آج پورے ملک کا مظلوم سماج چندرشیکھر آزاد کی رہائی کا انتظار کر رہا ہے، لیکن رہائی تو دور ہے، سوال آج اس لڑائی میں زندہ رہنے کا ہے۔
میں یہ مضمون جس تحریک اور سماج کے بارے میں لکھ رہا ہوں شاید ان میں سے زیادہ تر لوگ اس کو پڑھ نہ پائیں کیونکہ اس ملک میں آج بھی سارےغریب ایک اچھا فون یا کمپیوٹر نہیں خرید سکتے اور اگر خرید بھی لیں تو تعلیم کی حالت ایسی ہے کہ لوگ کچھ پڑھنے کے مقابلے رات میں ٹی وی پر آنے والے بے بنیاد پرائم ٹائم دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہماری یہ لڑائی اور ہماری دوستی 9 مئی کے بعد شروع ہوئی تھی۔ 8 جون 2017 کو چندرشیکھر آزاد کو جیل ہوئی تھی، تب سے میں تقریباً ہر مہینے چندرشیکھر سے ملتا رہا ہوں۔ خیر جو سہارن پور میں ہوا وہ دلتوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے، بس تاریخ کا ایک اور واقعہ جہاں جلے بھی دلت اور پھر جیل میں بھی دلت۔
جب پہلی بار 18 جون کو شیکھر سے، (میں چندرشیکھر آزاد کو شیکھر بولتا ہوں) جیل میں ملنے گیا تو لگا جلد سب ٹھیک ہو جائےگا، شاید سب جلد جیل سے باہر آ جائیںگے۔تب بھیم آرمی کے تقریباً 42 کارکن اور شبّیرپور گاؤں کے سونو پہلوان جیل میں تھے۔ دیکھتے دیکھتے 5 مہینے بیتے اور آہستہ آہستہ تقریباً تمام لوگوں کو ضمانت مل گئی۔ آخری میں بس تین آدمی جیل میں تھے، سونو پہلوان، کنول والیہ اور چندرشیکھر۔
1 نومبر 2017 کو چندرشیکھر اور کنول والیہ کو الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی، لیکن 2 نومبر کو دوست شیکھر پر راسوکا لگا دی۔ راسوکا سونو پہلوان پر بھی لگی تھی۔میں یہ مضمون اس لئے نہیں لکھ رہا کہ آپ اس کو صرف پڑھیں لیکن اس لئے کہ آپ صورت حال کو سمجھیں۔ سہارن پور تشدد سے صرف دلتوں کا نقصان نہیں ہوا ہے بلکہ ان ‘ اونچی ذات ‘ کے لوگوں کا بھی ہوا ہے، جو حکومت اور اقتدار کی آڑ میں ہر بار ایسی واردات کو انجام دیتے ہیں اور دلتوں کو ایک اور وجہ دیتے ہیں ‘ اونچی ذات ‘ کے لوگوں سے نفرت کرنے کی۔
سچائی تو یہ کہ نہ تو کوئی سارے دلتوں کو نیست و نابود کر سکتا ہے، نہ کوئی سب ‘ اعلیٰ ‘ ذات کے لوگوں ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی تمام مسلمانوں کو پاکستان بھیج سکتا ہے۔ آخر میں سب کو رہنا تو ایک ساتھ اس سماج میں ہے۔ لیکن اس سماج میں ایک ساتھ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ااپنے ذاتی اور مذہبی عقائدسے پہلے انسانیت سے ایمانداری رکھیں۔
میں اس مضمون کو کتنا ہی پولرائزیشن کے طریقے سے رکھ سکتا ہوں، لیکن سماج کو آج پولرائزیشن سے زیادہ اتحاد کی ضرورت ہے۔
واپس اب سہارن پور پر آتے ہیں۔ 25 جنوری 2018 کو میں آخری بار چندرشیکھر سے ملا تھا، تب مجھے ایک خط ملا تھا جس میں لکھا تھا کہ ایڈوائزری بورڈ نے دوست شیکھر پر 6 مہینے تک راسوکا پکیکر دی ہے اور یہ آگے بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ساتھ ہی سونو سرپنچ پر بھی راسوکا پکی ہو گئی ہے۔ جیل میں میں سونو سرپنچ کے بیٹے سے بھی ملا جو فیملی کے حالات سے بےحد مایوس تھا۔
ہر بار کی طرح چندرشیکھر کے چہرے پر وہی ہنسی تھی، جو 18 جون سے میں لگاتار دیکھ رہا ہوں، چہرے پر کوئی شکست نہیں، ملتے ہی مسکان اور دیکھتے ہی زور سے جئے بھیم بولنا۔18 جون سے آج تک تقریباً 7 مہینے سے زیادہ وقت ہو چکا ہے، بیچ میں کئی بار شیکھر کی فیملی سے ملا، ان کے بھائی سے ملا۔ ان کی ماں بہت ہمت والی ہے پر وقت کی بے رحمی کئی بار ان کی آنکھوں میں بھی آنسو لا دیتی ہے۔
