خبریں

کسانوں کے مقابلے بڑے کاروباریوں پر نوگنا زیادہ این پی اے : آر ٹی آئی

آر ٹی آئی کے تحت ملی جانکاری کے مطابق، کسانوں کا این پی اے 66176 کروڑ ہے، تو صنعتوں کا این پی اے 567148 کروڑ روپے ہے۔  کل این پی اے میں نجی بینکوں کے مقابلے سرکاری بینکوں کا این پی اے آٹھ گنا زیادہ ہے۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

نئی دہلی :ایک طرف ملک کا کسان قرض سے بےحال ہے، تو دوسری طرف صنعت کاروں کی قرض سے ہی پو بارہ ہو رہی ہے۔  وجئے مالیہ اور نیرو مودی جیسے صنعت کار بینک سے ہزاروں کروڑوں کا قرض لےکر فرار ہو جاتے ہیں، وہیں چھوٹا قرض لےکر کسان خودکشی تک کرنے کو مجبور ہو جاتے ہیں۔

ایک طرف جہاں کسان بینک کا قرض نہ چکانے کی وجہ سے  خودکشی کرنے کو مجبور ہے تو دوسری طرف ملک کے بڑےبڑے صنعت کار بینکوں سے لیے لاکھوں کروڑ کا قرض ڈکارے بیٹھے ہیں۔ آر ٹی آئی  کے تحت حاصل جانکاری سے انکشاف ہوا ہے کہ بینکوں کا این پی اے کسانوں کے مقابلے صنعت کاروں پر 9 گنا زیادہ ہے۔

خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ‘ ملک کے کسانوں کا جی این پی اے  66176 کروڑ ہے، تو صنعتوں کا این پی اے 567148 کروڑ ہے۔  ملک کے مکمل این پی اے (جی این پی اے) پر نظر دوڑائیں، تو یہ 776067 کروڑ روپے ہے۔  اس میں سے 689806 کروڑ روپےسرکاری بینکوں کے ہیں، تو 86281 کروڑ روپےنجی بینکوں کے ہیں۔  اس طرح نجی بینکوں کے مقابلے سرکاری بینکوں کا این پی اے آٹھ گنا سے زیادہ ہے۔

مدھیہ پردیش کے نیمچ باشندہ سماجی کارکن چندرشیکھر گور نے آر ٹی آئی  کے تحت جو جانکاری حاصل کی ہے، وہ اس بات کا انکشاف کرتی ہے کہ کسانوں اور زراعت سے جڑے لوگوں کا این پی اے کل جمع 66176 کروڑ ہے۔اس میں سے عوامی بینکوں کا این پی اے 59177 کروڑ اور نجی بینکوں کا 6999 کروڑ روپے ہے۔  کسانوں اور زراعت کے کام سے جڑے لوگوں کے این پی اے کے مقابلے صنعتی دنیا کا جی این پی اے 567148 کروڑ روپے ہے۔  اس میں سے سرکاری بینکوں کا 512359 کروڑ اور نجی بینکوں کا 54789 کروڑ روپے ہے۔

انڈین ریزرو بینک سے حاصل جانکاری کے مطابق، سروس سیکٹر کا این پی اے 100128 کروڑ روپے ہے۔  اس میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کا 83856 اور نجی بینکوں کا 16272 کروڑ روپے ہے۔

غور طلب ہے کہ این پی اے وہ رقم ہوتی ہے جس کی وصولی بینکوں کے لئے آسان نہیں ہوتی ہے۔  ایک حساب سے یہ ڈوبتے کھاتے کی رقم کے زمرہ میں آتی ہے۔  اس رقم کو بینک رائٹ آف کرکے اپنے بیلینس شیٹ کو صاف ستھرا کر سکتا ہے۔  گزشتہ پانچ سالوں میں بینکوں نے 367765 کروڑ روپے کی رقم آپسی سمجھوتے کے تحت ڈوبتے کھاتے میں ڈالی ہے۔

بینک کے جان کار بتاتے ہیں کہ بینکوں کی خستہ حالی کی  ایک وجہ این پی اے ہے، تو دوسرا دیرینہ قرض ہے۔  بینک کے ذریعے جو رقم ڈوبتے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے، وہ عامصارف کے ہی کھاتوں سے وصول کی جاتی ہے۔  این پی اے سیدھے طور پر وہ رقم ہے، جو بینک وصول کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔

واضح ہو کہ یہ جانکاری تب سامنے آئی ہے، جب پنجاب نیشنل بینک گھوٹالے میں صنعت کار نیرو مودی بینک کا 11000 کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض بنا چکائے ملک سےبھاگ گئے ہیں۔