٹھاتے رہے ہیں۔
وہ گجرات میں عام آدمی پارٹی سے بھی جڑے، لیکن تھوڑے ہی وقت میں استعفیٰ دے دیا۔ فی الحال وہ وکالت کرتے ہیں۔ ساتھ میں گجرات کے نومنتخب ایم ایل اے میں شامل ہیں۔گجرات کے وڈگام اسمبلی سیٹ سے آزاد انتخاب جیتنے کے بعد میوانی ملک میں دلت تحریک کو مضبوط کرنے کی بات کر رہے ہیں۔وہ وزیر اعظم نریندر مودی پر کھلکر حملہ کرتے ہیں۔ مہاراشٹر کے بھیماکورےگاؤں میں ہوئے تشدد ہو یا پھر دہلی میں ہونے والی ہنکار ریلی، جگنیش پر سب کی نظر ہے۔مین اسٹریم میڈیا میں ان کا تذکرہ ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کا ایک طبقہ ان کو بطور ہیرو دیکھ رہا ہے۔
احتجاج کرنے والوں کی وہ آواز بن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کےکسان، مزدور، آدیواسی، مسلم کمیونٹی ان کے ساتھ کھڑےہیں۔فی الحال ابھی جگنیش میوانی سڑک پر جدو جہد کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حاضرجواب ہیں۔ سوشل میڈیا کا اچھا استعمال کرنا جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹی وی پر زور دار طریقے سے دلیلوں کے ساتھ اپنی بات رکھتے ہیں۔
بہت سارے سیاسی تجزیہ کار ان میں دلت سیاست کے نئے رہنما کی امیج دیکھ رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ ہندوستانی رائےدہندگان کی آبادی میں دلتوں کا تناسب 16.6 فیصد ہے۔جگنیش میوانی کی سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے سینئر صحافی شیکھر گپتا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ‘ ان میں کئی خوبیاں ہیں-وہ جوان ہیں، اپنی بات رکھنا جانتے ہیں، نڈر ہیں، سوشل میڈیا پر فعال ہیں اور ان میں سیاسی اور نظریاتی لچیلاپن ہے۔ ان کا ہدف بھی واضح ہے۔ وہ بی جے پی کو اپنا واحد دشمن مانکر نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کی بنیاد پر دوسروں سے تال میل بٹھا رہے ہیں۔ ان میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ وہ چھوٹی ریاست سے ہیں، ان کے ساتھ ان کے انتہا پسند رجحان کا ٹھپا ہے، جو جے این یو اور کچھ دوسری مرکزی یونیورسٹیوں کے باہر اہم رجحان میں اثردار نہیں ہوتا۔ ‘
شیکھر گپتا ساتھ ہی ملک کی دلت سیاست کو لےکر تمام سوال بھی پوچھتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کیا ہندوستانی سیاست میں ایک نیا دلت ابھارسامنے آ رہا ہے؟ جس کو اب دلت دعوےداری کہا جا رہا ہے وہ کیا انتخابات کے آئندہ سیزن میں سیاست میں بھاری اتھل پتھل لا سکتی ہے؟ کیا جگنیش میوانی اس نئے ابھار کی نمائندگی کرتے ہیں؟ اور کیا جگنیش میں میں اسٹریم میں آنے کی وہ مہارت، قابلیت، سپردگی اور بلندحوصلگی ہے؟
فی الحال اگر ہم جگنیش کی سیاسی اور سماجی زندگی کو دیکھیں تو ان کا ابھار اونا میں ہوئے مظالم کے رد عمل میں ہوا تھا۔چونکہ گجرات میں دلتوں کی آبادی بہت زیادہ نہیں ہے اس لئے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ حالانکہ جگنیش لگاتار ملک کی دوسریریاستوں اور دوسرے منچوں پر فعال رہے لیکن تب بھی مین اسٹریم میڈیا کا دھیان نہیں گیا۔گجرات میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخاب میں ملی جیتکے بعد ان میں امکانات کی تلاش کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ لیکن کیا جگنیش میوانی ملک کی دلت سیاست کو کوئی نئی سمت دے پائیںگے؟
سماجیات کے ماہر اور دلت سیاست کے جان کار بدری نارائنکہتے ہیں، ‘ جگنیش میوانی مراٹھی دلت پینتھر سیاست کا نیا ایڈیشن ہے۔ ان میں وہی زبان، ہاؤبھاؤ اور سوچ دکھائی دیتی ہے۔ یعنی یہ پرانی سیاست کی نئی زبان ہے۔ جگنیش شمالی ہندوستان کی حقیقت کے ساتھ کتنا فٹ بیٹھ پائیںگے یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ایسی ریاست جہاں پر دلت شعور زیادہ ہے، ان کی بات سنی جائےگی۔ ‘
