خبریں

پٹنہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین:بیلٹ باکس کے ساتھ کھلا الزاموں کا پٹارہ

اس بار اسٹوڈنٹ یونین انتخاب میں اسٹوڈنٹس نے رائے دہندگی میں کھل‌کر حصہ نہیں لیا۔  تقریباً 43 فیصد اسٹوڈنٹس نے ہی ووٹ ڈالے۔  خاص کر طالبات نے بہت کم دلچسپی دکھائی۔  پٹنہ یونیورسٹی اس معنی میں غالباً اکیلی یونیورسٹی ہے جہاں آدھی سے زیادہ تعداد طالبات کی ہے۔

PUSU_RJD-NSUI Campaign

پٹنہ :بہارکی تین سب سے اہم پارٹی راشٹریہ جنتا دل، جنتا دل یونائٹیڈ اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔  ان کے سب سے بڑے رہنما بالترتیب لالو پرساد یادو، نتیش کمار اور سشیل مودی ہیں۔  آج حزب اقتدار اور حزب مخالف کی سیاست کے سرفہرست موجودہ  رہنما پٹنہ یونیورسٹی کی طلبہ سیاست کی پیداوار رہے ہیں۔  اسی پٹنہ یونیورسٹی میں پانچ سال بعد گزشتہ سنیچر کو اسٹوڈنٹ یونین انتخاب یعنی پی یو ایس یو انتخابات ہوئے۔  لیکن یہ انتخاب تنازعات میں آ گیا ہے۔  ایک طرف صدر عہدے پر منتخب سورج بھاردواج کی نامزدگی پر سوال اٹھ رہے ہیں تو دوسری طرف طلبہ تنظیموں کے ذریعے انتخاب میں فراڈ کئے جانے کے الزام لگائے جا رہے ہیں۔

گزشتہ تین دہائی سے زیادہ وقت میں یہ محض دوسرا موقع تھا جب پی یو ایس یو انتخاب ہوئے۔  اس انتخاب میں سینٹرل پینل کے پانچ اہم عہدوں میں سے تین پراکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے شاندار جیت درج کی۔ ساتھ ہی پوسو صدر عہدےکے لئے منتخب ہونے والے سورج بھاردواج بھی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے باغی امیدوار کے بطور ہی انتخاب میں اترے تھے۔  کبھی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے رہنما رہے سشیل مودی نے  انتخابی نتائج کو وطن پرست طاقتوں کی جیت بتایا۔  انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ” پٹنہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے عظیم اتحاد (راجد،کانگریس) اور انتہا پسند خیال کے امیدواروں کو شکست دے کر واضح پیغام دیا کہ وہ بہار کے اس پروقار احاطے کو دہشت گردی اور کشمیر جیسے مدعے پر ملک مخالف نعرے بازی کا منچ نہیں بننے دیں‌گے۔  “

PUSU_ManishShandilya

 اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے علاوہ رکن پارلیامنٹ پپّو یادو کی پارٹی جن ادھیکار پارٹی (لوکتانترک) کی نسبتاً نئی نویلی طلبہ تنظیم جن ادھیکار چھاتر پریشد کی کارکردگی بھی بہتر رہی۔  سینٹرل پینل کے جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر اس تنظیم کے آزاد چاند نے جیت درج کی تو صدر کے عہدے پر تنظیم کے ریاستی صدر گوتم آنند نے سورج بھاردواج کو کڑی ٹکردی۔ ساتھ ہی ودیارتھی پریشد کے چار کاؤنسلر بھی جیتے ہیں۔  غور طلب ہے کہ پپّو یادو نے انتخاب کے ٹھیک پہلے پٹنہ یونیورسٹی کے آس پاس سستا کھانا دستیاب کرانا بھی شروع کیا۔  انہوں نے طالب علموں کو بیس روپیے میں بھر پیٹ کھانا دستیاب کرانے کے لئے پٹنہ کالج کے سامنے ‘ پپو-رنجیت جن آہار کینٹین ‘ کی شروعات کی ہے۔

پٹنہ یونیورسٹی کی دو بڑی کمیونسٹ طلبہ تنظیم، آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن یعنی اے آئی ایس ایف اور آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن یعنی آئیسا نے اس بار کا انتخاب مل‌کر لڑا تھا لیکن سینٹرل پینل میں اس اتحاد کا کوئی امیدوار نہیں جیت پایا۔  جبکہ 2012 میں اٹھائیس سال بعد جب پوسو کا پچھلا انتخاب ہوا تھا تب الگ الگ لڑنے کے باوجود اے آئی ایس ایف نے سینٹرل پینل کے نائب صدر اور جنرل سکریٹری کے عہدے پر جیت درج کی تھی۔   سب سے اہم صدر کے عہدے پر آئیسا بہت سخت مقابلے میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد  سے ہارا تھا۔  ہاں، اس بار اے آئی ایس ایف کے لئے راحت کی بات یہ رہی کہ کاؤنسلر کے کل  23عہدوں میں سے چھ عہدہ اس کے کھاتے میں گئے۔  سب سے زیادہ کاؤنسلر اے آئی ایس ایف کے ہی جیتے ہیں۔

