حقیقت یہ ہے کہ افضل گورو کی پھانسی کے سلسلے میں اس لیے جلدی کی گئی تاکہ اسوقت کی حکمران کانگریس دکھا سکے کہ وہ اپنی حریف بی جے پی سے بھی زیادہ سخت گیراور ہندوتوا کی حامی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بطور ہندوستان کو اپنے عدالتی نظام پر بجا فخر ہے، جس نے کئی مواقع پرتاریخ ساز فیصلوں سے جمہوریت کی جڑوں کو مزید طاقت بخشی ہے۔ مگر جب اسی عدلیہ کے پاس مظلوم و مقہور کشمیر ی کا مقدمہ پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی نہ صرف آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے، بلکہ ذہن بھی بند کرلیتی ہے۔ فروری کا مہینہ کشمیر میں انصاف کی اسی دیوی کی سرد مہری اور اسکے ذریعے اپنے ہی آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے کی تلخ یادیں لے کر وارد ہوتا ہے۔9فروری 2013کو دہلی کی تہاڑ جیل میں محمد افضل گوروکو پھانسی دے کر کشمیریوں کو کسمپرسی کا احساس دلایا گیا۔اس سے قبل11 فروری 1984ء کو اسی جیل میں بالکل اسی طرح جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ کو بھی ابدی نیند سلایاگیا۔ دونوں کی عدالتی ٹرائل ہندوستان کی عدالتی تاریخ اور جمہورت کے ماتھے پر ایک بد نما داغ ہے۔ اسکے علاوہ ان دونوں افرادکو سزا دینے میں جس عجلت اور رازداری کا مظاہرہ کیا اورلواحقین سے آخری ملاقات کی اجازت نہ دے کران کی میتوں کو جیل میں ہی دفناکرجس طرح انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کیا گیا، اس کی مثال عہد وسطیٰ کے استعماری حکمرانوں کے ہاں بھی نہیں ملتی۔
مقبول بٹ کو پھانسی دینے سے پانچ دن قبل 6 فروری 1984کو جموں اسمبلی کمپلیکس میں ایک چھوٹے سے قد کا سانولا شخص وارد ہوا، جسے تیزی کے ساتھ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے چیمبر میں لے جایا گیا۔ جلد ہی وزیر قانون اور پولیس کے سربراہ بھی چیمبر میں آپہنچے۔کشمیر ٹائمز کے مدیر اور جید صحافی وید بھسین کسی کام کے سلسلے میں اسوقت کمپلیکس میں تھے۔ انہوں نے چیف جوڈیشل آفیسر، ٹھاکر پوتر سنگھ کو‘ جو اس وقت ایک سیشن جج تھے‘ گاڑی سے اترتے دیکھا۔ ان کو بھی وزیر اعلیٰ کے چیمبر میں پہنچایا گیا‘ جس سے ان کی حس خبر پھڑک اٹھی۔ اسی دوران ان کو معلوم ہوا کہ جموں ایئرپورٹ پر کسی وی وی آئی پی کو دہلی لے جانے کیلئے انڈین ایئرلائنز کے طیارے کو انتظار کرایا جا رہا ہے۔ آخر ایک گھنٹہ کے بعد سانولا شخص، جو ہندوستان کی وزرات داخلہ کا ایک افسر تھا، ہاتھ میں بریف کیس لئے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ بعد میں پوتر سنگھ نے وید جی کو بتایا کہ ان سے چیمبر میں زبر دستی ڈیتھ وارنٹ پر دستخط لئے گئے۔
وہ پہلے مصر تھے کہ یہ ایک عدالتی کارروائی ہے، جو وزیر اعلیٰ کے آفس کے بجائے عدالت میں یا زیادہ سے زیادہ جج کے چیمبر میں ہونی چاہئے تھی۔وید جی نے سرینگر کے بیوروچیف ظفر معراج کو ہدایت کی کہ سینئر وکلا سے مشورہ کرکے اور ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے رجوع کرکے سزائے موت کو رکوانے کا انتظام کریں۔میاں سرور سے مشورے کے بعد انہوں نے موجودہ ممبر پارلیمان اور وکیل مظفر بیگ کو آمادہ کیا کہ وہ دہلی جاکر سپریم کورٹ کا دورازہ کھٹکھٹائیں۔ کورٹ کے کاغذات دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ سرینگر سیشن کورٹ جج نیل کنٹھ گنجو نے 1968 میں انکو سزائے موت سنائی تھی۔ مگر عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی وہ جیل سے فرار ہوگئے تھے ۔ اس کے بعد پوری کارروائی انکی اور وکیل دفاع کی عدم موجودگی میں پوری ہوئی۔ مزید یہ بھی پتہ چلا کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سزائے موت کی تصدیق نہیں کی تھی۔ ہائی کورٹ کے رجسٹرار ملک شریف الدین نے اس حوالے سے باضابط کورٹ کی طرف سے مہر شدہ مستند کاپی انکے حوالے کی ۔ یہ سبھی کاغذات لیکر دہلی روانہ ہوگئے، جہاں انہوں نے معروف وکیل (موجودہ سینئر کانگریسی لیڈر) کپل سبل کے ذریعے فوری سماعت کی درخواست دائر کی۔ راجہ محمد طفیل اور ر میش چندر پاٹھک نے دراخواست تیار کروانے ، دیگر قانونی موشگافیوں کو حل کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ چیف جسٹس وائی وی چندرچوڑ کی عدالت میں سبل نے کیس کی دھجیاں اڑادیں۔