وہیں سینئر صحافی ارمیلیش کہتے ہیں، ‘ جگنیش ایک سمجھدار لیڈرہیں۔ کانشی رام کے بعد دلتوں میں اس طرح کی سمجھ کم رہنماؤں میں رہی ہے۔ دوسری بات اقتدار کی سیاست کرنے والے دوسرے دلت رہنماؤں پر تمام طرح کے الزامات ہیں لیکن ابھی جگنیش اقتدار سے دور ہیں اس لئے ان پر کوئی الزام بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ دیکھنا ہے کہ وہ کیسے اپنی تحریک کو، مدعوں کو اور دلت تحریک کے سامنے جو تعطل ہے، اس کو کیسے توڑتے ہیں۔ کس طرح کی حکمت عملی بناتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں باقی ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ ایک انتخاب جیتنے سے سوالوں کا جواب نہیں ملتا ہے۔ انتخاب جیتنا اہم ہے لیکن ایک انتخاب سے کامیابی کو نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ ابھی ہمیں جگنیش کو لےکر انتظار کرنا چاہیے۔’یہی نہیں، جگنیش میوانی کو لےکر جانکاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان میں ملک کی دلت سیاست میں ایک کرشمائی رہنما کی ضرورت کو پورا کرنے کےامکانات ہیں۔
چونکہ دلت ملک کی اہم ریاستوں میں کافی حد تک بٹے ہوئے ہیں۔ اس لئے مرکزی سطح پر ان کی قیادت کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔مایاوتی، رام ولاس پاسوان، ملّک ارجن کھڑگے، تھاورچند گہلوت وغیرہ الگ الگ رہنما وقت وقت پر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جگجیون رام اور کانشی رام کے بعد یہ جگہ خالی ہی رہی ہے۔
سینئر صحافی شرد پردھان کہتے ہیں، ‘ جگنیش نوجوان آدمی ہیں۔ ان کو پوری طرح سے خارج کر دینا مناسب نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں دلت قیادت کو لےکر خالی جگہ ہے۔ دلتوں کو اپنا رہنما چاہیے۔ جگنیش بیدار سیاست کر رہے ہیں۔ اگر وہ آنے والے وقت میں یہی سیاست قائم رکھتے ہیں تو وہ اس جگہ کوبھر سکتے ہیں۔ حالانکہ ایسا موقع مایاوتی کے سامنے تھا۔ لیکن مایاوتی نے وہ موقع صرف لالچ اور تکبر کی وجہ سے گنوا دیا۔ دلت سیاست کرکے بھی انہوں نے دلتوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ دلتوں نے مایاوتی کو چھوڑ دیا۔ جگنیش کو یہ سمجھداری دکھانی ہوگی۔ ‘
حالانکہ جے این یو کے پروفیسر وویک کمار جگنیش میوانی کی سیاست کو لےکر الگ رائے رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں، ‘ تحریک اجتماعیت کی بنیاد پر مسلسل اور دائمی عمل کا نام ہے جس میں نظریہ، قیادت اور تنظیم کی ہم آہنگی ہوتی ہے۔ اگر جگنیش میوانی یہ سب چیزیں شامل کر لیتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ کامیاب ہو جائیں۔ ورنہ ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ مشکل وقت میں قیادت پیدا ہوتی ہے اور پانی کے بلبلے کی طرح ختم ہو جاتی ہے۔ ‘
انہوں نے جگنیش میوانی کومین اسٹریممیڈیا کے ذریعے ملے کوریج کو لےکر سوال اٹھاتے ہوئے فیس بک پر پوسٹ لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں، ‘ کیا کسی بہوجن / ملکی / دلت آدمی کو، جو بہوجن سماج اور تحریک کا سچّا خیر خواہ ہو اس کو ہندوستان کامین اسٹریم اور سرمایہ دار میڈیا اتنا کوریج دیتا ہے جتنا ایک نام نہاد رہنما کو دیا گیا۔ آخر اس نے ایسیکون سی انقلابی تحریک کی جو ہر چینل والا اس کا اکیلے اکیلے انٹرویو کر رہے تھے۔ کہیں یہ مین اسٹریم میڈیا اور سیاسی تنظیموںکی، قائم بہوجن تحریک اور قیادت سے متعلق بہوجن سماج میں عدم اعتماد پیدا کرنے کی سازش تو نہیں۔ تشدد اور جارحیت کے ذریعے بہوجن سماج میں کہیں وہ کنفیوزن تو نہیں پیدا کرنا چاہتے؟ کیا انفرادیت۔پسند تحریک سے تہذیبوں کی جدو جہد کو لڑا جا سکتا ہے؟ نظریہ، تنظیم، قیادت، مسلسل جدو جہد، جدو جہد کے پروگرام، اقتصادی مدد، اقتدار کے بعد اس کا استعمال کیسے کیا جائےگا وغیرہ کچھ عنصر ہیں جن سے لمبی تحریک چلائی جا سکتی ہے، جو پائیدار ہوگی۔ تشدد اور جارحیت ہیجان خیز ضرور کرتی ہے پر یہ بہوجن تحریک کو کامیاب نہیں بناتی۔ ‘
میوانی ابھی سیاست کی پہلی سیڑھی پر کھڑے ہیں۔ ان کے مستقبل کی سیاست کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنا جلدبازی ہوگی۔ اناتحریک کے بعد ابھری عام آدمی پارٹی کی مثال ابھی تازہ ہے۔فی الحال نیو انڈیا، کلین انڈیا، میک ان انڈیا، اسکل انڈیا، اسمارٹ سٹی جیسے نعروں کے درمیان اگر اقتدار ی ادارہ جگنیش میوانی سے پریشان نظر آتا ہے تو اس پر نظر بنائے رکھنا ضروری ہے۔
Categories: فکر و نظر