جدیدکاری کے نام پر ریلوے اسٹیشنوں کو نجی کمپنیوں کو سونپنے کی پوری تیاری ہے، لیکن ملک کے پہلے نام نہاد ماڈل اسٹیشن کے شروعاتی تجربے عام ریل مسافروں کے لئے ڈرانے والے ہیں۔
تصور کیجئے کہ آپ نے اپنی موٹرسائیکل ریلوے اسٹیشن پر پارک کی ہے اور جب واپس آتے ہیں تو دو دنوں کے پارکنگ چارج کی صورت میں آپ کو60روپے کی جگہ 480 روپے کا بل تھما دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں بھوپال کے حبیب گنج ریلوے اسٹیشن پر مسافروں نے اپنے آپ کو اسی حالت میں پایا جس کے بعد پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکنی ہی تھی۔
دراصل بنسل پگڈنڈی حبیب گنج پرائیویٹ لمیٹڈ نے حبیب گنج اسٹیشن پر پارکنگ فیس کئی گنا بڑھا دی تھی۔ اچانک اس طرح سے ریٹ بڑھنے سے کافی تنازعہ ہوا اور شہریوں کی طرف سے اس کی کڑی مخالفت کی گئی۔
عوامی طور پر سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والاہندوستانی ریلوے اس پورے معاملے میں بہت بیچارا نظر آیا۔ اس کے افسر بس یہی کہہ پا رہے تھے کہ پرائیویٹ کانٹریکٹر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ملی طاقتوں کا غلط استعمال کر رہا ہے۔
پہلے تو ریلوے کے افسروں کی مداخلت کے باوجود کمپنی نے پارکنگ چارج گھٹانے سے صاف انکار کر دیا حالانکہ بعد میں اس میں تھوڑی کمی کر دی گئی لیکن پارکنگ فیس ابھی بھی پہلے کے مقابلے 10 گنا زیادہ ہے۔
اوپر سے کمپنی کے افسروں کی طرف سے یہ صاف کر دیا گیا ہے کہ بڑھی ہوئی پارکنگ فیس میں جتنی کمی ہو سکتی تھی کر دی گئی ہے اب اور کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔دراصل 1 فروری سے کمپنی نے جس طرح سے پارکنگ فیس بڑھائی تھی وہ عام آدمی کے لئے پریشان کن ہے۔ اضافہ کے تحت دو پہیہ گاڑیوں کے لئے ماہوار پاس کی فیس 5000 روپے اور چار پہیہ گاڑیوں کے لئے 16000 روپے کر دی گئی تھی۔
اسی طرح سے دو گھنٹے کے لئے دوپہیہ گاڑی کھڑا کرنے پر 5 روپے کی جگہ 15 روپے اور چارپہیہ گاڑی کےلئے10 کی جگہ 40 روپے کر دی گئی تھی۔ یہی نہیں ہر دو گھنٹے بعد چارج بڑھتا جائےگا اور اس طرح سے 24 گھنٹے کے لئے دو پہیہ گاڑی کا چارج 235 روپے اور چارپہیہ کا چارج 590 روپےکر دیا گیا تھا۔
اسی کے ساتھ ہی پارکنگ میں یہ اطلاع بھی لگا دی گئی کہ پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کی حفاظت کے لئے کمپنی ذمہ دار نہیں ہے اور پارکنگ کے دوران گاڑی میں کوئی ڈینٹ آنے پر، کوئی سامان چوری ہونے پر کمپنی جوابدہ نہیں ہوگی۔
مخالفت کے بعد اس میں کمی کی گئی ہے لیکن ابھی بھی ریٹ سر چکرا دینے والا ہے، اب دو پہیہ گاڑیوں کے لئے ماہانہ پاس فیس 4000 روپے مہینہ اور چارپہیہ گاڑیوں کے لئے 12000 روپے مہینہ کر دی گئی ہے۔
اسی طرح سے حبیب گنج اسٹیشن پر اب دو پہیہ گاڑی کے لئے ایک دن کا پارکنگ چارج 175 روپے اور چار پہیہ گاڑیوں کے لئے 460 روپے چکانے ہوںگے۔حبیب گنج پہلے سے ہی آئی ایس او سے تصدیق شدہ ریلوے اسٹیشن ہے لیکن گزشتہ سال مارچ میں حکومت کے ذریعے اس کی بازکاری اور جدیدکاری کا فیصلہ کیا گیا۔ ریلوے اسٹیشن کو جدید بنانے کے لئے بنسل گروپ کو ٹھیکہ دیا گیا اور اس طرح سے انڈین ریلوے اسٹیشن ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (آئی آر ایس ڈی سی) اور بنسل گروپ کے درمیان سمجھوتہ پر دستخط کے بعد سے یہ ملک کا پہلا پرائیویٹ ریلوے اسٹیشن بن گیا ہے۔
سمجھوتہ کے تحت ریلوے نے اپنے آپ کو صرف گاڑیوں کوآپریٹ کرنے تک ہی محدود کر لیا ہے جبکہ کمپنی اسٹیشن کو آپریٹ کرےگی جس میں اسٹیشن پر پارکنگ، کھان پان وغیرہ کا اختیار تو کمپنی کے پاس رہےگا ہی اس کے علاوہ کمپنی اسٹیشن پر ایسکیلیٹر، شاپنگ کے لئے دکانیں، فوڈ کورٹ اور دیگر سہولیات کی توسیع بھی کرےگی۔
