ادبستان

انٹرویو: یہ ایک کاہل سوچ ہوگی اگر میں باربار کہوں کہ ہندوستان پاکستان بن رہا ہے…

 یہ کہنا آسان ہے کہ  موجودہ حکومت(بی جے پی) کے آنے سے یہ ہوا لیکن کچھ تو ہو رہا ہے ،اتنے سالوں میں کچھ ایسے سوال ہیں ، اسٹیٹ نے اپنا کام نہیں کیا ، یا  گورنینس ایشوز ہیں ، کچھ تو ہے۔

Photo Credit : Sage/Yoda

Photo Credit : Sage/Yoda

انیلا زیب بابر سماجی محقق ہیں، جو اسلام،صنفی سیاست  اورپاپولر کلچر پر کام کرتی ہیں۔ ان کی نئی  کتاب‘وی آر آل  ریوولیوشنریز ہیر‘  پاکستانی تاریخ کے دو عشروں (1988-2008)  کو  پیش کرتی ہے۔ان کی یہ کتاب اس دور کے کئی پہلوؤں اور خاص طور سے پاکستانی عورتوں کے سماجی، سیاسی حالات اوربڑھتی قدامت پرستی کے اثرات کو موضوع بناتی ہے۔یہ کتاب مصنفہ  کے تجربوں کا نتیجہ ہے جو ان کو بطور پاکستانی مسلم عورت حاصل ہوئے ۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب پاکستانی معاشرےسے جڑے مسائل کا تجزیہ پیش کرتی ہے۔ جس طرح سے اس کتاب میں ایک خاص پاکستانی نسل کا سفر ہے، انیلا امید کرتی ہیں کہ آنے والی نسلیں اس  سفر کو سمجھ کر پاکستان کو موجودہ مشکلات سے باہر نکالنے کی کوشش کریں گی ۔  پیش ہے انیلا زیب بابر کے ساتھ  دی وائر کی بات چیت:

اس کتاب کو لکھنے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟

جو میرے ماحول کو نہ جانتا ہووہ یہ سوال پوچھے،لیکن بہت دفعہ میں نے یہ دیکھا ہےکہ جونئی پود ہےوہ بھی یہی سوال پوچھتی تھی تو جیسا میں نے کتاب میں بھی لکھا ہےکہ میں بہت ہی کاہل اسٹوڈنٹ تھی اور تنگ آگئی تھی لمبے لمبے ای میل لکھنے سے تو میرا جو تجربہ رہا ہے،ایک اسٹوڈنٹ کے طور پر،جو میں نے دیکھا اور جو میری آپ بیتی تھی تو میں نے  اسکو بس لکھ ڈالا۔ کتاب کا آئیڈیا یہیں سے آیا ۔

 آپ کی کتاب میں دو بہت اہم پاکستانی مسلمان عورتوں کا ذکر ہے (آپا نثار فاطمہ اور نسیم فاطمہ) لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو عوامی تذکرہ ہے مسلمان عورتوں کو لے کر اس میں وہ اکثر مظلوم اور دبی ہوئی دکھائی جاتی ہیں ،ایسا کیوں ہے؟

