عام طور سے اُردو والوں کو جشن ریختہ سے شکایت رہتی ہے کہ یہاں اُردو میں بینر پوسٹر کم نظر آتے ہیں ٗاگر اس نظریے سے بات کروں تو یہاں فطری طور پرانگریزی کے ہی پوسٹرنظر آئے اور کہیں کہیں ہندی میں بھی کچھ مزیدار لکھا آنکھوں میں ٹھہر گیا ،مثال کے طورپر ایک جگہ یہ عبارت ہندی میں نظر آئی کہ ’دارو میں کچھ نہیں رکھا ساہتیہ پہ دھیان دو‘
’فرانس یورپ میں پہلا ملک ہے جہاں اُردو ہندی کی تعلیم شروع ہوئی ،حالاں کہ اس پر یہ کہہ کر اعتراض کیا گیا کہ؛ اردو کا ادب دلچسپ نہیں ہے ، صرف شاعری ہے اور کچھ نہیںٗ …اور ہندی ،ہندی میں ادب نالکل نہیں ہے۔اس کے باوجودوہاں ان زبانوں کی تعلیم شروع ہوئی ۔دونوں رسم الخط میں …‘
یہ تھیں وہ باتیں…، جونہ جانے کیوں حافظے میں رہ گئیں ٗدراصل میں تین دنوں سے جس ادبی میلے میں ٗ ایک نوآموز صحافی کی صورت یہاں وہاں …ٗکبھی اس سیشن کبھی اس سیشن تاک جھانک رہا تھا ؛جی چاہے تو یوں کہہ لیجیے کہ کسی چیز کی تلاش تھی ،ایسی چیز جس کا ٹھیک ٹھیک علم بھی نہیں کہ آخر ڈھونڈ کیا رہا ہوں۔اچانک ایک مہین سی آواز ٗایسی آواز جو عام طور سے کسی گورےکے ہندوستانی لب و لہجے میں سنائی پڑتی ہے ٗاور ہماری سماعتیں رینگ کر ہاتھوں کو تالیوں کی گونج میں تبدیل کردیتی ہیں…
میں اس خوشگوار اور پر جوش ماحول میں محسوس کر رہا تھا کہ کوئی Documentaryدکھائی جارہی ہےٗ اپنی بات اور واضح کروں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم خواہ مخواہ اپنے لسانی معاشرے میں احساس کمتری میں مبتلا اور ماضی پرست شہری بنا دیے گئے ہیں ،اس لیے ہونی انہونی پر چونک جاتے ہیں ،ٹھٹھک جاتے ہیں ٗ…خیرنظر بھر کر اسٹیج کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تو ایک بزرگ خاتون جئے پور لٹریچر فیسٹیول(جے ایل ایف) میں اُردو ،ہندی اور ہندوستانی کی بات کرتی نظر آئیں ،گارساں دتاسی کا حوالہ دیتی ہوئی ،بڑے پر سکون لہجے میں ناپ تول کربولتی ہوئی۔ حیرت اس بات پر نہیں کہ اس میلے میں کوئی غیرملکی خاتون ہندوستانی زبانوں پر بات کر رہی ہیں، اس کے ادب پر بول رہی ہیں،حیرانی اس بات پر تھی کہ ہندی میں Elitismکے کیا معنی ہیں؟ہم عصر دنیا میں اس کا کیا رول ہے ؟
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ان کو اُردو کی یاد کیوں آئی اور سامعین کی صف میں اتنی مسرت اور شادمانی کیوں ؟اس سوال کے جواب میں مجھے وہاں بھی عام اور سادہ لوگ نظر آئے جو بنا کسی ادق لسانی مباحث اور رسم الخط میں الجھے اپنی اپنی سہولت کے اعتبار سے شاعری کو انجوائے کرتے ہیں ٗہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اُردو ہندی میں بھی راشٹر واد کو ڈھونڈ لیتے ہیں ٗاس لیے میں نے شعوری طور پر اس سیشن کی رپورٹنگ کو اخباروں میں دیکھنے کی کوشش کی تو یوں مایوسی ہاتھ لگی کہ وہاں رومن تک کی بات تھی ٗ اور اُردو …آپ تو سب سمجھتے ہی ہیں ٗسو میں نے نظریں پھیریں تو اندازہ ہوا کہ جے ایل ایف میں انگریزی والیAudienceکوبھی کسی غیر ملکی پروفیسر کی زبان سے اُردو ہندی سننے میں وہی مزہ ملتا ہے جو خالص ہندی اُردو والے کو ۔