پیدائشی پہچان کے ذریعے ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کو تعلیم سے ہی ڈر لگنے لگے۔ مگر کچھ لوگ سب جھیلتے ہوئے باہر نکل ہی آتے ہیں اور اب ایسے لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہوتی جا رہی ہے۔وہ باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی اس صلاح پر عمل کرنے لگے ہیں-
’…کسی شخص کی قیمت محض اس کی پیدائشی پہچان میں سمیٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اس کی قیمت محض اس کے ذریعے لئے جانے والے فائدے تک سمٹ گئی ہے۔ وہ صرف ایک ووٹ بن کر رہ گیا ہے۔ اس کو صرف اعداد و شمار بنا دیا گیا ہے۔ کبھی کسی شخص کی حیثیت اس کی ذہنی استعداد سے نہیں آنکی گئی… کچھ لوگوں کے لئے ان کی زندگی ہی لعنت اور بددعا ہے۔ میری پیدائش، میرا جان لیوا حادثہ ہے۔ ‘
روہت ویمولاکی موت کے بعد ایک اور سال گزر گیا۔ روہت کو موت کی طرف ڈھکیلنے کے ذمّےدار لوگوں پر ان دو سالوں میں آنچ تک نہیں آئی۔ بلکہ کچھ الٹا ہی ہوا۔ موت کے بعد بھی اس کو اپنی ‘ پیدائشی پہچان ‘ سے جوجھنا پڑا۔ روہت جس ‘ پہچان ‘ کے ساتھ اور جس کی وجہ سے سماج کے ساتھ جدّو جہد کرتا رہا، موت کے بعد وہ ‘ پہچان ‘ بھی اس سے چھیننےکی پرزور کوشش کی گئی۔
سب سے اوپر کی سات سطریں روہت کی لکھی آخری چند سطروں کا حصہ ہیں۔ وہ جس پہچان کی بات کر رہا ہے، وہ خاص قسم کی ہے۔ نہ… وہ اسٹوڈنٹ، ریسرچ اسکالر، عالم، مضمون نگار، سائنس داں، کھلاڑی… جیسی پہچان تو قطعی نہیں ہے۔
وہ اکیلی ‘ پہچان ‘ ہی، ہمارے سماج کی کئی پہچان پر بھاری ہے۔ اس کا کمال زبردست ہے۔ کسی شخص کے جنم لیتے ہی یہ پہچان-گاؤں، ٹولہ، محلّہ، شہر، اسکول، کالج، ناطے داری، قدرتی ، سماجی ، ثقافتی ، اقتصادی وسائل سب کے ساتھ رشتہ طے کر دیتی ہے۔ یہ ذات کی سماجی پہچان ہے۔ ہاں، یہ پہچان کچھ گروہ کو بہت طاقت دیتی اور ان کے فائدے کی ہے۔ وہ اس کے ساتھ بخوبی جیتے ہیں۔ اس کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اس لئے وہ اس پہچان سے پریشان نہیں ہوتے ہیں۔
مگر یہ پہچان، بڑے سماجی گروہ کے لئے زندگی کے ہر معاملے میں اچھوت پن، غیربرابری، جانبداری، نفرت، تشدد، استحصال اور نقصان کی وجہ ہے۔روہت اسی دوسرے والے بڑے سماجی گروہ سے واسطہ رکھتا تھا۔ ان کو ہم آج دلت کے نام سے پہچانتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کو لگتا ہے کہ آزادی کے ستّر سال بعد اچھوت پن، غیربرابری یا جانبداری کی باتیں اب کوری گپ ہیں! ہے نہ؟…کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر کی زندگی فائدے والے گروہ سے وابستہ رہی ہے۔ اس فائدے والے گروہ میں ہم کتنا بھی محروم کیوں نہ ہوں، اچھوت پن اور جانبداری ہماری روزمرہ کی زندگی کا ویسا حصہ نہیں ہے، جیسا یہ دلتوں کی زندگی سے چسپاں ہے۔ یہ وہ چیز ہے، جو انسان کو، انسان ماننے سے انکار کرتی ہے۔