یہ لوگوں کی سوچ کی کاہلی ہے کیوں کہ اب تو ایسا نہیں ہے ایک وقت تھا جب دنیا کی اور آوازوں سے  آپ کا انٹروڈکشن نہیں تھا گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کی وجہ سے مسلمان عورتوں کی آوازیں سامنے آئی ہیں۔ یہ بہت آسان ہے ابھی  اور آوازیں آئیں گی ۔ تو یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ بولتے ہیں کہ فیس بک پر یا ٹوئٹر پر ایسی آوازیں سننے کو ملتی  جیسے بولتے ہیں کہ فیس بک کا Algorithm ایسا ہے کہ آپکی جو سوچ ہے آپ کو ویسے ہی لوگ ملیں گے۔ تو اگر آپ کی سوچ ہی ہے  کہ مسلمان عورتیں ایسی ہیں تو ٹھیک ہے۔ تو پھر یہ ہمارا قصور نہیں ہے ،وہ تو لوگوں کا ہے کہ ان کو دیکھنا ہو گا کیونکہ بہت ساری ریڈنگ ہیں مسلمان عورتوں کی ڈائیورس آوازیں کیونکہ مسلمانوں کو بھی یہ موقع ملا ہے کہ وہ اوروں کو دیکھیں۔ جب (پاکستانی)مسلمان باہر جاتے تھے تووہ ساؤتھ ایشئین مسلمانوں کو دیکھتے تھے اور وہ یہ دیکھتے تھے کہ وہ ہماری طرح مڈل کلاس لوگ ہیں ایک الگ طریقے سے اسلام پریکٹس کرتے ہیں ، جب ہماری آنکھیں کھل رہی ہیں تو لوگوں کو بھی تھوڑا سا اپنے ماحول سے نکل کر   دیکھنا چاہئے ۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ مسلمان عورتوں کی یہ کوئی کاہلی ہے یہ لوگوں کی کاہلی ہے۔ اور صرف ان آوازوں کے لیے یہ accepting نہیں ہے جیسے تسلیمہ نسرین اور… ۔ ان کی آوازیں آپ تک پہنچ جاتی ہیں  جو اسلام کی تنقید کرتی ہیں  پر آپکو پھر اور آوازیں جو اسلام کے اندر  بہت ڈائیورس  فیمینسٹ ریڈنگ  دے رہی ہیں  اور سب سے بڑی ملالہ آپ کے پاس ہیں  نوجوان ہیں ، خوبصورت  ورلڈ ویو ہے اور ایک  گڈمسلم  بھی ہیں  تو ایسا نہیں ہے کہ ایسی مسلمان عورتوں کی مثالیں موجود نہیں ہیں۔

جس طرح سے آپ اپنی کتاب میں یہ بھی دکھاتی ہیں کہ عورتیں اپنی آزادی کے خلاف بھی جاتی ہیں۔تحریک  نسواں میں ہم اکثر اجنس کی بات کرتے ہیں تو آپ مذہبی انتہا پسندی اور ایک عورت کی ایجنسی کو کس طرح دیکھتی ہیں؟

عورت ،عورتوں کی دشمن اس لئے ہو گئی ہے کیونکہ میں ہمیشہ بولتی ہوں جو آپ کے گھر میں کام کرنے والی ہوتی ہے ان کے حقوق کے لیے لڑنا جھگڑنا مطلب میں ہندوستان میں بھی بولوں گی کہ جو غریب مظلوم عورت ہو یا مسلمان عورتیں ہوں ان کے لیے آواز اٹھانا آسان ہوتا ہے لیکن جب ہمارے گھر میں کسی کا حق مارا جاتا ہے اپنوں میں سے اپنے طبقے میں سے اس وقت آواز اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم لوگ جب sexual violence  کی بات کرتے ہیں تو اوروں کے لیے لڑنا آسان ہوتا ہے لیکن جب یہ آپ کے خاندان میں ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں چپ ہوجائیےاور یہ بات دبا لو یہ اس لئے ہوتا ہےکہ فیملی اور کلاس کو انکاؤنٹر کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ آپ کو privilege مل رہا ہے۔

AneenlaBabar_BookCover

اس کتاب کی تحقیق کے دوران آپ نے مدرسوں اور الہدیٰ جیسے مذہبی اداروں میں جاکر تفتیش کی۔ کیا کسی وقت ایسا موقع آیا کہ آپ نے اپنے سیاسی اور مذہبی نظریے میں کوئی تبدیلی محسوس کی ہو؟

