فکر و نظر

’جیل کی دیواریں چاہے جتنی اونچی ہوں ،ہمیں تو لالو جی سے محبت ہے‘

چارا گھوٹالہ میں کئی بار جیل جانے والے لالو جیسےقدآور کا یہ طلسم ہی ہے کہ ایک بڑی جماعت ان کو زمینی لیڈرماننے سے گریز نہیں کرتی۔  تبھی جیل میں ان سے ملنے والوں کا تانتا لگا ہے۔ 

Photo: PTI

Photo: PTI

بہار میں گھوریٹانڑ گیا کے رہنے والے مرشد خان کو رانچی جیل میں بند لالو پرساد یادو سے سیدھی ملاقات نہیں ہونے کا غم ہے، پر تھوڑی تسلی ہے کہ سی بی آئی کورٹ کےاحاطے میں بھاری بھیڑ کے درمیان اپنے رہنما کی ایک جھلک پانے میں وہ کامیاب رہے ہیں۔  مرشد مایوسی کے لہجے میں کہتے ہیں، کتنے پہرے بٹھاؤ‌گے، جیل کی دیواریں چاہے جتنی اونچی ہو، ہمیں تو لالو جی سے  محبت ہے۔

مرشد خان، گزشتہ دنوں گیا کا مشہور تلکُٹ لےکر لالو سے ملنے رانچی آئے تھے۔  لیکن ملاقات پر پابندی ہونے کی وجہ سے جیل کےگیٹ پر تعینات سپاہی کو انہوں نے تلکُٹ سونپ دیا، جس کو بعد میں لالو تک پہنچایا گیا۔چارا گھوٹالہ سے جڑے الزامات پر مرشد ماننے سے انکار کرتے رہے کہ لالو نے کوئی گناہ کیا ہے۔

البتہ ان کا زور اس بات پر تھا کہ بہار میں پچھڑے، دلت، اقلیت کو لالو نے ہی آواز دی اور ان کو ان کے حقوق کے تئیں جگایا۔مرشد اس قطار میں اکیلے نہیں۔  بہار اور جھارکھنڈ سے لالو کے حامیوں کا چوڑادہی، تلکُٹ، کئی قسم کی سبزیاں لےکر جیل آنے کا سلسلہ جاری ہے۔14 جنوری یعنی مکر سنکرانتی پر کئی حامی یہ کہتے رہے کہ وہ دن کیسے بھول جائیں کہ مکر کے دن ہزاروں لوگوں کو لالو جی خود اپنے ہاتھوں سے دہی چوڑا کھلاتے تھے۔  اب ان کی باری ہے کہ جیل میں لالو کو اس کا ملال نہیں ہونے دیں۔

Lalu-Yadav-Fodder-Scam

بہار میں چھپرہ کے سبل پور گاؤں سے بزرگ رام بابو رائے، لال بابو رائے رات بھر کا سفر کرکے  14 جنوری کی صبح رانچی پہنچے تھے، وہ بھی دہی تلکُٹ اور 52 قسم کی ترکاری لےکر۔لالو کے ان چاہنے والوں کا دعویٰ ہے کہ بہارجھارکھنڈ کے لاکھوں حامی،کارکن اپنے رہنما کا حال جاننے اور اس کی ایک جھلک پانے کو بےتاب ہیں۔

لال بابو رائے کہتے ہیں کہ اس مشکل اور سازش کا بدلہ 2019 میں بہار کے عوام لیں گے۔  لیکن کیا بی جے پیاور نتیش اتحاد کا مقابلہ آسان ہوگا، اس سوال پر وہ کہتے ہیں وقت بلوان ہوتا ہے بابو، بہار اس کو پرکھ رہا ہے۔سی بی آئی کورٹ یا جیل کا گیٹ، ہم نے کئی لوگوں سے باتیں کی۔ سب کی اپنی باتیں اور لالو کی ایک جھلک پانے کی تمنا۔  چہرے پر مایوسی کے تاثر کہ نا جانے آگے کیا ہوگا، پر حوصلہ اتنا کہ پہلے کی طرح لالو جلد ہی جیل سے نکل جائیں‌گے۔

اشارہ صاف ہےکہ سیاست میں تمام الزام اور تنقیدوں سے گھرے رہنے اور چارا گھوٹالہ میں بار بار جیل جانے کے لئے سرخیوں میں رہے لالو جیسے قدآور رہنما کا یہ طلسم ہی ہے کہ ایک بڑی جماعت ان کو عوام کا اور زمینی رہنما ماننے سے گریز نہیں کرتی۔  اور یہ بےچینی ایک طرفہ نہیں، ادھر بھی ہے۔ممکن ہے جیل کی دیواروں کے اندر سے اسی مزاج کو بھانپتے ہوئے دس جنوری کو پیشی کے دوران لالو نے سی بی آئی کورٹ میں اپنے ہمیشہ کی طرح خاص انداز میں کہا بھی تھا، ‘ ایک دقت ہے۔  جیل کے صاحب لوگ ہفتہ میں ایک ہی دن صرف تین لوگوں سے ملنے دیتے ہیں۔  جناب، جیل میں ملنے والا انتظام کرا دیجئے، آپ کا حکم جانا چاہیے۔  ‘

چارا گھوٹالہ سے جڑے ایک معاملے میں قصوروار ٹھہرائے جانے کے ساتھ گزشتہ سال 23 دسمبر سے لالو پرساد یادو رانچی واقع برسا منڈا سینٹرل جیل میں بند ہیں۔  چھ جنوری کو اس معاملے میں ان کو ساڑھے تین سال کی سزا سنائی گئی ہے۔جیل انتظامیہ نے مینول کا حوالہ دیتے ہوئے طے کر رکھا ہے کہ ہفتہ میں صرف سوموار کو لالو سے تین ہی لوگ ملاقات کر سکیں‌گے۔  لہذا بڑی تعداد میں جیل پہنچ رہے بہار-جھارکھنڈ کے کارکن-حامی مایوس ہوکر لوٹتے رہے ہیں۔

Lalu-Yadav-Fodder-Scam-2

دس جنوری (سوموار) کو سابق مرکزی وزیر سبودھکانت سہائے، بہار کے قانون سازکونسل ممبر رنوجئے سنگھ سمیت تین لوگ لالو سے ملے تھے۔تب سبودھکانت سہائے نے اس بات پر ناراضگی بھی جتائی تھی کہ لالو سے ملنے والوں کو روکا جا رہا ہے۔  یہ جیل نہیں، بی جے پی حکومت کا مینول ہے۔  اس بیچ 14 جنوری کی شام لالو کے بیٹے تیجسوی یادو بھی رانچی پہنچے تھے۔

برسا منڈاسینٹرل جیل کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر ہونے کے ناطے لالو پرساد اَپَر ڈویژن کے قیدی مانے جائیں‌گے۔  لہذا ان کے لئے بیت الخلا سے لیس الگ کمرہ مہیّا کرایا گیا ہے۔  ساتھ ہی لالو پرساد کے لئے الگ سے کھانا پکانے کے لئے ایک سزایافتہ قیدی بھی فراہم کرایا گیا ہے۔ان کے کمرے میں ٹی وی، ٹیبل اورکرسی لگے ہیں۔  ساتھ ہی ان کو پڑھنے کے لئے کتابیں اور اخبار بھی دستیاب کرائے جاتے ہیں۔  مینول کے تحت قیدی چاہے، تو الگ سے وہ رسائل  و جرائد، کتابیں منگا سکتا ہے۔ لالو نے جیل میں باغبانی کا کام چنا ہے۔  اس کام کو لےکر ان کو روزانہ 91 روپے کی ادائیگی کی جائے‌گی۔برسا منڈا سینٹرل جیل رانچی میں 3600 قیدیوں / بندی کے رکھنے کی صلاحیت ہے۔  فی الحال ان کی تعداد 2800 ہے، جو ہر دن بڑھتی اورگھٹتی ہے۔  جبکہ سزایافتہ قیدیوں کی تعداد 1470 ہے۔

ادھر لالو سمیت چارا گھوٹالہ سے جڑے دیگر قصورواروں کے جیل میں آنے کے بعد سے جیل کے صدر دروازہ سے تقریباً سو میٹر پہلے ہی ناکےبندی کی گئی ہے، جہاں سپاہی کی تعیناتی کی گئی ہے۔  حفاظت کے مدنظر آنے-جانے والے لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جاتی ہے۔لیکن لالو سے ملنے آنے والوں کے نام نوٹ کر کےجیل کے اندر ان کو واقف بھی کرایا جاتا ہے۔

اس بیچ 23 دسمبر کو لالو کے جیل جانے سے کچھ گھنٹے پہلے ہی راجد کے دو حامیوں کے ذریعے رانچی کے سول کورٹ میں سرینڈر کر جیل جانے کا معاملہ بھی سرخیوں میں رہا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ وہ لوگ لالو کی خدمت کرنے کے لئے خود پر فرضی مقدمہ کراکر جیل چلے گئے تھے۔  ان کی منشا جیل میں لالو کی خدمت کرنے کی رہی ہوگی۔

