گراؤنڈ رپورٹ : زمینی سچائی یہ ہے کہ جن کسانوں نے کھیت واپسی کے لئے احتجاج کیا آج وہ بھی مایوس ہیں اورجنہوں نے نینو کار فیکٹری کے لئے اپنی مرضی سے زمین دی تھی وہ بھی۔ ان کے لئے سنگور ایسا زخم ہے جو شاید ہی کبھی بھر پائے۔
کولکاتہ شہر سے تقریباً 50 کلومیٹر دور ہگلی ضلع کے سنگور میں چمچماتی نیشنل ہائی وے-2 کے کنارے تقریباً 997 ایکڑ زمین پر کبھی ہریالی کی چادر بچھا کرتی تھی۔وقت نے کروٹ بدلا تو وہاں ٹاٹا کی نینو کار فیکٹری کے لئے کنکریٹ کے جنگل اگ آئے۔ وقت نے ایک اور کروٹ لیا تو کنکریٹ کے جنگل اجڑ گئے۔ اب اس زمین پر نہ ہریالی ہے اور نہ کنکریٹ۔ ہے تو بس اینٹ، پتھر اور جنگلات۔
زمین کی حدبندی کے لئے اس کے بہت چھوٹے سے حصے میں تین چار فٹ لمبے پتھروں کے پِلر جگہ جگہ لگائے گئے ہیں۔صبح میں تقریباً 150 دہاڑی مزدور اینٹ پتھر ہٹانے اور زمین کو برابر کرنے آتے ہیں اور دوپہر کو تھکے ہارے اپنے گھروں میں لوٹ جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد جب زمین پر اداسی پھیل جاتی ہے تو یہ کسی عیسائی قبرستان کی طرح لگتی ہے۔
اس زمین کی طرح ہی زمین دینے والے کسانوں کے چہرے بھی اداس ہیں۔ فیکٹری کے لئے جن کسانوں کی زمین لی گئی تھی، وہ اب مزدور بنکر رہ گئے ہیں۔ کچھ کسان تو اسی زمین میں 180 روپے یومیہپر کام کرتے ہیں اور کچھ دوسروں کے کھیت میں مزدوری کرکے گزر بسر کر رہے ہیں۔
سورج کے سر پر آنے میں ابھی کچھ دیر ہے۔ مزدور زمین کھودکر اینٹ پتھر ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سخت زمین کو کھودنے کے لئے 62 سالہ اردھیندو شیکھر داس کئی بار کدال چلا چکے ہیں، لیکن زمین ہے کہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
وہ تھککر درخت کے سایہ میں آرام کرنے لگے۔ کچھ پل جنگل کی طرف ایک ٹک دیکھتے رہے۔ شاید وہ اپنی زمین کی سرحد یاد کر رہے تھے۔ پھر انہوں نے شرٹ کی جیب سے ایک بیڑی نکالکر سلگا لی۔ دو تین کش لگانے کے بعد وہ واپس مورچے پر ڈٹ گئے۔زمین پر ایک اور ناکام وار کرنے کے بعد وہ رک گئے۔ پاس ہی کدال سے زمین کھود رہے 50 سالہ کالیپد دولئی سے انہوں نے مدد مانگی۔ کالیپد دولئی کدال سے ایک تگڑا وار کرتے ہیں اور مٹی کا ایک بڑا ڈھیلا الگ ہو جاتا ہے۔
اردھیندو شیکھر وہاں سے اینٹ کا ٹکڑا نکالتے ہیں اور اینٹ پتھر کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ توڑنے پھوڑنے کا یہ سلسلہ گھنٹوں چلتا ہے۔گوپال نگر ساناپاڑا کے رہنے والے اردھیندو شیکھر سے ڈھائی بیگھا زمین جبراً ٹاٹا کےنینو کار منصوبہ کے لئے لی گئی تھی۔ انہوں نے زمین واپس پانے کے لئے احتجاج میں حصہ لیا تھا۔اب ان کو لگ رہا ہے کہ زمین پر فیکٹری ہی بن جاتی تو اچھا ہوتا۔ وہ کہتے ہیں، ‘ جوار میں جب کشتی پھنستی ہے تو لگتا ہے کہ بھاٹا آیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ بھاٹا آتا ہے اور کشتی کیچڑ میں رک جاتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ جوار ہی ٹھیک تھا۔ سنگور معاملے پر ہم کسانوں کی ذہنی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ شروع میں ہمیں لگا تھا کہ زمین مل جائےگی تو سب ٹھیک ہو جائےگا لیکن اب لگتا ہے کہ فیکٹری لگ جانا ہی بہتر ہوتا۔ ‘
ٹاٹا گروپ کے رتن ٹاٹا نے 18 مئی 2006 کو اعلان کیا تھا کہ وہ مغربی بنگال کے ہگلی ضلع کے سنگور میں تقریباً 997 ایکڑ زمین پر لکھ ٹکیہ کار فیکٹری بنائیںگے۔ اس وقت مغربی بنگال میں بائیں محاذ کی حکومت تھی اور سی ایم بدّھادیب بھٹّاچاریہ تھے۔