میری سوچ میں بدلاو نہیں آیا لیکن میں یہ کہوں گی  کہ میرے پاس موقع تھا کہ جو سوال تھے گورنینس کو لے کر، پولیٹکس کو لے کر اور دنیا کو لے کر میں اپنے طریقے سے  ان کے جواب دینا چاہتی تھی ،دوسری عورتیں جو الگ سیاسی نظریہ رکھتی ہیں وہ بھی اس سوال پر شور وغل کرتی ہیں۔ہمارے راستے الگ ہیں، ہماری پسند الگ ہیں ،لیکن ہمارے مسائل ایک سے ہیں اور یہ مجھے بار بار دکھ رہا تھا- ضرورت اس بات کی تھی کہ اپنے سے مختلف رائے رکھنے والوں کی جدوجہد کو پہچانا جائے اور اس کے انکار  سےبچا جائے -اور اس کتاب کی وجہ سے  میں خوش ہوں کہ لوگوں نے کہا میری آواز متعصب  نہیں ہے۔اور میری آوازمیں جانبداری نہیں ہے ،اس لیے نہیں ہے کیونکہ میں جن لوگوں سے ملی یہ انہوں نے مجھے دیا۔ میرے لئے تبدیلی  اس لیے نہیں تھی  کیونکہ میں کافی کمفرٹیبل تھی اور مجھے میرے جواب مل گئے تھے اور میں یہ جواب ڈھونڈ نہیں رہی ہوں شاید اس لیے بدلاؤ نہیں آیا کیونکہ میں ایسے موڑ پر ہوں اپنی پہچان  کو لے کر، مذہب کو لے کر جو سوال تھے ان کے جواب ہیں۔ میں اپنے جواب بدلونگی نہیں۔شاید اگر میں 20 سال کی ہوتی شاید تب ،لیکن میں یہ نہیں کہوں گی کہ میرےاندر لچک نہیں ہے۔ میرے خیال میں میں جو اپنے لیے کہہ سکتی ہوں جو بدلاؤ آیا تھا وہ یہی ہے کہ شاید میں نے ایک مثال دی ہے کہ جب ایک خاتون حجاب پہننے کا  کہہ رہی تھی کہ میں محفوظ فیل کرتی ہوں، تو میں سوچتی تھی کیسے کیونکہ اگر آپ دوپٹا بھی لو گے لوگ تو پریشان کریں گے اور زیادتی ہوگی لیکن پھر مجھے اپنے آپ کو بولنا پڑا  کہ ایسا میں سوچتی ہوں اور وہ عورت کہہ رہی ہے کہ وہ محفوظ ہے تو اس سے میرے اندر لچک آئی۔ تو مجھے ایسی کہانیوں سے جواب مل رہے تھے ۔

اس وقت ہندوستان میں مذہبی انتہا پسندی کو بڑھتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔ کیا آپ یہ کہیں گی کہ ہندوستان پاکستان کے نقش قدم پر چلتا ہوا دکھ رہا ہے؟

(ہنستے ہوئے) یہ جواب خود ہندوستان کو دینا ہوگا، میں تو باہر سے اندر دیکھ رہی ہوں لیکن جو آپ کے diagnosis  ہیں جو آپکے ڈاکٹر س ہیں وہ ہندوستان سے آئے گا۔ یہ ایک کاہل سوچ ہوگی اگر میں باربار بولوں گی کہ ہندوستان پاکستان بن رہا ہے پہلے جو لوگ مجھ سے یہ پوچھتے تھے کہ ہم پاکستان بن جائیں گے تو میں یہ بار بار کہتی تھی تو کیا ہوا اگر بن گئے۔ میں پھر یہی کہوں گی کہ یہ کہنا آسان ہے کہ ہم پاکستان بن جائیں گے۔ آپ سمجھنے کی کوشش کرو کہ ایسا کیا ہو رہا ہے کہ پاکستان کے کیا Internal crisis تھے اور ان کو ایسا کیا لگا کہ یہی ہمارا راستہ ہے اور ہندوستان میں ایسا کیا  کیا ہو رہا ہے  کہ وہ یہ راستہ اپنا رہا ہے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ  موجودہ حکومت(بی جے پی) کے آنے سے یہ ہوا لیکن کچھ تو ہو رہا ہے ،اتنے سالوں میں کچھ ایسے سوال ہیں ، اسٹیٹ نے اپنا کام نہیں کیا ، یا  گورنینس ایشوز ہیں ، کچھ تو ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بخار کی علامات تو ایک سے ہوتے ہیں لیکن بخار کو پھیلانے والے وائرس مختلف ہوتے ہیں اور اسکا علاج بھی الگ الگ ہے اور ضروری یہ ہے کہ کبھی اس سوال سے بھی نکلوں کیا ہم وہ بن جائیں گے۔آپ نیپال کا Human Development Index دیکھ کرکہتے ہیں کہ ہم اس سے بھی کم تر ہوگئے ہیں ۔ ہم بار بار اگر یہی سوچتے  رہے تو وہی  کہ یہ ہمارا  Benchmark بن جاتا ہے  جب کہ  ایک نئی قسم کی وژن ہونی چاہیے- ہندوستان کو بھی بس یہی نہیں دیکھنا ہے کہ وہ کہیں امریکہ، شنگھائی یا آسٹریلیا یا پاکستان بن گیا ہوں بلکہ میں بس یہی کہوں گی کہ اسکو اپنے اند جھانکر سوال کرنا ہوگا کہ اسے کہاں جانا ہے۔