اس سے پہلے بھی کمپنی کا ایک اور کارنامہ سامنے آ چکا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں بھوپال کے اخباروں میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس کے مطابق بنسل پگڈنڈی حبیب گنج لمیٹڈ کے ذریعے حبیب گنج اسٹیشن احاطے میں کمرشیل کامپلیکس کے بیس مینٹ تعمیر کرنے کے لئے منظوری سے زیادہ کھدائی کی جا رہی تھی۔
اس معاملے میں شکایت درج کرنے پر معدنیات محکمے کے ذریعے تفتیش کی گئی تو معلوم ہواکہ کمپنی کے پاس 2 ہزار اسکوائر فٹ کی کھدائی کی منظور ی کے مقابلے میں 10گنازیادہ کھدائی کی گئی تھی۔ یہی نہیں اس کھدائی سے نکلے معدنیات کو بعد میں ریلوے کے تعمیری کام میں استعمال کرنا تھا لیکن اس کو بازار میں بیچا جا رہا ہے۔
پچھلی ڈیڑھ صدی کے دوران ریلوے نے ہندوستانیوں کے موبیلٹی میں انقلابی تبدیلی لانے کا کام کیا ہے۔ ایک طرح سے یہ ہمارے قومی اتحاد کی سب سے بڑی علامت ہے۔ریلوے نے اس عظیم ملک کی مختلف ریاستوں، لوگوں، مقامات کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ ریل عام ہندوستانیوں کی سواری ہے۔ عوام کا ایک بڑا حصہ اسے استعمال کرتا ہے۔ یہ دوسری سواریوں کے مقابلے میں کفایتی بھی ہے۔ آج قریب ڈھائی کروڑ لوگ روزانہ ٹرینوں سے سفر کرتے ہیں جو کہ ریلوے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
یہ ماحولیات کی حفاظت کرتی ہے۔ ساتھ ہی لاکھوں لوگوں کو نوکری دینے کا کام بھی کرتی ہے۔ ریل ہمارے لئے آمدورفت کا خاص ذریعہ تو ہےہی، ساتھ ہی یہ ہمارے جذبات سے بھی جڑا رہا ہے۔
نسلوں سے یہ ہماری زندگی کا ایک ضروری حصہ بن چکی ہے۔ ہم سب کے پاس ریل سے جڑی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہے لیکن حبیب گنج کے شروعاتی تجربے بتاتے ہیں کہ ریلوے کی نجی کاری کے اثرات کافی وسیع ہوں گے۔
اسے دیکھ ،سنکر چھتیس گڑھ کے شیوناتھ ندی کی کہانی یاد آ گئی۔ 1998 میں اس کی نجی کاری کر دی گئی تھی جس کے بعد ندی پر صدیوں سے چلا آ رہا عمومی حق بھی ختم ہو گیا تھا۔حبیب گنج جنکشن کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ اسٹیشن کو آپریٹ کرنے کا کام ایک ذاتی کمپنی کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد اس پر سے بھی عمومی حق ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ کہانی محض حبیب گنج تک محدود نہیں رہنے والی ہے۔
مودی حکومت ہندوستانی ریلوے کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا ذاتی مداخلت کرنے کی تیاری میں نظر آرہی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی جدیدکاری اور وہاں پر عالمی سطح کی سہولیات کے نام پر 23 دوسرے اسٹیشنوں کو نجی کمپنیوں کو سونپنے کی پوری تیاری ہے۔
اس کے اگلے مرحلے کا منصوبہ ملک کے 400 ریلوے اسٹیشنوں کو عوامی و ذاتی شراکت داری کے تحت عالمی سطح کا بنانے کا ہے۔ ملک کے اس پہلے نام نہاد ماڈل اسٹیشن کے شروعاتی تجربے، عام ریل مسافروں کے لئے ڈرانے والے ہیں۔ حبیب گنج ریلوے اسٹیشن کو ورلڈ کلاس بننے میں ابھی وقت ہے۔
کام بھی شروعاتی دور میں ہی ہے لیکن کمپنی کے ذریعے پارکنگ ریٹ کو کئی گنا بڑھا دیا جانا ہی ظاہر کرتا ہے کہ ان کا پورا فوکس منافع پر ہے، انھیں مسافروں کی سہولت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
حبیب گنج کا تجربہ بتاتا ہے کہ ریلوے کی کسی بھی طرح کی نجی کاری کروڑوں مسافروں کے لئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ عام آدمی کے لئے ریلوے جیسا قابلِ رسائی ذریعہ ان کے ہاتھ سے باہر نکل جائےگا۔ حبیب گنج جنکشن کے پرائیویٹ لمیٹڈ بننے کا فائدہ صرف ایک کمپنی کو ہوگا لیکن اس کا خمیازہ لاکھوں مسافروں کو اٹھانا پڑےگا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی اور سماجی کارکن ہیں)
Categories: فکر و نظر