تقریباً 2 مہینے پہلے شیکھر کو خراب صحت کے چلتے میرٹھ ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا پر وہاں سے بھی بنا صحیح علاج کے ان کو واپس جیل بھیج دیا گیا۔آج تک شیکھر نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی، جب ملتا ہوں تو بابا صاحب کی، صاحب کانشی رام، بھگت سنگھ اور نیلسن منڈیلا کی بات ہوتی ہے۔ ہر بار ہنستے ہنستے کب ملاقات کا وقت ختم ہو جاتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا۔
لیکن اس بار بات کچھ اور تھی۔ 9 مئی کے بعد شیکھر پر 27 مقدمے لگے تھے جس میں سے ان کو سب میں ضمانت مل گئی ہے۔شیکھر نے ہنستے ہنستے بتایا کہ اس کے آخری مقدمہ کی ضمانت کا آرڈر اور راسوکا کا خط ایک ہی دن آیا۔ راسوکا کا لیٹر تو پڑھنے سے پہلے ہی اس نے دستخط کر دیا اور بعد میں پڑھا کیونکہ اس کو پتا تھا کہ اس میں کیا لکھا ہوگا۔ اس نے کہا، ‘ جو میں نے سوچا تھا وہی لکھا تھا، دلتوں کے لئے حکمرانوں کا ایک چیلنج اور دھمکی کی داستان کہ اپنے حق مت مانگو ورنہ ایسے ہی جیل میں سڑوگے۔ ‘
مجھے بھی بات یاد آ گئی کہ ہر دہائی میں استحصال کرنے والاظلم برداشت کرنے والوں کا مذاق بناتا ہے۔ ہر مظلوم کی تحریک کی تاریخ اپنے حساب سے لکھتی ہے۔ جب بھی ہم تاریخ کے صفحے پلٹکر دیکھیںگے تو ہمیں بس استحصال کرنے والوں کو آگاہ کرتے واقعات دکھتے ہیں، پھر وہ چاہے بادشاہی کے نشے میں 1670 کی دہائی میں متھرا کے چبوترہ پر لٹکا کسان رہنما گوکل کا جسم ہو یا پھر ‘ آزادی ‘ کے بعد بھی ملک میں جلتے دلتوں کے گھر اور ان کو جلانے والوں کی آزادی۔
آج پورے ملک کا مظلوم سماج چندرشیکھر آزاد کی رہائی کا انتظار کر رہا ہے، لیکن رہائی تو دور ہے، سوال آج اس لڑائی میں زندہ رہنے کا ہے۔ شیکھر پچھلی بار بولے کہ ان کی جیل کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔بات ہی بات میں کئی بار شیکھر کہتا ہے، ‘ سماج کے لئے کام کرنے کا بہت دل ہے لیکن بی جے پی کبھی مجھے جیل سے باہر آنے نہیں دےگی، میں ناامید نہیں دکھ سکتا، کسی کے سامنے آنکھوں میں آنسو لا کر ٹوٹ نہیں سکتا کیونکہ میرے سماج کو لوگوں نے بہت توڑا ہے، ابھی تو بس ایک چارا ہے وہ ہے سماج کے لئے جدو جہد۔ ‘
اب میرا بھی جیل میں جانے کا دل نہیں ہوتا کیونکہ جب آپ جیل میں کسی سیاسی سازش سے ملزم بنائے آدمی سے ملتے ہیں تو اس کو آپ سے بڑی امید ہوتی ہے کہ آپ کچھ کریںگے اور ان کی بےگناہی ثابت کریںگے۔
آج ملک کی حکومت بس کاغذی ہے، خالص حکومت تو آج ہندووادی طاقتوں کی ہے جو ہر اس آواز کو کچلیںگی جو منصفانہ سماج کی بات کرے، جس کے چلتے سپریم کورٹ کے جج بھی مجبور ہیں۔یہ خط میں نے کسی راجا کی تعریف میں درباری شاعر کی شکل میں نہیں لکھا ہے کیونکہ دلت نہ تو کبھی راجا ہوئے ہیں نہ درباری شاعر، بس کچھ پل ہے تحریک کے دو سپاہی کے۔ بس آخر میں سماج کے تمام ترقی پسند دوستوں سے گزارش ہے کہ اس لڑائی میں ساتھ دیں اور یقینی بنائیں کہ اس بار تاریخ مظلوم کی جیت کی لکھی جائےگی۔
جئے بھیم
(پردیپ نروال جے این یو میں پڑھتے ہیں اور بھیم آرمی ڈیفنس کمیٹی کے کنوینر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر