فکر و نظر

گھوٹالوں پر سرکاری بینکوں کی ہی اجارہ داری نہیں 

پبلک سیکٹرکے بینکوں کو نجی ہاتھوں میں دینے سے مسئلہ ختم ہو جائے‌گا، ایسا سوچنا جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

Photo: PTI

Photo: PTI

1995 میں 200 سال سے زیادہ پرانےبرٹش انوسٹمنٹ بینک بیئرنگس کی زندگی سنگاپور کے ایک بدعنوان کاروباری نک لیسن کی وجہ سے ختم ہو گئی۔  بینک کو غیر قانونی کاروبار میں 1.3 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔2008 میں، ایک اہم فرانسیسی بینک سوسائٹے جینرالے کو ایک کاروباری کے ذریعے غیرقانونی طریقے سے رکھے گئے مالی کاغذات کی وجہ سے 5 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔  2011 میں سوئٹزرلینڈ کے بینک یو بی ایس کو ایک بےایمان کاروباری کی وجہ سے 2 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔

ان بینکوں میں مشترک کیا تھا؟  ان بینکوں کو مشترکہ نظام میں باندھنے والی چیز ذاتی ملکیت ہے۔  سرکاری ملکیت والے پنجاب نیشنل بینک میں ہوا 1.77 ارب امریکی ڈالر کا گھوٹالہ کافی بڑا ہے اور یہ فکر کا موضوع ہے۔لیکن، اگر فرضی واڑا کا شکار ہونے والے بینکوں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے، تو پنجاب نیشنل بینک دنیا بھر کے سب سے ترقی یافتہ بینکوں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔سڑک حادثوں اور ہوائی جہاز حادثات کی طرح بینک فرضی واڑا کو ٹالا نہیں جا سکتا ہے۔  کہا جا سکتا ہے کہ ان کاروباروں کو کرتے وقت یہ قیمت چکانے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ایسے میں زندہ بچے رہنے کے لئے ضروری ہے کہ فرضی واڑا کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم رکھا جائے۔

کسی بینکنگ فرضی واڑا میں بینک کے کچھ ملازمین یا باہری لوگوں یا ان دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے بینک کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔  اکثر (ہمیشہ نہیں)، فرضی واڑے کا تعلق قرضے یا  خطرناک ساکھ کی منظوری سے ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ این پی اےکے طور پر نکلتا ہے۔  چونکہ انڈین  بینکنگ نظام میں آج زیادہ تر این پی اے پبلک سیکٹر کےبینکوں کا ہے، اس لئے ایسا نظریہ بن گیا ہے کہ یہ پبلک سیکٹرکے بینکوں میں پہاڑ جیسے گھوٹالے کا ثبوت ہے۔لیکن، سارے این پی اے کو فرضی واڑا یا خراب نیت سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے۔  اس بات کے ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے 2016-17 کا اکانومک سروے ہے، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ انڈین بینکنگ نظام میں این پی اے کے مسئلہ کی وجہ ترجیحی طور پر بینکنگ نظام کے کنٹرول سے باہر ہے۔

چونکہ این پی اے کی وجہ سے پبلک سیکٹر کے بینکوں کو کافی زیادہ تنقید کا شکار ہونا پڑا ہے، اس لئے یہاں اس معاملے میں سروے کے نتائج  کو دہرانا فائدےمند ہوگا :اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے معاملے ہیں، جن میں قرض ادائیگی کا مسئلہ فنڈوں کی ہیراپھیری کی وجہ سے کھڑا ہوا ہے۔  لیکن، اس مسئلہ کا ایک بڑا حصہ اقتصادی ماحول میں پہلے سے نہ سوچی گئی تبدیلیوں :ٹائم ٹیبل،ایکسچنج ریٹ، ترقی کی پیش گوئی کے غلط ثابت ہونے وغیرہ کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔

ایسے میں یہ کہنا پوری طرح سے صحیح نہیں ہے کہ پبلک سیکٹر کےبینکوں کے سر پر بھاری بھرکم این پی اے  کا جو پہاڑ لدا ہے، اس کے پیچھے سیاسی مداخلت اور نااہل انتظامیہ کے میل کا ہاتھ ہے۔بس ایک موازنہ سے اس بات کو اور بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے : ملک کے سب سے بڑے بینک، انڈین اسٹیٹ بینک کے کل قرضوں میں این پی اے کا حصہ 31 دسمبر، 2017 کو ختم ہوئی سہ ماہی میں 10.35 فیصد تھا۔  یہ اعداد و شمار سارے ایسوسی ایٹ بینکوں کے انڈین اسٹیٹ بینک میں انضمام کے بعد کا ہے، جبکہ ان میں سے کچھ بینک کمزور حالت میں تھے۔