بھٹّاچاریہ نے سنگور کے پانچ گاؤں گوپال نگر، سنگھیربھیری، بیرابیری، کھاسیربھیری اور باجیمیلیا کے 9 ہزار سے زیادہ کسانوں سے تقریباً 997 ایکڑ زمین لینے کی اسکیم تیار کی۔ان میں سے 6 ہزار کسانوں نے زمین دینے کے لئے دستاویز پر دستخط کر دئے۔ باقی کسانوں نے زمین دینے سے انکار کر دیا، اس کے باوجود زبردستی ان کی بھی زمین لے لی گئی۔
ٹاٹا گروپ نے زمین پر کنسٹرکشن شروع کر دیا اور سال 2008 تک لکھ ٹکیہ کار بازار میں اتار دینے کا اعلان کر دیا۔ یہیں سے سنگور سیاست کا ایک بڑا منچ بن گیا۔اس منچ پر ترنمول کانگریس کی سپریمو ممتا بنرجی کی تشریف آوری ہوئی اور انہوں نے ناراض کسانوں کو ساتھ لےکر احتجاج کا آغاز کر دیا۔ بنرجی نے زمین دینے کے غیر خواہش مند کسانوں کی 400 ایکڑ زمین واپسی کی مانگ پر بھوک ہڑتال شروع کر دی جو تین ہفتے سے زیادہ دنوں تک چلی۔ ان کو دوسری پارٹیوں کی بھی حمایت ملی۔
نینو کار فیکٹری قائم کرنے کی بائیں محاذ حکومت کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں۔ آخرکار اکتوبر 2008 میں ٹاٹا گروپ نے نینو فیکٹری بنگال سے گجرات کے سانند میں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا اور اس کے لئے ترنمول کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
سال 2011 کے اسمبلی انتخابات میں بائیں محاذ کی زبردست ہار ہوئی۔ ترنمول کانگریس اقتدار میں آئی اور پارٹی سپریمو ممتا بنرجی ریاست کی وزیراعلیٰ بنیں۔ حکومت میں آنے کے بعد سنگور کے غیرخواہشمندکسانوں کی زمین لوٹانے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے بنرجی نے 22 جون 2012 کو لینڈ رہیبلٹیشن اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ، 2011 بنایا۔اس ایکٹ میں ریاست کی حکومت کو حق تھا کہ وہ 997 ایکڑ زمین اپنے قبضے میں لے سکتی تھی۔ ٹاٹا گروپ نے اس کی مخالفت کی جس کے بعد معاملہ کلکتّہ ہائی کورٹ میں اور پھر بعد میں سپریم کورٹ میں پہنچا۔
31 اگست 2016 کے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے زمین حصول قانون، 1894 کی خلاف ورزی کر کے 997 ایکڑ زمین کسانوں سے لینے کی بات کہی تھی اور 12 ہفتے کے اندر کسانوں کی زمین واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ دن بعد ہی ممتا بنرجی نے سنگور میں ایک عوامی جلسہ منعقد کرکے زمین دینے والے کسانوں کو ان کے کھیت کے مالکانہ حقوقسے جڑے دستاویز سونپ دئے۔
کورٹ کا فیصلہ بھلے ہی ممتا بنرجی کے لئے سیاسی جیت ہو، لیکن زمینی سچائی یہی ہے کہ جن کسانوں نے کھیت واپسی کے لئے احتجاج کیا آج وہ بھی مایوس ہیں اور جنہوں نے فیکٹری کے لئے اپنی مرضی سے زمین دی تھی وہ بھی۔ ان کے لئے سنگور ایسا زخم جو شاید ہی کبھی بھر پائے۔
گوپال نگر کے رہنے والے 52 سالہ سودام سانا نے اپنی خواہش سے نینو فیکٹری کے لئے ایک بیگھا زمین دی تھی۔ ان کو 3 لاکھ روپے کا معاوضہ ملا تھا۔ وہ بھی زمین سے اینٹ پتھر ہٹانے کا کام کر رہے ہیں۔سودام سانا کہتے ہیں، ‘ میں نے سوچا تھا کہ فیکٹری لگےگی تو روزگار ملےگا۔ لیکن ، روزگار کی جگہ مجھے اینٹ پتھر سے بھری زمین ملی۔ ‘ انہوں نے کہا کہ اگر اب بھی فیکٹری لگانے کی اسکیم بنائی جائے، تو وہ زمین دینے کو تیار ہیں۔
گوپال نگر کی طرف جانے والی سڑک کے کنارے چائے کی دکان چلانے والے کرشن پانجا 28 سال کے تھے جب سنگور احتجاج شروع ہوا تھا۔ ان کے والد سے فیکٹری کے لئے زبردستی چھ کٹّھہ کھیت لیا گیا تھا۔وہ کہتے ہیں، ‘ پہلے میں یہیں پر چکن کی دکان چلاتا تھا۔ ان دنوں ٹاٹا کی فیکٹری بن رہی تھی اور میں روز تقریباً 150 کلو چکن بیچ لیتا تھا۔ یہاں خوب گہماگہمی رہتی۔ پانچ چھ ماہ پہلے ہاتھ کی نبض میں درد اکھڑ گیا جس کے بعد سے چائے کی دکان چلا رہا ہوں۔ صبح سے شام تک دکان پر سناٹارہتا ہے۔ اگر یہاں فیکٹری کھلی ہوتی تو سنگور کی صورت ہی بدل جاتی۔ کچھ باہری لوگوں کو یہاں لاکر تحریک چلائی گئی اور ہمیں بربادی کے دہانے پر کھڑا کر دیا گیا۔ ‘
گوپال نگر کے ہی ایک 25 سالہ جوان کونال سی۔ نے کہا، ‘ میں نے آٹھویں تک ہی پڑھائی کی ہے۔ اگر یہاں فیکٹری کھلتی تو میں کوئی دکان ہی کر لیتا۔ لیکن اب وہ جگہ شمشان میں تبدیل ہو گئی ہے اور آگے بھی شمشان ہی رہےگی۔ ‘
مئی 2011 میں جب ممتا بنرجی وزیراعلیٰ بنیں، تو انہوں نے سنگور کے غیرخواہشمند کسانوں کو ہر مہینہ 2 روپے کلو کی در سے 16 کلو چاول اور 2000 روپے دینے کی اسکیم شروع کی، جو اب بھی چل رہی ہے۔اس اسکیم سے کسانوں کو فی الحال تو راحت مل رہی ہے لیکن اس کیمیعاد کو لےکر وہ پریشان ہیں۔ گوپال نگر کے کسان نو کمار کولے کہتے ہیں، ‘ کتنے دنوں تک حکومت یہ سب دےگی؟ جس دن دینا بند کر دیا ہم بھوک مری کے کگار پر پہنچ جائیںگے۔ ‘
ادھر، زمین لوٹانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تقریباً ڈیڑھ سال گزر چکا ہے لیکن زمین کو دوبارہ زرخیز بنانے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی پختہ قدم ابتک نہیں اٹھایا گیا ہے۔ البتہ کچھ کھیتوں سے اینٹ پتھر ہٹایا جا رہا ہے لیکن بڑا حصہ اب بھی یوں ہی پڑا ہوا ہے۔سودام سانا نے کہا، ‘ میرے کھیت میں کنکریٹ کی بڑی بڑی چٹانیں پڑی ہوئی ہیں۔ ان کو ہٹانے کے لئے کرین کی ضرورت پڑےگی۔ میں کہاں سے یہ سب کر پاؤںگا؟ ‘
کھیت سے اینٹ پتھر ہٹانے کا کام مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی ایکٹ کے تحت کرایا جا رہا ہے۔ فی الحال 10 کسانوں کے کھیتوں کی صفائی چل رہی ہے۔ اس کے لئے 447552 روپے مختص کئے گئے ہیں۔گوپال نگر پنچایت کے ممبر دیو پرساد داس نے کہا، ‘ دو مہینے پہلے ہی کام شروع ہوا ہے۔ کھیتوں سے اب بھی راڈ،اینٹ، پتھر نکل رہے ہیں۔ کنکریٹ سے بھری زمین کو واپس زراعت کے لائق بنانا ناممکن سا لگتا ہے۔ زمین کا استعمال اب فیکٹری کے لئے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ‘
ودھانچندر زرعی یونیورسٹی کے ایگرو شعبہ کے صدر ڈاکٹر کاجل سین گپتا کے مطابق، زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر ہی دوبارہ زراعت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ میں نے ایک بار اس پلاٹ کا دورہ کیا ہے۔ وہاں کی 32 سے 35 فیصدی زمین کو زراعت کے لائق بنایا جا سکتا ہے۔ باقی حصے پر زراعت ممکن نہیں ہے۔ ‘
زمین کو زراعت کے لائق بنانے کے لئے ترنمول کانگریس حکومت زراعت کے سائنس داں رتیکانت گھوش کی مدد لے رہی ہے۔رتیکانت گھوش نے بھی کاجل سین گپتا سے اتّفاق رکھتے ہوئے کہا کہ زمین کو زراعت کے لائق بنانا مشکل کام ہے۔ اس کے کچھ حصے کو ہیدو تین سال کی محنت سے زراعت کے لائق بنایا جا سکتا ہے۔
