نسٹرو اکاؤنٹ (NOSTRO ACCOUNT) کی مانیٹرنگ اور SWIFT Messaging سسٹم کی خامیاں جگ ظاہر تھیں۔ ان کے غلط استعمال کے لئے بس نیرو مودی جیسے شاطر دماغ کی ہی ضرورت تھی۔
2013 کی شروعاتمیں پبلک سیکٹر کے کچھ بینکوں نے ریزرو بینک آف انڈیاکے سامنے رسمی طور پر پیش ہوکر ایک وقت کے بعد جمع ہو رہے اپنے ‘ نسٹرو ‘ کھاتوں (کسی بینک کا دوسرے ملک میں غیر ملکی کرنسی میں کھاتا) میں انٹری کی بڑھتی تعداد کو ختم کرنے یا ان کا حل کرنے میں پیش آ رہی دقتوں کے بارے میں بتایا تھا۔
نسٹرو بینک کھاتے عام طور پر کسی گھریلو بینک کے ذریعے غیر ملکی بینک میں کھولے گئے کھاتوں کو کہتے ہیں،جس کی تازہ مثال پنجاب نیشنل بینک کی ہے۔ ان کھاتوں کا استعمال غیر ملکی پارٹیوں کو در آمدات کے بدلے ادائیگی کرنے میں کیا جاتا ہے۔موجودہ معاملے میں پنجاب نیشنل بینک نے خام ہیروں کی در آمد کے عوض میں غیر ملکی پارٹی کو ادائیگیکے لئے ایسے ہی کھاتے غیر ملکی بینکوں کے ساتھ کھولے تھے۔
ایک گھریلو بینک عام طور پر غیر ملکی بینکوں کے ساتھ ایسے نسٹرو کھاتے کھولنے میں مدد کرتا ہے تاکہ یہ اپنے گھریلو گراہک کے ذریعے کئے گئے در آمد کے بدلے غیر ملکی کھاتے سے ڈالر کی اداادائیگی کر سکے۔اس لئے جب بینکوں نے 2013 میں ریزرو بینک سے یہ کہا کہ اس کے لئے بڑھتے ہوئے نسٹرو بینک کھاتوں کو ختم کرنا یا ان کا حل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، تب ریزرو بینک نے پبلک سیکٹر کے بینکوں کو نسٹرو بینک کھاتوں کی تعداد کم سے کم رکھنے کی صلاح دی تھی تاکہنپٹارے کا کام صحیح طرح سے ہو سکے۔
بزنس اسٹینڈرڈ کی 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق ریزرو بینک آف انڈیانے بینکوں کو ‘ ٹیکنالوجی کے استعمال سے مختصر وقفوں پر تیز نپٹارےاور چوکس نگرانی سسٹم تیار کرنے ‘ کی بھی ہدایت دی تھی۔پانچ سال پہلے ریزرو بینک کے ذریعے دی گئی ہدایت اتنی اہم اس لئے ہے کیونکہ اگر نسٹرو کھاتوں کے تیز نپٹارے اور زیادہ چوکس نگرانی کانظام قائم ہو گیا ہوتا، تو پی این بی انتظامیہ کو نیرو مودی اور ان کی فیملی کے ذریعے نسٹرو کھاتوں کی مددسے دھوکہ دھڑی کرکے 1.8 ارب ڈالر نکال لینے کے گھوٹالہ کے بارے میں کافی پہلے پتا چل گیا ہوتا۔
اصل میں نسٹرو کھاتوں کی نگرانی کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ گھوٹالہ یہ اتنا بڑا ہو پایا۔ ایسا لگتا ہے کہ بینکوں کو خطروں کا اندیشہ 2013 میں ہی ہو گیا تھا، جب وہ اپنے مسائل لےکر ریزرو بینک کے پاس گئے تھے۔اپنی طرف سے آر بی آئی نے صحیح صلاح دی تھی، لیکن اصل میں بینکوں نے مختصر وقفوں پر نسٹرو اینٹری کے حل اور ان کو ختم کرنے کے لئے تکنیک پر مبنی نظام قائم کیا یا نہیں، یہ یقینی بنا پانے میں ریزرو بینک ناکام رہا۔ اس طرح سے بینکوں کے ذریعے صاف طور پر پہچان لئے گئے نظام کے خطرے کو اور بڑا ہونے دینے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔
سویفٹ (ایس ڈبلیوآئی ایف ٹی) کا بغیر نگرانی کیا جانے والا استعمال ،سسٹم سے متعلق ایک اور ناکامی رہی، جس نے 11000 کروڑ روپے کے اس گھوٹالہ میں مدد کی۔اس معاملے میں بھی ہمارے پاس دو سال پہلے کی ایک خبردارکرنے والی کہانی ہے، جب یونین بینک آف انڈیا کی ہیکنگ کی گئی اور اس کے 171 کروڑ ڈالر ختم ہو گئے (جسے بعد میں بر آمد کیا گیا)۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ نیرو مودی گھوٹالہ کی ہی طرح فرضی اداادائیگی ہدایت کور بینکنگ سسٹم کے سہارے نہ بھیجکر سویفٹ کے سہارے بھیجی گئی۔
ستمبر، 2016 میں آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ایس ایس مندرا نے ایک تقریر کیا تھا، جس میں اسی مسئلے کو اٹھایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ‘ حال کے وقت میں ہندوستان میں بھی ایک تجارتی بینک کے ساتھ ایسی ہی کوشش کی گئی تھی، جس میں نسٹرو کھاتوں پر فرضی طریقے سے ادائیگی کا احکام تیار کیے گئے تھے اور اس کو سویفٹ میسیجنگ سسٹم کے سہارے بھیجا گیا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اس کی وجہ سے ہونے والے پیسے کے نقصان کو متعلقہ اداادائیگی / ثالث بینکوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے روک لیا گیا، لیکن اس واقعہ نے اس حقیقت کو نشان زد کرنے کا کام کیا ہے کہ مختلف حصے داروں نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ ‘
انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ حالانکہ، بعد کا واقعہ خاص طور پراندرونی کنٹرول کی ناکامی اور ‘ فور آئیز پرنسپل ‘ پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ تھا، مگر اس کی ایک وجہ سسٹم کا الگ الگ کام کرنا بھی تھا، جس کی وجہ سے سوفٹ لین دین کو کور بینکنگ سسٹم پر درج کئے بغیر انجام دیا جا سکتا ہے۔
جیسی جانکاری مل رہی ہے، اس سسٹم کی خامیوں کا استعمال کرکے طےشدہ 90 دنوں کے اندر پیسہ واپس لوٹانے کے فرضی لیٹر آف انڈرٹیکنگ (ایل او یو) کے ذریعے نسٹرو کھاتوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکالتے رہنے کے لئے بس ایک نیرو مودی جیسے شاطر دماغ کی درکار تھی۔ ان فرضی ایل او یو کے ذریعے ہی غیر ملکی بینکوں نے نسٹرو کھاتوں کو پیسے بھیجے۔
لیکن، جیسا کہ معلوم پڑتا ہے، عارضی طور پر دئے جانے والے قرض کی ہر 90 دن پر تجدیدکاری کر دی جاتی تھی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لمبے وقت تک نہیں چکایا جانے والا، کبھی نہ ختم ہونے والا قرض بن گیا۔چونکہ کم مدت کے قرضوں کا ایک بینک سے دوسرے بینک کے درمیان لین دین ہوتا ہے، اس لئے ایسا لگتا ہے کہ دین داری کئی اور بینکوں کے کندھوں پر چلی گئی ہے۔ اس معاملے میں تفتیش ابھی جاری ہے، لیکن ایک اندازہ کے مطابق کم سے کم 20 سے زیادہ بینک نیرو مودی اور ان سے جڑی دوسری ہیرا کمپنیوں کے ذریعے کھولے گئے ایسے نسٹرو کھاتوں کی دین داری کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں۔
بھلے سی بی آئی اور ای ڈی (Enforcement Directorate) نیرو مودی کی جائیدادوں کو ضبط کرکے جتنا ممکن ہو سکے، بر آمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن آر بی آئی کے پاس اس پورے معاملے میں مداخلت کرنے اور بینکوں کے درمیان ان دین داریوں کا حل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق تفتیشی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یہ گھوٹالہ 11000 کروڑ روپے سے زیادہ بڑا ہے اور نسٹرو کھاتوں میں 3000 کروڑ روپےکے ایڈیشنل دین داری کا پتا چلا ہے۔
سی بی آئی کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ نیرو مودی نے 9 فروری، 2017 سے 14 فروری، 2017 کے درمیان آٹھ ایل او یو جاری کئے اور ایسا لگتا ہے کہ پچھلے ایک سال میں اس فرضی واڑہ کی صورت حیرت انگیزطریقےسے بڑھ گئی۔حالانکہ، نیرو مودی کی کمپنیاں 2011 سے لیٹرس آف کریڈٹ کا استعمال کر رہی ہیں، لیکن ابتک کی تفتیش سے یہ پتا چلا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں اور خاص کر جنوری، 2017 کے بعد یہ فرضی واڑہکئی گنا زیادہ بڑھ گیا۔
اس کا کوئی تعلق نوٹ بندی کے بعدکے اقتصادی ماحول سے ہے یا نہیں، اس کے بارے میں کسی کو کوئی جانکاری نہیں ہے۔ آخر ہیرے کے کاروبار کے بارے میں مانا تو یہی جاتا ہے کہ اس میں کافی نقد کا استعمال ہوتا ہے۔
کالا دھن کی تعمیر کو لےکر این آئی پی ایف پی کے ذریعے وزارت خزانہ کو جمع کرائی گئی ایک تفصیلی رپورٹ میں ہیرے کے کاروبار کو منی لانڈرنگ کا ایک بڑا ماخذ بتایا گیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ نیرو مودی جیسے ہیرا کاروباریوں کو نقد معیشت پر اچانک بجلی گرنے سے آئی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے نسٹرو کھاتوں کے ذریعے کہیں زیادہ اور فرضی طریقے سے قرض لینا پڑا ہو!
یا یہ صرف دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگی جگہوں پر برانڈیڈ جویلری اسٹور کھولنے کےمقصد کی وجہ سے ہوا، جس نے ان کو ایسے غیر قانونی کام کرنے کے لئے مجبور کیا؟ اس معاملے کی گہرائی سے تفتیش کرنے پر ہی پوری سچائی سامنے آئےگی۔آخر میں، نسٹرو کھاتوں اور ان کے غلط استعمال کے حال کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ریزرو بینک کو کئی سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ ریزرو بینک نے بینکوں کو بالکل صحیح صلاح دیتے ہوئے ان کھاتوں پر مستعدی کے ساتھ نگرانی رکھنے اور ان کا حل کرنے کی صلاح دی تھی، لیکن وہ یہ یقینی بنانے میں ناکام رہا کہ بینک اس کی صلاح پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کریں اور مضبوط نظام تیار کریں۔
Categories: فکر و نظر