دہلی میں میری منتقلی کے بعد چونکہ رمیش چندر پاٹھک کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا وہ اکثر اس کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجا تے تھے۔ ان کا کہنا تھا، کہ سبل نے مختلف کیسوں کے حوالے دیکر مقدمہ کی ازسر نو سماعت کی مانگ کی اور ہائی کورٹ کے دستخط اور مہر شدہ کاپی پیش کرکے درخواست کی کہ کم از کم تصدیق ہونے تک سزائے موت کو مؤخر کیا جائے ۔ ان کی بحث کے بعد اٹارنی جنرل نے سیٹ سے اٹھ کر ایک ٹائپ شدہ بغیر کسی کے دستخط و مہر کاغذ چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا، اور بتایا کہ ہائی کورٹ نے سزائے موت کی تصدیق کی ہے۔ ابھی وکلا اس پر احتجاج ہی کر رہے تھے، کہ اس کاغذ پر تو کسی کے ستخط ہی نہیں ہیں، کہ عدالت نے سزائے موت مؤخر کرنے یا اس میں مداخلت کرنے سے انکار کرنے کا آرڈر پاس کیا۔ اگلے روز صبح سویرے مقبول بٹ کو سزائے موت دیکر جیل میں ہی دفنایا گیا۔ اس سے قبل انکے برادر غلام بنی بٹ کو سرینگر ایئر پورٹ پر حراست میں لیا گیا۔ تقریباً 29سال بعد کچھ یہی کہانی افضل گورو کے ساتھ بھی دہرائی گئی۔ خود سپریم کورٹ نے ان کا کیس سننے کے بعد استغاثہ کے دعووں کو خارج کیا کہ ان کا تعلق کسی دہشت گردانہ تنظیم سے ہے، مگر پھانسی کی سزا سناتے وقت ”سماج کے اجتماعی ضمیرکو مطمئن‘‘ کرنے کا جواز پیش کیا ۔ اس فیصلے پر معروف قانون دان اے جی نورانی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جذباتی الفاظ استعمال کیے، جو اسکو زیب نہیں دیتے۔
ایک ساتھی قیدی کے بقول افضل کو صبح پانچ بجے سیل سے نکال کر یہ بتایا گیا کہ آج جیل کی انسپیکشن ہے اس لیے انہیں دوسرے سیل میں منتقل کیا جارہا ہے، بعد میں کاریڈور سے گزرتے ہوئے ایک افسر نے انہیں بتایا کہ ان کی پھانسی کا حکم آیا ہے۔ جب پہریداروں نے ان کے ہاتھ باندھنے اورانہیں دھکیلنے کی کوشش کی تو افضل نے ان سے کہا کہ وہ خود ہی مقتل تک چل کر جائیں گے۔ آخری خواہش کے طورپر انہوں نے اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کرنے کی اجازت مانگی مگر جیل حکام نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی اورانہیں اپنے اہل خانہ کو خط لکھنے کے لیے کہا۔کاریڈور سے گزرتے ہوئے انہوں نے باقی سیلوں میں بند قیدیوں کو اپنے آخری سفرکے بارے میں بتایا اور بآواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے مقتل کی طرف روانہ ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ آخرکیا وجہ تھی کہ سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی،راجیوگاندھی اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ بینت سنگھ کے قاتلوں اور جنوبی ہندوستان کے بدنام زمانہ ڈاکو ویراپن کے ساتھیوں کی رحم کی درخواست نا منظور ہونے پر ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا گیا اور انہیں سپر یم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کے لیے مہلت دی گئی لیکن محمد افضل گورو کے سلسلے میں دہرا معیاراپنایاگیا؟ جولائی 2015 میں ممبئی بم دھماکوں میں مجرم قرار دیے گئے یعقوب میمن کی سزائے موت کے خلاف دائر ا پیٹیشن کی سماعت رات بھر اسی کورٹ نے کی اور بعد میں انکی میت بھی انکے ورثا کے حوالے کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ گوروکی پھانسی کے سلسلے میں اس لیے جلدی کی گئی تاکہ اسوقت کی حکمران کانگریس دکھا سکے کہ وہ اپنی حریف بی جے پی سے بھی زیادہ سخت گیراور ہندوتوا کی حامی ہے۔اس کے فیصلہ سازوں کا خیال تھا کہ افضل کوتختہ دار پر لٹکا کر وہ شہری مڈل کلاس اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کودوبارہ پارٹی کی طرف راغب کرسکے گی ، مگر اس سوچے سمجھے الیکشن سٹنٹ کے باوجود کانگریس کو ایسی بری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، کہ 2014 کے عام انتخابات میں اسکے منتخب اراکین پارلیمان کی تعداد ا اتنی بھی نہیں رہی کہ وہ لیڈر آف اپوزیشن کے عہدہ کا دعویٰ کر سکے۔