Lalu-Yadav-Fodder-Scam-3

اب تفتیش کے بعد ان کو جیل سے باہر کیا جا چکا ہے۔  حالانکہ جیل انتظامیہ نے اس سے انکار کیا ہے کہ زیر سماعت بندی کے طور پر وہ دونوں لالو سے مل سکے ہیں۔لالو کے بےحد قریبی اور ایم ایل اے بھولا یادو کہتے ہیں کہ جیل مینول کے نام پر یہ ظلم ہے۔  ایک عوامی لیڈرکو ان کے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں سے دور کیا جا رہا ہے۔بھولا یادو کے سوال و جواب بھی ہیں۔  آخر حفاظت کے نام پر اتنی سختی کیوں۔  صرف اس لئے کہ لالو اکیلے رہنما ہیں جنہوں نے فرقہ وارانہ طاقتوں سے ہاتھ نہیں ملایا۔  وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ لالو کو ان گھوٹالہ میں سازشن کے تحت پھنسایا گیا۔  اور اب جیل میں بھی پریشان کیا جا رہا ہے، لیکن ایک دن آئے‌گا، جب ان لوگوں کو انصاف ملے‌گا۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں ان ہی حالاتکی وجہ سے جیل گیٹ پر راجد کے سینئر رہنما رگھوونشپرساد سنگھ کافی غصے میں آ گئے تھے۔لالو اور راجد کے سامنے ان حالات پر پارٹی کے زیادہ تر رہنما بی جے پی پر طنز بھی کستے رہے ہیں۔ادھر جھارکھنڈ میں بی جے پی کےریاستی ترجمان دین دیال ورنوال آر جے ڈی اور حزب مخالف جماعتوں کے الزامات کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چارا گھوٹالہ کے معاملوں پر غور کریں، تو بالکل منظم اور سازش کے تحت اس کو انجام دیا گیا۔  گھوٹالہ کے دوران خود لالو جی بہار کے وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ رہے۔  حقیقت یہ ہے کہ اب لالو جی اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔

حال ہی میں بہار کے راگھوپور کے کھپورا گاؤں سے راج کمار یادو اور رالیش رمن چوبے لالو سے ملنے رانچی جیل پہنچے تھے۔  ساتھ میں انہوں نے سرسوں، بتھوا، پالک، چنا کا ساگ، کدو، مولی اور دہی بھی تھا۔راج کمار اور راکیش کی طرح بہت  سےلوگ ہیں، جو لالو کی پسند کے سامان لےکر جیل پہنچتے رہے ہیں۔  ان سامانوں میں چوڑا-بھوجا، پھل-پھول، اونی کپڑے سے لےکر لونگ-الائچی تک شامل ہوتے ہیں۔  تب گیٹ پر ہی ان سامانوں کو تفتیش کرکے لے لیا جاتا ہے۔  پہنچانے والے آدمی کو نام و پتا کے ساتھ اس کو لالو تک پہنچایا جاتا ہے۔راگھوپور سے ابھی لالو کے بیٹے تیجسوی یادو ایم ایل اے ہیں۔  جبکہ رابڑی دیوی اور لالو بھی راگھوپور کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

Lalu-Yadav-Fodder-Scam-4

بوری-برتن میں ساگ-ترکاری دہی لےکر آنے کے سوال پر راج کمار یادو کہتے ہیں، ‘ اپنے عوامی لیڈر کو تازہ ساگ-سبزیاں بےحد پسند ہے۔  لالو کو وہ اپنے گارجین اور والد کی طرح  مانتے ہیں۔  بہار میں وہ اکیلا شخص ہے، جس نے پچھڑا، دلت، غریب، اقلیت کی لڑائی لڑی ہے۔  ‘لیکن لالو پر چارا گھوٹالہ کے کئی معاملے درج ہیں اور اب تو ان کی فیملی کے ممبروں پر بھی جائیداد کے معاملوں میں تفتیش چل رہی ہے۔اس بات پر راج کمار زور دےکر کہتے ہیں، ‘ ای کونو سے چھپا ہے کہ بی جے پی نے لالو جی اور ان کی فیملی کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔ تبھی تو لالو جی کا خط پورے بہار میں جم کر پڑھا جا رہا ہے۔  یہ لالو کی جرأت ہے کہ ناموافق حالات میں وہ گھبراتے نہیں۔  ‘

گیا کے بیریندر گوپ بھی ان باتوں پر حامی بھرتے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ سزا سنائے جانے کے بعد بہار کے لوگوں کے نام لالو جی کا جو خط آیا، اس نے لاکھوں لوگوں کو طاقت دی ہے۔  سچ یہ ہے کہ ‘ لہو بن‌کر رگ-رگ میں بسے ہیں لالو جی، لہو کو ہم جسم سے الگ کیسے کریں ‘۔غور طلب ہے کہ لالو کے خط کے مضمون میں اس کا ذکر تھا، ‘ سازش اور سازشوں کا کھیل کھیلا جاتا ہے، جس سے سماجی انصاف کی دھارا کمزور ہو اور اس دھارا کی قیادت کرنے والوں کا منھ چپ کرا دیا جائے، لیکن لالو فاشسٹ طاقتوں سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔  جس آدمی کے پاس کروڑوں لوگوں کی فیملی ہو اس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں ڈرا سکتی۔  ‘