زبان بھی دراصل ایک برانڈ ہے ،اورہم شایداس لیے اپنی زبان کو لے کر اچانک اتنے پرجوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے آس پاس بھی ایک طرح کا Elitism ہے اور یہ شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ ہم بس اپنی اپنی زبانوں میں محصور ہیں ۔
شاید اس لیے اسی سیشن میں کالج کی ایک نو عمرطالبہ نے صاف شفاف انگریزی میں بڑی بے باکی سے کہہ دیا کہ انگریزی سے خوف کھانے اور اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کے بجائے زبانوں کو سیکھنا ضروری ہے ۔درمیان میں اس لڑکی کی یاد اس لیے آگئی کہ سوال کرتے ہوئے ایک سینئر معلمہ نے اپنے تجربات کی روشنی میں شکایت کا پٹارہ کھول دیا کہ؛ ان کے اسکول میں بچے بہت با صلاحیت ہیں وہ ہندی میں کسی بھی موضوع پر بات کر سکتے ہیں ، گھنٹوں بول سکتے ہیں ٗلیکن انگریزی …،انہوں نے اپنی بات کو اس مشورے کے ساتھ ختم کیا کہ کیوں نہ پوری دنیا میں اس طرح کا ماحول ہو کہ ہماری اپنی ہندی بھی انگریزی کے برابرہو اور ہم اس میں فخر کے ساتھ بات کریں ۔ان کے اس ردعمل پر اس لڑکی نے بہت صاف گوئی سے یہ پیغام دیا کہ کیوں ہم اپنی محرومیاں چھپاتے پھرتے ہیں ٗکیوں نہیں ایک سے زیادہ زبان سیکھتے اور اسی روانی کے ساتھ ہندی ،انگریزی بولتے ہیں۔
یہ نظارہ تھا جے ایل ایف کے اس سیشن کا جس کے بعد مجھے دہلی کے لیے ٹرین پکڑنی تھی ۔باتوں باتوں میں یاد ہی نہیں رہا کہ میں اتنی دیر سے جس خاتون کی بات کر رہا ہوں ان کا نام تو میں نے بتا یا ہی نہیں؛Annie Montaut،اپنی سہولت کے لیے ان کو اینی کہہ سکتے ہیں تو پروفیسر اینی نے کچھ دیر کے لیے اس سیشن کو ہندوستانی زبانوں کا سیشن بنا دیا ۔حالاں کہ اس سیشن میں انار کلی آف آرا کے ڈائریکٹر اویناش داس نے بھی اُردو ہندی پر باقاعدہ بات کی اور رسم الخط کی گمشدگی پر اپنی رائے یوں رکھی کہ فلموں میں اسکرپٹ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ، ہاں زبان کے بیک گراؤنڈ کے لوگوں کی واپسی ہوئی ہے ۔وہیں راج کمل پرکاشن والے ستیہ آنند نروپم ،جواں سال فکشن نویس ستیہ ویاس اور میڈیا منڈی والے وینیت کمار ایسے شناسا چہرے بھی موجود تھے ؛توپروفیسر اینی نے یہ بھی کہا کہ ان کے ادارے میں ہندی اُردو پہلے ایک مشترک زبان کے طور پر پڑھائی جاتی تھی ،لیکن اب یہ الگ الگ ہیں ۔اس پر انہوں نے افسوس بھی کیا اور کہا ؛ہندوستان میں بھی اُردو ایک طرف ہے اور ہندی ایک طرف ،میں یہ نہیں کہوں گی کہ دونوں میں لڑائی ہے ،لیکن ہاں دونوں میں دوستی بھی نہیں ہے۔ایک باخبر دانشور کی طرح انہوں نے اُردو ہندی کی سیاست کی طرف اشارہ کیا اورسیشن کے دوسرے شرکاء کے تبسم کے ساتھ سامعین نے تالیوں کے شور میں ان کی باتوں کا اثبات کیا۔