Photo: Reuters

Photo: Reuters

ملک کے دوسرے سب سے بڑے بینک، پرائیویٹ سیکٹر کے آئی سی آئی سی آئی بینک میں اسی تاریخ کو کل این پی اے 7.82 فیصد تھا۔  یعنی انڈین  اسٹیٹ بینک سے صرف دو فیصد پوائنٹ کم۔  لیکن پھر بھی کسی نے آئی سی آئی سی آئی میں سیاسی مداخلت یا نااہل انتظامیہ  پر الزام نہیں لگایا ہے۔بینکنگ گھوٹالوں کا تعلق صرف قرض سے نہیں ہے۔  ان کا تعلق آپریشنل رسک سے بھی ہو سکتا ہے، جس میں ملازمین یا باہری لوگوں کے ذریعے انتظامات یا کام کے نظام کو تباہ کیا جانا شامل ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی آدمی بینک کے آئی ٹی نظام کو ہیک کر لے اور گراہک کے کھاتے سے فنڈ منتقل کر دے، تو بینکوں کو اس نقصان کی بھرپائی کرنی پڑے‌گی۔اس مضمون کی شروعات میں ہم نے جن گھوٹالوں کا ذکر کیا، وہ سب اسی خطرہ سے متعلق تھے۔  ابھی تک جو باتیں سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق پی این بی میں ہوا فرضی واڑا بھی آپریشنل رسک سے جڑا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ پی این بی کے کسی ملازم نے بینک میں سوفٹ (society for worldwide interbank financial telecommunication) میسیجنگ سسٹم کا استعمال غیر قانونی اقرارنامہ (لیٹرس آف انڈرٹیکنگ) (ایل او یو) کو جاری کرنے کے لئے کیا۔

یہ اقرارنامہ نیرو مودی گروپ کی مختلف کمپنیوں کے لئے گارنٹی کی شکل میں تھے۔  اقرارنامہ یا ایل او یو عام طور پر مقامی سطح پر کسی کمپنی کے ذریعے جمع کرائے گئے نقد کے عوض میں جاری کئے جاتے ہیں۔اس کے بعد غیرملکی برانچ یا اس فرم کے مددگاروں کے ذریعے ان اقرار ناموں کا استعمال غیر ممالک میں بینکوں سے کم مدت کا قرض لینے کے لئے کیا جاتا ہے۔  جیسی جانکاری مل رہی ہے، پی این بی میں ملازمین‎ نے مبینہ طور پر 365 دنوں کے لئے یہ ایل او یو جاری کئے۔

میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق، یہ فرضی واڑا ملازم کی سبکدوشی کے بعد سامنے آیا جب اس کی جگہ لینے والے افسر نے ضروری نقد جمع کرائے بنا ایل او یو جاری کرنے سے انکار کر دیا۔چونکہ یہ اقرارنامہ پچھلے قریب سات سال سے جاری کئے اور استعمال میں لائے جا رہے تھے، اس لئے ایسا اندازہ لگایا سکتا ہے کہ نیرو مودی کی کمپنیاں طے وقت پربازادائیگی کر رہی تھیں۔

ایسا نہیں ہوتا، تو ان اقرارناموں کی تجدیدکاری نہیں کی جاتی۔  نیرو مودی نے پی این بی کو لکھے اپنے خط میں، جو اب عوامی طور پر دستیاب ہے، کہا ہے کہ وہ اس پر بقایہ ساری دین داریوں کو پورا کرنے کی حالت میں تھا لیکن اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنے اور اس کے کام کاج کو روک دینے سے اب اس کے لئے ایسا کر پانا ناممکن ہو گیا ہے۔کیا 11700 کروڑ روپے کے بقائے میں سے جتنا ممکن ہو سکے، وصول کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تھی؟  یا پھر اس فرضی واڑا کا انکشاف ہونے کے بعد پی این بی انتظامیہ کے پاس قانونی نافذکرنے والی  ایجنسیوں کو اس کے بارے میں اطلاع دینے کے علاوہ اور کوئی چارا نہیں رہ گیا تھا۔  یہ کچھ ایسے سوال ہیں، جو جواب مانگتے ہیں۔

Photo: PTI

Photo: PTI

ہمیں تمام بینکوں پر نیرو مودی کی دین داری اور گروپ سے ضبط کی گئی جائیدادوں کی قیمت کے بارے میں بھی پوری جانکاری کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں یہ پتا چل سکے کہ آخر بینکوں پر کتنے نقصان کی تلوار لٹک رہی ہے۔انڈین  ریزرو بینک کو ہرسال بینک فرضی واڑا سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں جانکاری دستیاب کرانی چاہیے۔ایسا کرنے کے لئے مناسب پیمانے کا استعمال کرنا چاہیے۔  مثلاً، سود سے ہونے والی کل آمدنی یا لین دین کے کل قیمت کے تناسب میں ان نقصانات کو ظاہر کرنا چاہیے۔  اس سے ہر بار نظام میں فرضی واڑا سے جنم لینے والی دہشت اور افراتفری کی حالت نہیں بنے‌گی۔

کسی فرضی واڑا کے اجاگر ہونے سے بینکوں کو انتظام اور کام کے نظام سے متعلق خامیوں کا پتا چلتا ہے۔پی این بی کے معاملے میں سوفٹ سسٹم اور کور بینکنگ سسٹم کو آپس میں جوڑنے میں ہوئی دیری کو نشان زد کیا گیا ہے۔  لیکن، کسی بھی صورت میں یہ واحد چوک نہیں ہے۔  نیرو مودی گروپ کو بڑی تعداد میں جاری کئے گئے اقرارنامہ سے خاص شاخوں کی فیس سے ہونے والی آمدنی بڑھ چانی چاہیے تھی۔پی این بی انتظامیہ کو اس بات کی تفتیش کرنی چاہیے تھی کہ آخر یہ تبدیلی آئی کیسے ہے؟  یہ بات اندرونی اور قانونی آڈیٹروں، دونوں پر نافذ ہوتی ہے۔  پرفارمنس میں اچانک ہوئی ڈرامائی اصلاح سوال پیدا کرتےہیں۔

نک لیسن کے معاملے میں ایسا کر سکنے میں ناکامی بیئرنگس کے زوال کا سبب بنی۔  پی این بی کے معاملے میں انتظامیہ اور آڈیٹروں کی چوک سب کے سامنے ہے۔حکومت نے نگرانی سے متعلق چوک کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا کی طرف انگلی اٹھانے میں دیری نہیں کی۔ انڈین  ریزرو بینک کے جائزہ رپورٹوں کے جان کار  ان رپورٹوں کے اعلیٰ معیار کی گواہی دیں‌گے۔ان میں اکثر ایسے معاملوں کو اٹھایا جاتا ہے، جو انتظامیہ اور بورڈ دونوں کی نگاہوں سے بھی چھوٹ گئے ہوتے ہیں۔  یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ریزرو بینک کے کاموں میں فرضی واڑا کا پتا لگانا بھی شامل ہے؟عام طریقہ  یہی ہے کہ بینک ریزرو بینک کو فرضی واڑا کی جانکاری دیتے ہیں، جس کے بعد ریزرو بینک حرکت میں آتا ہے۔  حکومت کو ذمہ داری لینے سے بچنے کی عجلت میں چوک کا ٹھیکرا ریزرو بینک پر پھوڑنے کی لالچ سے بچنا چاہیے۔

گھوٹالے قوانین و قواعد اور ضوابط کی خلاف ورزی کا ایک روپ ہیں۔  ان خلاف ورزیوں میں کچھ ملازمین کا ہاتھ ہوتا ہے، جن کے بارے میں اعلیٰ انتظامیہ کو جانکاری نہیں ہوتی ہے۔دوسری مثال بھی ہیں جب خود بینک ہی قوانین و قواعد اور ضوابط کو توڑتے ہیں، جس کا خمیازہ گراہکوں،شیئر ہولڈر اور کبھی کبھی ٹیکس دہندگان کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔  یہ اعلیٰ انتظامیہ کی جانکاری میں ہوتاہے۔غیر ممالک میں نجی بینکوں میں ایسی خلاف ورزی کی لمبی اور ڈرانے والی فہرست ہے۔  ان میں لبار جعل سازی (لبار یعنی لندن انٹر بینک آفرڈ ریٹ، جس کا استعمال دنیا بھر میں مختلف قرضوں پر سود کی شرح کے حساب کے لئے بینچ مارک کے طور پر ہوتا ہے)، لین دین شرحوں میں ہیراپھیری، منی لانڈرنگ، پابندیوں کی تعمیل نہیں کرنا، وغیرہ شامل ہیں۔