دلت، ہندوستان میں رہنے والی ہر کمیونٹی کا سچ ہیں۔ کہیں یہ بہت گہرا اور اجاگر ہے تو کہیں یہ ڈھکاچھپا ہے۔ مگر ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔قریب سوا سو سال پہلے رتناگری کے اسکول میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی سے اچھوت پن چپکا تھا۔ جب وہ لندن اسکول آف اکونومکس سے پڑھکر آئے تب بھی ویسا ہی اچھوت پن، ان کو ہرجگہ گھیرے تھا۔ اس کو اپنے ساتھ چپکا کر رکھنا، امبیڈکر کی خواہش نہیں تھی۔ اس کو تو ہٹانے سے بھی ہٹنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ اسی لئے امبیڈکر کا ماننا تھا کہ ‘ ذاتوں کی تباہی کے بغیر، اچھوتوں کی آزادی نہیں ہو سکتی ہے۔ ‘
…قاعدے سے تو آزادی ملنے اور آئین بننے کے ساتھ اس کو ختم ہو جانا چاہیےتھا۔ مگر بابا صاحب امبیڈکر کو پتا تھا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ یاد کریں، 25 نومبر 1949 کو آئینی مسودہ کمیٹی کے صدر کی شکل میں انہوں نے کیا کہا تھا۔ امبیڈکر نے کہا تھا-‘ 26 جنوری 1950 کو ہم تضاد سے بھری زندگی کے اس دور میں داخل ہورہے ہیں، جہاں سیاسی نظر سے ہم سب یکساں ہوںگے، لیکن سماجی اور اقتصادی معاملوں میں غیر برابری جھیلتے رہیںگے۔ سماجی اور اقتصادی معاملوں میں ہم کتنے دنوں تک لوگوں کو برابری کے حق سے محروم رکھیںگے۔ زیادہ دنوں تک غیر برابری کو برقرار رکھنے کا مطلب جمہوریت کو خطرے میں ڈالنا ہوگا۔ ‘
مگر نہ ذات کا خاتمہ ہوا اور نہ اچھوت پن کا… اور ہمارے وقت میں روہت جیسوں لاکھوں کی زندگی سے بھی جڑا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک سروے نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے موجودہ ہندوستانی سماج میں ذات کو لے کر امتیازی سلوک اور تعصب کتنا مضبوط ہے۔ اس اچھوت پن کو جہاں ٹوٹ جانا چاہیے تھا، وہاں وہ توڑنے کی خواہش کرنے والوں کو توڑنے میں جٹ جاتی ہے۔ بلکہ شدّت کے ساتھ وہ ان کو بار بار یاد دلاتی ہے کہ وہ اس کے ‘ لائق ‘ نہیں ہیں۔ وہ الگ ہیں اور سماج کی سیڑھی پر سب سے نیچے ہیں۔ اسکول ، کالج ،یونیورسٹی وہ جگہ ہیں، جہاں سماجی غیربرابریوں کو ختم ہو جانا چاہیے۔ مگر ایسا کہاں ہوا؟
آنگن باڑی مرکز ہوں یا شروعاتی اسکول… آج بھی چھوٹ پن سے ہی دلت بچوں کو اس اچھوت پن سے گزرنا پڑتا ہے۔زیادہ تر دلت بچوں کو ‘ پیدائشی پہچان ‘ سے جڑے کڑوے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر ہمیں یقین نہ آ رہا ہو اور ہم خود دیکھنا / سمجھنا چاہتے ہیں تو کسی بھی ملی جلی بستی یا دلت ٹولہ میں چلنے والے اسکولوں میں اس پہچانکے اثر کو آسانی سے دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
اس پہچان کے ذریعے ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کو تعلیم سے ہی ڈر لگنے لگے۔ مگر کچھ لوگ سب جھیلتے ہوئے باہر نکل ہی آتے ہیں اور اب ایسے لوگوں کی تعداد اچّھی خاصی ہوتی جا رہی ہے۔وہ باباصاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی اس صلاح پر عمل کرنے لگے ہیں-‘ آپ سب کے لئے میری آخری صلاح ہے-پڑھیں، جدو جہد کریں، منظم ہوں۔ خود پر یقین کریں۔ انصاف ہمارے ساتھ ہے۔ مجھے پکّا بھروسا ہے، جیت ہماری ہوگی۔ ‘