کنسٹرکشن والے 60 ایکڑ زمین کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘ اس حصے کو کسی بھی صورت میں زراعت کے لائق نہیں بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں روڈ اور انڈرگراؤنڈ ڈرینج بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ مذکورہ زمین پر بہتر متبادل صنعت ہی ہوگا۔ ‘
سال 2006 سے لےکر ابتک ایک دہائی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور اس ایک دہائی میں زراعت کو لےکر کسانوں کے نظریے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ کسانوں کے لئے زراعت اب فائدے کا سودا نہیں ہے۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ کبھی زمین واپس پانے کے لئے احتجاج میں حصہ لینے والے کسان بھی اب چاہتے ہیں کہ سنگور میں فیکٹری ہی لگ جائے۔
کسان نو کمار کولے کے پاس دو بیگھا کھیت تھا۔ ان سے زبردستی ایک بیگھا زمین نینو فیکٹری کے لئے لے لی گئی تھی۔ باقی ایک بیگھا زمین پر زراعت کرتے تھے، لیکن زراعت میں اتنی آمدنی نہیں کہ دو شخص کی روٹی کا انتظام ہو جائے۔ انہوں نے اپنی ایک بیگھا زمین لیز پر دے دی اور خود دوسروں کے کھیت میں مزدوری کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ شروع میں جوش تھا کہ زمین ملنے پر زراعت کر لیںگے، لیکن اب زراعت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ کھاد کے ساتھ ہی دیگر چیزوں کے دام میں بےتحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ زراعت خرچیلی ہو گئی ہے جبکہ زراعتی مصنوعات کے دام گھٹ گئے ہیں۔ اب زراعت کی لاگت بھی نکال پانا مشکل ہے۔ ‘
سنگور میں آلو کی زراعت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے کیونکہ یہاں کی زمین آلو کے موافق ہے۔ اس کے ساتھ ہی آلو نقدی فصل بھی ہے۔ کسان لیز پر زمین لےکر آلو کی زراعت کرتے ہیں۔
اس کے باوجود مذکورہ زمین پر اب کسان زراعت کرنے کو تیار نہیں۔ نو کمار کولے کہتے ہیں، ‘ آلو کا مناسب دام نہیں مل پا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اسٹور روم میں آلو کو رکھنے میں جو خرچ آتا ہے، اس کی وصولی بھی مشکل سے ہو رہی ہے۔ ایسے میں بھلا کون زراعت کرنا چاہےگا۔ اچھا تو ہوتا کہ وہاں فیکٹری ہی لگ جاتی۔ ‘
کسان بھلےہی وہاں فیکٹری چاہتے ہیں، لیکن سیاسی حلقوں میں سنگور کو لےکر خاموشی ہے۔ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ صنعت کی بات کر کےحزب مخالف پارٹیاں ‘ کسان مخالف ‘ نہیں بننا چاہتی ہیں۔ ممتا بنرجی کی حکومت سے تو خیر یہ امید بےمعنی ہی ہے کیونکہ ترنمول کانگریس کی جیت کی بنیاد اسی پر ٹکی ہوئی ہے۔
مغربی بنگال کے سماجی کارکن سوجاتا بھدر مانتے ہیں کہ کسان کچھ بھی چاہ لیں، سنگور سیاسی پارٹیوں کے لئے اب ‘ نان ایشو ‘ ہے، اس لئے کوئی بھی پارٹی کسانوں کی آواز نہیں بننا چاہتی۔سوجاتا کہتے ہیں، ‘ اگر کسان چاہتے ہیں کہ وہاں کوئی فیکٹری ہی لگے تو ان کو احتجاج کرنا ہوگا۔ وہ احتجاج کریںگے تو ہی حزب مخالف پارٹیاں ان کے ساتھ آئیںگی۔ ‘
سنگور اصل میں اب سیاسی اکھاڑا بن چکا ہے۔ ممتا بنرجی نے جو داؤ آزماکر بائیں محاذ کو ہرایا تھا، اسی ایک داؤکے سہارے تمام پارٹیاں اپنے حریف کو پچھاڑنا چاہتی ہیں۔ویسے تو تمام سیاسی پارٹیاں کسانوں کیخیر خواہ ہیں، لیکن کسانوں کی آواز کوئی نہیں سن رہی۔ آخر سنے بھی کیسے، نقّارخانہ میں بھلا طوطی کی آواز کوئی سنتا ہے!
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