PUSU_2018_MS

سورج بھاردواج پر لگے الزامات پر جن ادھیکار چھاتر پریشد کے ریاستی صدر گوتم آنند کہتے ہیں، ” بھاردواج نے سال 2014 میں پٹنہ یونیورسٹی کے بی این کالج میں شعبہ سیاسیات میں آنرس کی پڑھائی کے لئے داخلہ لیا۔  اس کےامتحان میں ناکام ہونے پر انہوں نے اسی سیشن میں بنا مائگریشن سرٹیفکٹ لئے کسی دیگر یونیورسٹی میں بی اے آنرس میں داخلہ لے لیا۔  اور پھر اس ڈگری کی بنیاد پر پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ پوسٹ گریجویشن میں نامزدگی کرایا۔  ہمارا الزام ہے کہ ایک ہی سیشن میں انہوں نے باقاعدہ طالب علم کے طورپر دو جگہ نامزدگی کیسے کرایا اور پھر ایک ہی یونیورسٹی میں دودو بار رجسٹریشن کیسے ممکن ہو گیا۔  ” گوتمکی تنظیم سمیت کئی دوسری تنظیم بھی غلط طریقے سے نامزدگی کر کے انتخاب لڑنے کو لےکر سورج کے انتخاب کو منسوخ کرنے کی مانگ‌کے رہے ہیں۔

وہیں انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں اے آئی ایس ایف کے ریاستی سکریٹری سشیل کمار کا یہ الزام ہے، ” کاؤنسلر کے انتخاب میں ہماری تنظیم نے سب سے بڑی جیت درج کی لیکن سینٹرل پینل میں ہمارا کوئی امیدوار نہیں جیتا، یہ حقیقت انتخاب میں گڑبڑیوں کی طرف صاف اشارہ کرتی ہے۔  “

وہ آگے کہتے ہیں، ” کئی سطحوں پر چیزیں سامنے آئی ہیں۔  رائے دہندگی کے دوران سیاہی کا استعمال نہیں ہوا جس سے بوگس رائے دہندگی ہوئی۔  اس کے علاوہ بوتھ کیپچرنگ، بغیر آئی کارڈ کے رائے دہندگی کی باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔  بیلٹ باکس پر سیل نہیں لگایا گیا۔  اس کے ساتھ ساتھ ووٹوں کی گنتی کے وقت بھی گڑبڑی ہوئی۔  بوتھ کے مطابق ووٹوں کی گنتی کا اہتمام ہے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔  ہم نے رائے دہندگی سے لےکر ووٹوں کی گنتی تک اس کے خلاف آواز اٹھائی لیکن انتظامیہ کے ذریعے ہمیں دھمکایا گیا۔  چیف انتخابی آفسر نے تو سنیچر کی صبح سے فون کرنے کے بعد بھی جواب تک نہیں دیا۔  “

اے آئی ایس ایف ووٹوں کی گنتی کے بعد سے ہی اسٹوڈنٹ یونین انتخاب کو منسوخ کرنے کی مانگ کے لئے احتجاجی مظاہرہ کر رہا ہے۔  اس مدعے پر اس کی تیاری گورنر سے ملنے سے لےکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے تک کی ہے۔  اے آئی ایس ایف کے علاوہ چھاتر جدیو، چھاتر لوجپا، اے آئی ڈی ایس او سمیت کئی دوسری تنظیم بھی اسٹوڈنٹ یونین انتخاب کو منسوخ کرنے کی مانگ‌کر رہے ہیں۔

PUSU_Office_MS

ان الزامات پر پٹنہ یونیورسٹی کے وی سی پروفیسر راسبہاری سنگھ کہتے ہیں، ” سورج کی نامزدگی سے متعلق الزامات کی تفتیش چل رہی ہے۔  اس کی بنیاد پر صحیح قدم اٹھایا جائے‌گا۔  ” وہیں انتخاب میں ہوئی بے ضابطگی کے الزامات پر ان کا کہنا ہے، ” سبھی الزام غلط ہیں۔  انتخاب کے دوران میں نے خود گھوم گھوم کر دیکھا۔  کوئی گڑبڑی نہیں ہوئی۔  لیکن ہم ہی انتخاب کرائے ہیں تو ہم اس کی کیا تفتیش کریں‌گے۔  ہم پر ہی الزام ہے تو ہم کیسی تفتیش کریں۔  وہ چاہے تو ریاستی حکومت، گورنر یا ہائی کورٹ سے تفتیش کی مانگ‌کر سکتے ہیں۔  “

اس بار اسٹوڈنٹ یونین انتخاب میں اسٹوڈنٹس نے رائے دہندگی میں کھل‌کر حصہ نہیں لیا۔  تقریباً 43 فیصد اسٹوڈنٹس نے ہی ووٹ ڈالے۔  خاص کر طالبات نے بہت کم دلچسپی دکھائی۔  پٹنہ یونیورسٹی اس معنی میں غالباً اکیلی یونیورسٹی ہے جہاں آدھی سے زیادہ تعداد طالبات کی ہے۔  تقریبا بیس ہزار ووٹروں میں صرف دو میہلا کالجوں (پٹنہ ویمینس کالج اور مگدھ میہلا کالج)میں ہی آٹھ ہزار کے قریب ووٹرس ہیں لیکن ان دو کالجوں میں کل ملاکر تقریبا 27 فیصدی ہی رائے دہندگی ہوئی۔  انتخاب میں خاتون امیدواروں کی حصہ داری بھی کم دیکھی گئی۔  154 امّیدواروں  میں صرف 35 طالبات ہی انتخابی میدان میں تھیں۔