اطالوی دارالحکومت میں پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے خلاف سینکڑوں مسیحیوں نے ایک بڑے احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا، جس میں پاکستان میں اسی قانون کے تحت زیر حراست مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اٹلی کے دارالحکومت روم سے اتوار پچیس فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس شہر میں یہ احتجاجی مظاہرہ ہفتہ چوبیس فروری کو رات دیر گئے تک کیا گیا، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی اور غیر ملکی مسیحی باشندوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر روم شہر کا ’کولوسیئم‘ نامی تاریخی ایمفی تھیٹر علامتی طور پر قریب پانچ گھنٹوں کے لیے سرخ روشنی میں ڈوبا رہا اور مسلسل بارش کے باوجود مظاہرین کئی گھنٹوں تک ’کولوسیئم‘ کے سامنے موجود رہے۔ اس جگہ کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ ایک عقیدے کے طور پر مسیحیت کے ابتدائی دور میں روم شہر میں یہی ایمفی تھیٹر مسیحی باشندوں کی ان کے مذہب کی وجہ سے ہلاکتوں کی علامت بن گیا تھا۔
بنیادی طور پر اس احتجاجی مظاہرے کا اہتمام دنیا بھر میں ظلم و ستم اور تعاقب کے شکار ان مسیحیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا، جن کی تعداد کیتھولک کلیسا کی اعلیٰ شخصیات کے مطابق قریب 200 ملین بنتی ہے۔روئٹرز کے مطابق عملی طور پر یہ اجتماع پاکستان میں توہین مذہب کے اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کر گیا، جس پر کئی پاکستانی اور غیر ملکی حلقوں کی طرف سے اسے متنازعہ قرار دے کر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
اس مظاہرے کی خاص بات اس میں پاکستان سے آسیہ بی بی کے شوہر اور بیٹی کی شرکت تھی، جنہوں نے شرکاء سے خطاب بھی کیا۔ آسیہ بی بی ایک ایسی پاکستانی مسیحی خاتون ہیں، جنہیں توہین مذہب کے خلاف ملکی قانون کے تحت 2010ء میں ایک عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔گزشتہ کئی برسوں سے جیل میں بند اس پاکستانی شہری کے خلاف توہین اسلام کا الزام ان کے چند ہمسایوں نے لگایا تھا۔ آسیہ بی بی ان متعدد اقلیتی شہریوں میں سے ایک ہیں، جنہیں پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت تو سنائی جا چکی ہے لیکن جن کی سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور کئی دیگر اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے اس قانون کو شدت پسند حلقوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت اکثر کسی کے ساتھ بھی اپنی ذاتی دشمنی یا اختلافات کا بدلہ لینے کے لیے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ ایسے متاثرین میں صرف پاکستانی غیر مسلم اقلیتوں کے ارکان ہی نہیں ہوتے بلکہ کئی واقعات میں اس قانون کا غلط استعمال مقامی مسلم اکثریت سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے خلاف بھی دیکھا گیا ہے۔
اس احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اطالوی بشپس کانفرنس کے سیکرٹری جنرل آرچ بشپ نُنزیو گالانتینو نے کہا، ’’توہین مذہب سے متعلق قوانین کا مقصد ان لوگوں کو نشانہ بنانا ہے، جو مختلف عقائد رکھتے ہیں۔‘‘ آرچ بشپ گالانتینو کا کہنا تھا، ’’اس قانون میں توہین مذہب کی تعریف بھی نہیں کی گئی اور لوگ عدالتوں میں شواہد پیش کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ اس کے علاوہ توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے پر کوئی سزائیں بھی نہیں سنائی جاتیں۔‘‘
آسیہ بی بی کے خلاف مقدمے اور انہیں سنائی جانے والی سزا کو اس لیے بھی بہت زیادہ بین الاقوامی توجہ مل چکی ہے کہ اب تک اس پاکستانی خاتون کے حق میں بولنے والے دو سیاستدانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے ایک صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر تھے اور دوسرے ایک مسیحی وزیر شہباز بھٹی۔روم میں ’کولوسیئم‘ کے سامنے اس اجتماع سے آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح اور ان کی بیٹی نے بھی خطاب کیا۔ عاشق مسیح نے کہا کہ ان کی اہلیہ توہین مذہب کی کسی بھی طرح مرتکب نہیں ہوئی تھیں اور ان کے خلاف الزامات ’محض اس وجہ سے نفرت کا نتیجہ تھے کہ مسیحیوں کو ناپاک سمجھا جاتا ہے‘۔
اسی طرح آسیہ بی بی کی بیٹی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا، جس دوران وہ جذبات سے مغلوب ہو کر رونے بھی لگی تھیں۔ اس اجتماع میں شرکت سے قبل کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے عاشق مسیح اور ان کی بیٹی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں پاپائے روم نے آسیہ بی بی کی بیٹی سے کہا تھا، ’’میں اکثر تمہاری والدہ کے بارے میں سوچتا ہوں اور ان کے لیے دعا کرتا ہوں۔‘‘
اس مظاہرے کے شرکاء سے نائجیریا کی ایک مسیحی خاتون ریبیکا بطرس نے بھی خطاب کیا، جنہیں بوکو حرام کے مسلمان عسکریت پسندوں نے اغوا کر کے قریب دو سال تک اپنے قبضے میں رکھا تھا۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ انہیں بوکو حرام کی حراست میں بار بار پیٹا اور ریپ کیا گیا تھا۔
Categories: خبریں, عالمی خبریں