ان باتوں کا تذکرہ کیوں ؟اس سوال کا جواب شاید ہم اپنی اپنی لسانی لعاشرت کے کھانچوں اور اپنے نفسی کوائف میں تلاش کر سکتے ہیں ۔ ہر پھر کر بات وہیں پہنچ جاتی ہے کہ جے ایل ایف میں لٹریچر کے نام پر جن نامی گرامی ہستیوں کو مدعو کیا جاتا ہے وہ عام طور سے ہندی اُردو والے یا دیگرہندوستانی زبانوں کے وہ لوگ نہیں ہوتے جو انگریزی میں نہیں لکھتے ۔اس لیے کئی حلقوں میں جے ایل ایف کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ٗمجھے وہیں کئی دوستوں نے بتا یا کہ اسی وجہ سے جے ایل ایف کے ساتھ پیرلل لٹریچر فیسٹیول( پی ایل ایف) بھی ہوتا ہے۔اتفاق سے کئی جان پہچان والے قلمکار پی ایل ایف میں بھی مدعو تھے تو میں نےاس موقع کا فائدہ اٹھایا اورپی ایل ایف کے بھی دو ایک سیشن اٹینڈ کیے ،یہاں لوگوں کی تعداد بہت کم تھی ،اور جب میں نے بہت شعوری طور پر اس خالص ادبی اور ہندوستانی میلے کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں صرف ہندی ہے ٗسامنے ہی آپ کو مکتی بودھ کے نام کا منچ نظر آجائے گا ،ادیب اور دانشور یہاں وہاں کھلے آسمان کے نیچے بتیاتے نظر آجائیں گے ٗلیکن سب کے سب ہندی والے …ہندوستانی زبانوں کے نام پر صرف ہندی ٗہاں موضوعات کی تخصیص میں یہ بہت حد تک ادبی ہے، گلیمر یہاں بھی ہے ،لیکن احتیاط کے ساتھ …اور شاعری کو الگ کردیں تو دو چار اُردو والوں کے علاوہ یہاں صرف ہندی ہے ۔
جن لوگوں سے میری گفت و شنید ہوئی ان کا اصرار تھا کہ یہ ساہتیہ ہے اور ہندوستانی ساہتیہ ہے ۔لیکن ہندوستان میں ہندی اُردو کے علاوہ جانے کتنی زبانیں ہیں ٗخود راجستھان کی لوک بھاشا اور اس کا ساہتیہ ہے ۔مجھے ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کہ پی ایل ایف میں راجستھان کے کلچر اور اس کی لوک بھاشا کو کتنی قدر و اہمیت حاصل ہے ۔لیکن جے ایل ایف میں راجستھان کی لوک بھاشا اس کی شاعری اور ادب کے لیے بھی ایک خاص جگہ نظر آئی ،یہ اور بات ہے کہ اس کو لے کر سامعین میں کوئی خاص جوش اورولولہ نہیں تھا ۔دوسرے لفظوں میں کہوں تو ششی تھرور کو دیکھ کر لڑکیاں …،ماڈرن زبان میں اپنی خاص طرح کی باڈی لنگویج کے ساتھ او مائی گاڈ او مائی گاڈ کرتی نظر آئیں ۔جے ایل ایف اور پی ایل ایف کو لے کر سوشل میڈیا پر بھی طرح طرح کی باتیں دیکھنے کو ملیں اور لوگوں نے اپنے اپنے سیاسی ،سماجی اور ادبی تحفظات کے تحت کسی کو غلط تو کسی کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کی ۔
