نوجوانوں کو ہندو مسلم ٹاپک کی گولی دے دو، وہ اپنی جوانی بنا کسی کہانی کے کاٹ دےگا۔
ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت پانچ سال سے خالی پڑے عہدے ختم کرنے جا رہی ہیں۔ یہ صاف نہیں ہے کہ لگاتار پانچ سال سے خالی پڑے عہدوں کی تعداد کتنی ہے۔اول تو ان پر بھرتی ہونی چاہیے تھی مگر جب نوجوان ہندو مسلم ڈبیٹ میں حصہ لے ہی رہے ہیں تو پھر فکر کی کیا بات۔ یہ خوداعتمادی ہی ہے کہ جس وقت روزگار بحث کا مدعا بنا ہوا ہے اس وقت یہ خبر آئی ہے۔
وزارت خزانہ نے 16 جنوری کو الگ الگ وزارتوں اور محکمہ جات کو ایسی ہدایت بھیج دئے ہیں۔ محکمہ کے سربراہوں سے کہا گیا ہے کہ ایسے عہدوں کی پہچان کریں اور جلد سے جلد رپورٹ دیں۔اس خبر میں نوکری کی تیاری کر رہے نوجوانوں کا دل دھڑکا دیا ہے۔ اب یہ نوجوان کیا کریںگے، کوئی ان کی کیوں نہیں سنتا، ان نوجوانوں نے آخر کیا غلطی کر دی؟ بہت سے امتحان ہو چکے ہیں مگر جوائننگ نہیں ہو رہی ہے۔
30 جنوری کو یوپی میں تین تین بھرتیاں منسوخ ہو گئیں۔ لڑکے اداس ناامید ہیں۔ رو رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ جس 16 جنوری کو وزارت خزانہ نے تمام محکمہ جات کو ہدایت دئے کہ پانچ سال سے خالی پڑے عہدوں کو ختم کر دیا جائے، اسی 16 جنوری کو ایک اور خبر چھپی تھی۔
یہ خبر بھی وزارت خزانہ کی رپورٹ کی بنیاد پر تھی کہ 1 مارچ 2016 تک چار لاکھ سے زیادہ عہدہ خالی پڑے تھے۔ یہ سارے عہدے مرکزی حکومت کے محکمہ جات سے متعلق ہیں۔16 جنوری کے اکانومک ٹائمس میں رپورٹ چھپی ہے کہ 1 مارچ 2016 تک گروپ اے کے 15284 عہدے خالی تھے۔ گروپ بی کے 49740 عہدے خالی پڑے تھے۔ گروپ سیکے 321418 عہدے خالی تھے۔ گروپ سیکے ان عہدوں کے لئے لاکھوں کی تعداد میں میرے نوجوان دوست آس لگائے بیٹھے ہیں۔
آج اتنے بڑے ملک میں ان نوجوانوں کے لئے بات کرنے والا ایک لیڈر نہیں ہے۔ نوکریاں کم ہو رہی ہیں۔ نوجوان دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ مجھے کرانتی کا گانا یاد آ رہا ہے۔ وہ جوانی جوانی نہیں جس کی کوئی کہانی نہ ہو۔ہندو مسلم ٹاپک نے نوجوانوں کو ذہنی غلام بنا لیا ہے۔ نوکریاں نہ دینے کا یہ سب سے اچھا وقت ہے۔ نوجوانوں کو ہندو مسلم ٹاپک کی گولی دے دو، وہ اپنی جوانی بنا کسی کہانی کے کاٹ دےگا۔
گزشتہ سال نومبر میں کھادی گرام ادیوگ کمیشن نے 300 سے زیادہ کی بھرتی نکالی۔ فارم کے لئے 1200 روپے لئے اور فیس لینے کے کچھ دن کے اندر ہی بھرتی کا عمل عارضی طورپر ملتوی کر دا۔ ڈھائی مہینے ہو گئے، اس کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ سوچیے کھادی گرام ادیوگ فارم بھرنے کے 1200 روپے لے رہا ہے۔ سوچیے کہ یہ لوگوں کو سوال نہیں لگتا ہے۔
2016-17 میں وزیر اعظم روزگار فروغ اسکیم لانچ ہوئی تھی۔ ایک سال میں ہی اس کا بجٹ آدھا کئے جانے کے اشارے ہیں۔ ایسا بزنس اسٹینڈرڈ کے رپورٹر سومیش جھا نے لکھا ہے۔اس اسکیم کے تحت اگر کوئی کمپنی اپنے ملازم کو EPFO، EPS میں نامزد کراتی ہے تو حکومت تین سال تک کمپنی کا 8.33 فیصد حصہ خود بھرےگی۔
اس سے مستفید ملازم وہی ہوںگے جن کی تنخواہ 15000 روپے فی مہینے تک ہی ہوگی۔ حکومت نے اس اسکیم کے لئے 1000 کروڑ کا اہتمام کیا تھا۔ اخبار لکھتا ہے کہ دسمبر 2017 تک EPFO کو محض 2 ارب روپے ہی ملے تھے۔ اس نے مزدور وزارت کو خط لکھکر 500 کروڑ کی مانگ کی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنیوں نے نامزد تو کرا دیا ہے مگر کمپنیوں کو حصہ نہیں مل رہا ہے۔ 2017-18 کے لئے 700 کروڑ کی ہی ضرورت پڑی ہے۔اس کا ایک اور مطلب ہے کہ EPFO کے رکارڈ پر کم ہی ملازم جڑے ہیں۔ بزنس اسٹینڈرڈ لکھتا ہے کہ جولائی 2017 تک 9000 کمپنیوں کے 3 61024 لاکھ ملازمین نے EPFO کا فائدہ لیا۔
اس کے بعد اگست سے دسمبر 2017 کے درمیان 28661 کمپنیوں کے 18 لاکھ ملازمین نے اس اسکیم کا فائدہ لیا۔ اس طرح کل تعداد تقریباً 22 لاکھ کے قریب بیٹھتی ہے۔ ہر مہینے 3 لاکھ 66 ہزار نئے ملازم EPFO سے جڑتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ روزگار کا اعداد و شمار دکھاتا ہے۔ مگر کئی بار کمپنیاں حکومت کی اسکیم کا فائدہ لینے کے لئے ان ملازمین کو اس اسکیم سے جوڑتی ہیں جو پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ اس لئے دعویٰ سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ نیا روزگار ہے۔
Categories: فکر و نظر