جھارکھنڈ میں آر جے ڈی کی ریاستی صدر اور سابق وزیر انّپورنا دیوی کہتی ہیں، ‘ یہی تو فرق ہے۔  غور کیجئے 500 میل دور سے کوئی کارکن امرود، تو کوئی ساگ لےکر آ رہا ہے۔  دراصل لالو جی نظریہ بن‌کر سامنے ہیں۔  وہ لوگ تمام قسم کی مشکلوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور آگے بھی کریں‌گے۔  ‘ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ لالو نے کبھی بی جے پی کے سامنے جھکنا-ڈگنا پسند نہیں کیا۔

غور طلب ہے کہ چار سال پہلے 2013 میں تین اکتوبر کو چائی باسا سے جڑے چارا گھوٹالہ کے ایک معاملے آر سی 20 اے 96 میں بھی رانچی واقع سی بی آئی کی ایک عدالت نے لالو کو پانچ سال کی سزا سنائی تھی۔  اس فیصلے کے بعد لالو پارلیامنٹ کی رکنیت گنوا بیٹھے اور انتخاب لڑنے سے بھی نااہل ہو گئے۔سال 2013 میں جھارکھنڈ میں لالو پرساد کی پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی حکومت میں شامل تھی۔  تب لوگ جیل میں لالو سے آسانی سے مل لیتے تھے۔  ابھی جھارکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

ادھر چارا گھوٹالہ کے اور تین معاملوں میں لالو پرساد رانچی واقع سی بی آئی کی الگ الگ عدالتوں میں سماعت کا سامنا (ٹرائل فیس) کر رہے ہیں۔  ان معاملوں میں بھی الزام تقریباً ایک جیسے ہیں۔  البتہ چائی باسا خزانے سے جڑے معاملے آر سی 68 اے / 96 میں 24 جنوری کو فیصلہ سنایا جانا ہے۔

Lalu-Yadav-Fodder-Scam-5

لہذا لالو کے چہرے پر فکر کی لکیریں صاف دیکھی جاتی رہی ہیں۔  عمر کا تقاضا بھی ان کے سامنے ہے۔  تاریخ در تاریخ کورٹ میں حاضری لگانے کے دوران وہ خود کو سنبھالنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔جان کار بتاتے ہیں کہ مقدمے کس موڑ پر ہیں اور کیا حالتیں بننے والی ہیں، اس کو بھی سیاسی ہوا کا رخ بھانپنے کی طرح وہ تاڑ لیتے ہیں۔لالو کی فکر اور بھی ہیں کیونکہ ان کی فیملی کے ممبروں کے خلاف بےنامی جائیداد کے معاملوں میں بھی کارروائی تیز ہے۔ویسے بھی بہار میں نتیش کمار کی بی جے پی سے مل‌کر حکومت بنانے کے بعد آر جے ڈی اس وار کو سیاسی فائدے والا بنانے کے لئے نئے قسم کےچیلنج کا مقابلہ کر رہا ہے۔

ان سب کے درمیان عبدالباری صدیقی، بھولا یادو، رگھونش پرساد سنگھ، شیوانند تیواری جیسے رہنما ان باتوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ لالو پر حالیہ مشکلات سے پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے‌گا۔  سبھی لوگ پہلے کی طرح مضبوطی سے ان حالات کا مقابلہ کریں‌گے۔  فی الحال پارٹی میں ایک نعرہ بھی چل نکلا ہے، ‘ دل سے کہو، ہر کارکن لالو ہے۔  ‘

جبکہ سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار گیان وردّھن مشر کہتے ہیں، ‘ ظاہر ہے ابھی آر جے ڈی میں لالو کو بچانے اور تیجسوی کو آگے بڑھانے کی کوششوں کے درمیان موجودہ حالات کو رہنما  کار باریکی سے بھانپ رہے ہیں۔  لیکن بہار کی سیاست اسی بہانے کروٹ لے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔  کیونکہ آر جے ڈی کے کئی رہنما ویٹ اینڈ واچ کی حالت میں ہیں۔  ‘

مشرا یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر لالو کو جیل سے نکلنے میں لمبا وقت لگا، تو ان کی پارٹی اور حزب مخالف خیمے کو ایک بڑے اور جارحانہ رہنما کی غیر موجودگی ضرور کھلے‌گی۔  بی جے پی اس کا فائدہ اٹھانا چاہے‌گی۔  تب ان حالات میں عبدالباری صدیقی، رگھونش پرساد سنگھ، شیوانند تواری جیسے رہنما تیجسوی کی قیادت کو لےکر کتنا اطمینان محسوس کریں‌گے، اور ساتھ دیں‌گے اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