میں نے پی ایل ایف کوجے ایل ایف کے مقابلے ایک آؤٹ سائڈر کی طرح دیکھا ٗاس لیے واضح طور پر کوئی رائے نہیں بنا سکتا ،تو عافیت اسی میں ہے کہ اس قضیہ کو یہیں چھوڑدیا جائے۔ہاں توادب اور خالص ادب سے الگ ،میری طرح جے ایل ایف کو اپنی اپنی نگاہ سے دیکھنے والے بہت لوگ تھے ،لیکن میں نے جانے کس ذہنی حالت میں یہ نوٹس کیا کہ جس میلے میں آپ کا خیر مقدم راجستھانی کٹھ پتلی کے ڈیجیٹل Versionسے کیا جارہا ہے ،اسی کٹھ پتلی کے لیے میلے کے اندر کوئی جگہ نہیں ہے ،ہاں انٹرنس کے پاس ایک کونے میں ،حاشیہ بھی کہہ سکتے ہیں،کٹھ پتلی والے شہری ٹھیلوں کی طرح یہاں وہاں زمین پر فن کی رنگینیاں بچھائے بیٹھے ہیں ، میں نے ان میں سے ایک پرکاش بچن جی سے بات کی تو پتا چلا کہ میلے کے اندر نمائش لگانے کے لیے ایک موٹی رقم کی ضرورت ہوتی ہے ،اس لیے حاشیہ کی یہ زمین ہی بہت ہے ،حالاں کہ ان کے خریدار کم اور فوٹو کھینچنے والے زیادہ ہیں جو چلتے چلتے رُک کر کچھ تصویریں اتار لیتے ہیں ۔
بہر کیف اوروں کی طرح میں نے بھی ششی تھرور کو سننے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ وہ بہت اچھے اینکر بھی ہیں ،ایک سیشن میں اپنی کتاب وہائی آئی ایم اے ہندو کے حوالے سے ہندو دھرم اوراساطیر کےعلاوہ دھرم کے سیاسی ڈسکورس پر انہوں نے گفتگو کی ۔اس میں انہوں نے ہندتوا کی تنقیدبھی کی اور ایک موقع پراپنے کسی حالیہ بیا ن کی وضاحت میں کہا کہ ہندی ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے،بالی ووڈ کی وجہ سے، یہ ہندوستان کے ایک بڑے حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس طرح کے سیشن میں لوگوں کا ہجوم تھا اور بڑی تعداد میں بلکہ 70فیصد تک نوجوان ،اس میں بھی لڑکیاں بہت زیادہ تھیں ۔
اسی طرح کا ایک سیشن منٹو والا تھا ،جس میں ایکٹر نواز الدین صدیقی اور نندتا کے ساتھ ونود دوا تھے ۔اس سیشن میں منٹو کہیں رہ گئے اورنواز ،ناظرین کے لیے ’سب کا بدلہ لیگا رے تیرا فیضل ‘والے ہیرو بن گئے ۔سامعین کا اپنا مطالبہ تھا کہ بس ایک بار وہ والا ڈائیلاگ بول دیجیے ،لیکن نواز نے بڑی شرافت سے اس طرح کے مطالبے پر دھیان نہیں دیا ،حالاں کہ شور مسلسل تھا لیکن وہ معصومیت کے ساتھ اپنی بات کہتے نظر آئے ۔ اس سیشن میں منٹو کے حوالے سے مذہب اورنیشنل ازم پرتھوڑی بہت کام کی باتیں بھی ہوئیں اور اظہار رائے کی آزادی کے ایک بڑے ہیرو کے طور پر منٹو کو یاد کیا گیا ،پھر سنیما اور کمرشیل سنیما وغیرہ کی باتیں ہوئیں ٗجس میں کہیں کہیں پر منٹو کا نام سنائی پڑا ۔
ایک سیشن میں’بنارس ٹاکیز‘والے ستیہ ویاس اور’گیارہویں اے کے لڑکے‘کے مصنف گورو سولنکی کی کہانیاں سننے کو ملیںٗ ان کے ہاں زبان کےاپنے تجربے اور کہانی کو بیان کردینے کی چاہت نظرآئی،لیکن یہ بھی محسوس ہوا کہ ہندی میں ایسی کہانیاں بھی لکھی جارہی ہیں ٗجن میں صرف مکالمہ ہے اور اگر کہیں پر راوی کا اپنا بیان ہے بھی تو وہ اپنی زبان کو لے کر بہت محتاط نہیں ہے ۔اس کے باوجود اس سیشن میں گورو سولنکی نے متاثر کیا اور ان کی یہ بات بھی بھلی لگی کہ؛گہرے اور پرسنل لگنے والے تجربے اورتخیل سب سے زیادہ آفاقی اور یونیورسل ہوتے ہیں،اور آپ زبان کے برتاؤ کو لے کر بہت زیادہ سخت نہیں ہوسکتے۔اس سیشن میں خاص طرح کی موجودگی تھی ٗ اس لیے بعد میں صرف وہی لوگ رہ گئے جو کہانیوں کے بارے میں سوچتے ہیں ٗ یا پھر وہ لوگ جو اس گورو سولنکی کو بھی جانتے ہیں جنہوں نے انوارگ کشیپ کی فلم Uglyکے گانے لکھے ہیں ۔اچھی بات شاید یہ رہی کہ ان کی کہانیوں اور کارناموں سے واقف نئی نسل کی ایک تعداد وہاں ان کو سن رہی تھی ۔
آپ میں سے بہت سے لوگ سنیل،سدھیر اور ومل جیسے کرداروں کو تخلیق کرنے والے سریندر موہن پاٹھک سے واقف ہوں گےاوران کی زود نویسی کا بھی علم ہوگا ۔ہاں وہی پاٹھک صاحب ،جن کا پہلا ناول ’پرانے گناہ اورنئے گنہ گار ‘کے نام سے شائع ہوا ،اور 65’لاکھ کی ڈکیتی‘ کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ ایک سیشن میں ان کے ساتھ انوراگ کشیپ نے ان کے فین کے طور پر شرکت کی اوران کی سوانح حیات’نہ بیری نہ کوئی بیگانہ‘ کا اجرا کیا۔اس سیشن میں انہوں نے مزے مزے کی باتیں کیں اور جاسوسی کرداروں کے حوالے سے اپنے تخلیقی تجربے کو دلچسپ انداز میں بیان کیا۔اس سیشن کی خاص بات یہ رہی کہ ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان کے نام کا ٹی شرٹ پہن کرآئی تھی ۔
ان سب کو دیکھ کر کئی بار یہ ادبی میلہ بھی مجھے اتنا ہی ہندوستانی لگا ٗجتنے ہم اپنے روز مرہ میں ہیں ۔یہاں بھی مجھے اتنی ہی ہندی اور اُردو نظر آئی جتنا یہ ہمارے اندر ہے اور یہ سب اس وقت محسوس ہوا جب میں سامعین کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔اول تو سامعین میں نوجوانوں کی تعداد اور ان کی بنتی بگڑتی Selfieکو دیکھ کر یہ بھی لگ سکتا ہے کہ بازار میں ساہتیہ یا ساہتیہ کا بازار تو موضوع ہے ہی نہیں ٗاصل میں سیلفی ہی ادب ہے۔لیکن ان سب کے درمیان آپ ان چہروں کو بھی بخوبی پہچان سکتے ہیں جو زبان ،ادب اور کلچر کے معنی و مفہوم سے واقف ہیں اور کچھ نیا سننے یا جاننے کے لیے آئے ہیں ۔زبان اور کلچر کی بات ہو ہی رہی ہے تو اس سیشن کا بھی تذکرہ کردوں جس میں ہندی ورڈ آف دی ایئرکا اعلان کیا گیا اورلوک بھاشا کےکردارپر بات کی گئی۔ Hindi Word of the Yearکےطور پرآدھار کومنتخب کیا گیا۔اس لفظ کے سیاسی حوالوں کو نظر میں رکھیےتو شاید آپ اس لفظ کو قبول کر پائیں اور یہ بھی اندازہ ہوکہ کس طرح عصری سماج میں چیزوں کو اس کی نئی معنویت کے ساتھ دیکھنے اور قبول کرنے کا چلن بڑھ رہا ہے ۔اس سیشن میں اس لفظ کے معنوی ابعاد کو لے کر’بنیاد‘ کی باتیں بھی ہوئیں اوراشوک واجپئی نے ایک طرح سے اس چلن کا اثبات نہیں کیا اور بڑے خوبصورت انداز میں لفظوں کی تخلیق کے اس پس منظر کی کہانی سنائی جس میں عام لوگ شامل ہوتے ہیں ۔