افضل کی کہانی دراصل حالات و واقعات کی پیچیدگیوں کے گرداب میں الجھے ہوئے ایک عام سے کشمیری نوجوان کی داستان ہے جواس نسل کا احوال بیان کرتی ہے جس نے جمہوری نظام کی ناکامی اور ہندوستانی اداروں کی بے حسی کی وجہ سے مایوس ہوکراپنے خوابوں کی تکمیل اور امنگوں کے پرواز کے لئے ”آزادی‘‘کاپرچم اٹھایا۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں شروع ہونے والی ”تحریک آزادی‘‘ کے طریقہ کار سے وہ مایوسی کا شکار ہوئی۔ ایسے میں”جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ کے مصداق یہ نسل سکیورٹی ایجنسیوں اورآزادی کا نعرہ بلندکرنے والوں کے مفادات کے درمیان پس کر رہ گئی۔افضل کی بیوہ تبسم نے یہ درد ایک خط میں بیان کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ
”میرے شوہر ایک عام انسان کی طرح معمول کی زندگی گزارنا چاہتے تھے ،اس لیے کسی جنگجو تنظیم میں شامل ہونے کے بجائے انہوں نے بارڈر سکیورٹی فورس کے سامنے خود کوپیش کردیا لیکن بی ایس ایف کمانڈنٹ نے یہ کہتے ہوئے انہیں خودسپردگی کا سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کردیااور اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ وہ کچھ اور جنگجوؤں کوبھی خودسپردگی کے لیے تیار کرے۔‘‘
گورونے اس دوران دو نوجوانوں کو خودسپردگی کے لیے آمادہ کرلیا۔کشمیر میں جنگجوئیت سے تائب ہوکر خودسپردگی کرنے والے نوجوانوں کی زندگی کس عذاب میں گزرتی ہے اور انہیں قدم قدم پر کس طرح کے مصائب اور خطرات سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس کا ہلکا ساخاکہ افضل کی کہانی میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں نرس کے طور پر ملازمت کرنے والی تبسم کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے ان کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ سکیورٹی فورسزکی طرف سے ان پر جاسوس بننے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ جب افضل اس کے لیے آمادہ نہیں ہوئے تو ان پر اذیتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ 22 ویں راشٹریہ رائفلز کے میجر رام موہن رائے نے ان کے شوہرپر اذیتوں کی انتہاکردی۔ سکیورٹی فورسز والے افضل کو اکثر اٹھا کر اپنے کیمپوں میں لے جاتے جہاں انہیں ٹارچرکیا جاتا اور بلا وجہ ماراپیٹا جاتا تھا۔ بعد میں یہ کام اسپیشل آپریشن گوروپ نے سنبھال لیا۔ ایس او جی والے انہیں پہلے پٹن اور پھر ایک اور جگہ لے گئے ، وہاں بھی انہیں اذیتیں دی گئیں۔ ’’
وہاں ڈی ایس پی ونئے گپتا اور دویندر سنگھ نے ان کی رہائی کے بدلے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ، شانتی سنگھ نامی ایک افسر نے تو زیادتی کی انتہا کررکھی تھی‘‘۔ تبسم کا دعویٰ ہے کہ اسپیشل آپریشن گوروپ والوں نے ہی ان کے شوہر سے کہا کہ انہیں محمد نامی ایک شخص کوکشمیر سے دہلی لے جانا ہے۔ جب وہ ایس او جی کے کیمپ میں پہنچے تووہاں ان کی ملاقات محمد اور طارق نامی دو افراد سے کرائی گئی ،انہیں ان دونوں کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا اور نہ ہی یہ جانتے تھے کہ آخر ان سے یہ کام کیوں لیاجارہا ہے۔ افضل نے یہ تمام باتیں عدالت کو بھی بتائیں لیکن عدالت نے دو افراد کو لانے سے متعلق ان کا اعترافی بیان تو قبول کرلیا لیکن اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ان دونوں سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔نچلی عدالت میں انہیں اپنے دفاع کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ اعلیٰ عدالت نے بھی گواہوں کے ساتھ دوبارہ جرح کرنے اور اسپیشل آپریشن گوروپ کو عدالت کے کٹہرے میں بلانے کی ان کی درخواست ٹھکرا دی۔افضل کی پھانسی کے بعداگرچہ پارلیمنٹ پر حملے کا باب تو بند ہوگیا ہے لیکن وہ اپنے پیچھے کئی بڑے سوالات چھوڑگیا ہے جن کے جواب کسی تفتیشی صحافی کی جبلت کے بیدار ہونے کے منتظر ہیں۔
Categories: فکر و نظر