حال کے سالوں میں بینکوں کو ان خلاف ورزی کے حرجانہ کے طور پر 200 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ بھرنا پڑا ہے۔  بینکنگ کی دنیا میں کافی عزت کے ساتھ لئے جانے والے نام ویلس فارگو پر گراہکوں کی اجازت کے بغیر ان کے نام پر لاکھوں کھاتے کھولنے کا الزام تھا۔

PTI2_15_2018_000057B

PTI2_15_2018_000057B

امید کے مطابق ہی پی این بی کے گھوٹالہ نے پبلک سیکٹر کے  بینکوں کی نجی کاری کی مخالفت میں ایک زبردست ماحول بنانے کا کام کیا ہے۔ویسے، یہ ہندوستان میں کام کرنے والے  کاروباری مفادات، عالمی ایجنسیوں اور میڈیا کے ایجنڈے میں کافی وقت سے رہا ہے، لیکن کوئی بھی حکومت ان دباؤ کے سامنے نہیں جھکی ہے۔لیکن، پبلک سیکٹر بینکوں کے ری کیپٹلائزیشن کے ساتھ جڑی مانگ کو دیکھتے ہوئے یہ امکان کافی مضبوط ہے کہ موجودہ حکومت کم سے کم کچھ کمزور پبلک سیکٹر کے بینکوں کی نجی کاری کرنے کی کوشش کرے‌گی۔

اگر 2019 میں بھی یہ حکومت اقتدار میں واپس آتی ہے، تو اس بات کا زیادہ امکان رہے‌گا۔  چیف اکانومک صلاح کار نے بار بار پبلک سیکٹر کے بینکوں کے رول  کو گھٹانے کو لےکر حکومت کی منشا کو ظاہر کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پی این بی جیسا معاملہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے۔دلیل دی جا رہی ہے کہ پبلک سیکٹر کے بینکوں میں منتظمین کو اچھا کرنے کے لئے کوئی ترغیب نہیں ملتی۔  فرضی واڑا اور این پی اے پر روک نہیں لگایا جا سکتا ہے اورپبلک سیکٹر کے  بینک اچھا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتے۔

ایسا کہتے ہوئے اس بات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ2000-10کے درمیان پبلک سیکٹر کے بینکوں نے اپنے مظاہرے میں اصلاح کیا اور ہم نے پرفارمنس کے معاملے میں پبلک سیکٹر  بینکوں کو نجی بینکوں کے قریب جاتے دیکھا۔

یہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز کرتا ہے کہ نجی بینکوں میں بہتر مظاہرہ کرنے کے طور پر دیا جانے والا انعام منتظمین کو بہت زیادہ جوکھم لینے اور قوانین ، قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کے لئے متاثر کر سکتا ہے، جس کا نتیجہ وہی ہوگا، جس کے لئے پبلک سیکٹر بینکوں کی تنقید کی جاتی ہے۔

اگر داؤ کامیاب ہوتا ہے، تو منتظمین کی جھولی بڑے بونس سے بھر جاتی ہے اور شیئر ہولڈر تھوڑے اور مالامال ہو جاتے ہیں۔  لیکن، داؤ کے پلٹ جانے سے اس کی بھرپائی ٹیکس دہندگان کو کرنی پڑتی ہے۔2007-08 کے مالی بحران کے دوران ٹھیک یہی ہوا تھا۔  حال کے سالوں میں بینکوں کو حرجانہ کے طورپر بہت بڑی رقم کیوں چکانی پڑی ہے، اس کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے۔

ان تجربات کے باوجود حوصلہ افزائی / انعام کی دلیل کو آگے بڑھانا اور یہ کہنا کہ نجی کاری سے صاف شفاف اور مسئلوں سے  آزاد بینکنگ کے زمانے کی شروعات ہوگی، جہالت کی انتہا کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

(ٹی ٹی رام موہن آئی آئی ایم احمد آباد میں پروفیسر ہیں۔)