اس میلے میں ایک صحافی کے طور پر میں نے کچھ انٹرویو بھی کیے ٗجن میں سامعین کے لیے جے ایل ایف میں منٹو کے کیا معنی ہیں اورکٹھ پتلی والے بچن صاحب کے علاوہ گورو سولنکی ،اویناش داس اور کوٹانیلیما کے ساتھ باتیں ہوئیں ،بالخصوص نیلیما کے ساتھ ان کی تازہ ترین کتاب Widows Of Vidarbha Making Of Shadowsپر چند ایک باتوں کے علاوہ دیہی سماج کی عورتوں کے مسائل پر تفصیلی بات ہوئی ۔نیلیما کا تذکرہ یہاں یوں بھی کرنا ضروری ہے کہ گزشتہ دنوں فلم پدماوت کو لے کر انہوں نے کرنی سینا کے خلاف بڑی باکی سے لکھا تھا اور بنیادی سوال اٹھائے تھے ٗاس کے بعد کرنی سینا نے ان کی مخالفت کی تھی اور دھمکی دی تھی کہ ان کو جے ایل ایف میں شریک نہیں ہونے دیا جائے گا ۔لیکن انہوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ مختلف سیشن میں باتیں کیں ۔ان کے اس احتجاج کی معنویت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب پرسون جوشی جیسے لوگوں کو کرنی سینا کی خوش نودی میں یہ بیان جاری کرنا پڑتا ہے کہ وہ جے ایل ایف میں حصہ نہیں لیں گے ۔
چلتے چلتے یہ بھی کہ عام طور سے اُردو والوں کو جشن ریختہ سے شکایت رہتی ہے کہ یہاں اُردو میں بینر پوسٹر کم نظر آتے ہیں ٗاگر میں اس نظریے سے بات کروں تو یہاں فطری طور پرانگریزی کے ہی پوسٹرنظر آئے اور کہیں کہیں ہندی میں بھی کچھ مزیدار لکھا آنکھوں میں ٹھہر گیا ،مثال کے طورپر ایک جگہ یہ عبارت ہندی میں نظر آئی کہ ’دارو میں کچھ نہیں رکھا ساہتیہ پہ دھیان دو‘اور اس تختی کی اہمیت کسی بھی طرح کسی Celebrity سے کم نہیں تھی کہ ہر کوئی اس کے ساتھ اپنی تصویر اتار رہا تھا۔ہاں موضوعاتی تنوع میں یہ ریختہ سے بہت الگ لگا کہ یہاں ادب ،کلچراور سیاست میں تفریق نہیں کی گئی ہے ۔ جے ایل ایف کے ناظرین اور سامعین ماڈرن لسانی معاشرت سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں اس کے باوجود ریختہ اور ان کے سامعین میں کسی حد تک مماثلت ہے کہ سب کو اپنی اپنی پسند کےا سٹار کو دیکھنا ہے؟ اس طرح دیکھیں تو ہندی انگریزی کے اس بازار میں صرف اپنے رسم الخط کو پڑھنے کی ضد ایک رائے ہو سکتی ہےٗجدید لسانی معاشرت کی سچائی نہیں سو اپنے اپنے نظریے سے کسی کو صحیح تو کسی کو غلط قرار دینے کی وجہیں بھی بے حد ذاتی ہیں۔
یوں بھی یہ اس جے ایل ایف کی آنکھوں دیکھی نہیں ،جس میں آپ ہندوستانی ادب کو دیکھنے آتے ہیں ،ہاں یہ اس جے ایل ایف کا مشاہدہ ضرور ہے جس میں آپ دیکھنا چاہیں تو بہت کچھ اچھا نظر آجائے گا ،ورنہ ہم سب اپنی اپنی لسانی معاشرت کے ثنا خوان تو ہیں ہی …
Categories: ادبستان