ایسے ہی ماحول میں بڑھے اور پڑھے لڑکےاور لڑکیاں بڑی تعداد میں اب ملک کے بڑےنامی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ نئی نسل چپ چاپ سب برداشت کرنے کو راضی نہیں ہے۔ وہ سب کچھ ‘ تقدیر بھروسے ‘ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اب تک جو انھیں بتایا / سمجھایا گیا، وہ اس کو آسانی سے ماننے کو بھی راضی نہیں۔ وہ ‘ آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کے جذبہ پر مبنی ‘ امبیڈکر کا ‘ آدرش سماج ‘ بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔
روہت ویمولا اور ان کے دوستوں کا بھی خواب ایسا ہی ہے۔ وہ امبیڈکر کے خوابوں کا سماج بنانے کے لئے محض اپنی پیدائشی پہچان تک سمٹے رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ مگر یہ اتنا آسان ہوتا تو کیا بات تھی۔ جیسا کہ امبیڈکر بہت صاف صاف کہتے ہیں-چھوت چھات کا مسئلہ طبقاتی جدو جہد کا معاملہ ہے۔ یہ یک ذاتی ہندوؤں اور اچھوتوں کے درمیان کا جدو جہد ہے۔ یہ کسی ایک شخص کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک طبقے کے دوسرے طبقہ کے ساتھ کی جانے والی ناانصافی ہے۔ جیسے ہی کوئی برابری کا دعویٰ کرتا ہے، یہ جدو جہد اسی وقت شروع ہو جاتا ہے۔ ‘
روہت جیسوں کو آج اس جدو جہد سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اس لئے امبیڈکر کی صلاح پر چلتے ہوئے وہ جدو جہد کر رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔ منظم ہو رہے ہیں۔ منظم ہو کر جدو جہد کر رہے ہیں۔ ایسے ہی جدو جہد کا عکس ہمیں آئی آئی ٹی-مدراس ، فلم اینڈ ٹیلی ویژن ادارہ (ایف ٹی آئی آئی)-پونے، جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، دلّی یونیورسٹی (ڈی یو)، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی جیسے کیمپس میں یا گجرات، ممبئی، سہارن پور، مظفرنگر، سیتاپور، ارریا کی سڑکوں پر دکھائی دیتا ہے۔
ویسے روہت یا ان جیسے اپنی ‘ پیدائشی پہچان ‘ سے الگ کیا چاہ رہے / رہی ہیں…وہ بطور ہندوستانی شہری اپنی برابری کی پہچان کی مانگکر رہی / رہے ہیں۔ وہ اپنے انسان ہونے کا، انسانی حق مانگ رہی / رہے ہیں۔ انسان جیسے سلوک کے لئے مضبوطی سے کھڑی ہو رہی / رہے ہیں۔ انسانی وقعت کا دعویٰ کر رہی / رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ دنیا، ان کو ان کی محنت، ان کا فن ، دماغی طاقت، سوچنےسمجھنے کی صلاحیت اور سائنسی تصور کی اڑان سے پہچانیں نہ کہ ان کی ‘ پیدائشی پہچان ‘ سے۔
اب اس چاہ کو کچھ لوگ غداروطن، طبقاتی زہر، سازش کہنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ وہ ایسی چاہ رکھنے والے سبھی پر حملہ آور ہیں۔کیا ایسی چاہ رکھنے والے روہت ویمولا ہوں یا ڈونتھا پرشانت ہوں یا پھر چندرشیکھر ہوں یا پھر رادھکا ویمولایا گریس بانو…غداروطن ہو گئیں / گئے۔ تب تو ان کو منظم ہو کر جدو جہد کی صلاح دینے والے امبیڈکر کے بارے میں بھی طے کرنا ہوگا نہ؟ کیوں؟
(یہ مضمون پہلی بار 17 جنوری 2018 کو شائع کیا گیا تھا)
Categories: فکر و نظر