صرف دھن ہی کالا نہیں ہے، بلکہ متعلق اسٹڈی اور اٹھائے گئے قدم کو لےکر جانکاری کو بھی گہرے اندھے کنویں یا بلیک ہول میں ڈال دیا گیا ہے۔
پارلیامنٹ میں صدر کے خطاب کے بعد 7 فروری، 2018 کو پارلیامنٹ میں جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے بد عنوانی پر لگام لگانے کی اپنی حکومت کی کوششوں کا موازنہ سوکچھ بھارت ابھیان سے کیا۔مودی نے بد عنوانی کے خلاف حکومت کی کارروائی کو شہروں، نگروں، گاؤں اور سڑکوں کو صاف کرنے، پبلک ٹوائلٹ کی تعمیر کرنے اور کھلے میں رفع حاجت کی روایت کو ختم کرنے کے لئے شروع کی گئی صفائی مہم کے مترادف بتایا۔انہوں نے لوگوں کا دھیان ایک بار پھر حکومت میں شفافیت لانے کو لےکر اپنی حکومت کی کوششوں کی طرف دلایا۔
لیکن، حکومت کے مکھیا کی طرف سے واضح اشارے کے باوجود ملک کی اہم وزارت اور ایجنسی اس اہم اصول و نظریے پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔وزارت خزانہ اور اس کے ماتحت کام کرنے والے ایک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائننس اینڈ پالیسی (NIPFP) دونوں نے ہی آرٹی آئی 2005 کے تحت گھریلو شعبے میں کالے دھن پر ریسرچ رپورٹوں کو اجاگر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ کالے دھن پر بنائی گئی اسپیشل جانچ ایجنسی (ایس آئی ٹی) کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ہندوستان میں کالے دھن کی فطرت اور اس کی مقدار کو لےکر کم سے کم تین اکادمی اداروں کے ذریعے تیار کی گئی اسٹڈی رپورٹوں کی کاپی ہی نہیں ہے۔
اتناہی نہیں، وزارت خزانہ اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائننس اینڈ پالیسی دونوں نے ہی اس رپورٹ کو عام نہ کرنے کی الگ الگ وجہیں بتائی ہیں۔جہاں، وزارت ان رپورٹوں پر پارلیامانی خصوصی اختیارات کا دعویٰ کر رہی ہے وہیں این آئی پی ایف پی وزارت خزانہ کے ساتھ کئے گئے رازداری کو لے کرکیے گئے قرار کا بہانہ بنا رہا ہے۔
اکتوبر، 2017 میں آر ٹی آئی قانون کی 12ویں سالگرہ کے آس پاس، مرکزی اطلاعاتی کمشنر (سی آئی سی) نے میری اپیل پر جواب دیتے ہوئے کالے دھن پر تشکیل شدہ ایس آئی ٹی کو آر ٹی آئی قانون کے تحت عوامی اتھارٹی اعلان کر دیا۔دسمبر میں ، میں نے ایس آئی ٹی میں ایک اور آر ٹی آئی درخواست دی، جس میں این آئی پی ایف پی، دی نیشنل کاؤنسل آف اپلائڈ اکانومک ریسرچ (این سی اے ای آر) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فائنینشیل منیجمنٹ (این آئی پی ایف پی) کے ذریعے ‘ کالے دھن کی مقدار ‘ کو لے کر تیار کی گئی اور اس دن تک ایس آئی ٹی کو ملی تمام اسٹڈی رپورٹوں کی کاپیاں دستیاب کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔
میں نے اس تاریخ تک ‘ ایس آئی ٹی کے ذریعے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تمام رپورٹوں کی تعداد ‘ بتانے اور ان کی کاپیاں دستیاب کرانے ‘ کے لئے بھی کہا تھا۔
ایس آئی ٹی کے سی پی آئی او نے جواب میں کہا کہ ان کے دفتر کے پاس این آئی پی ایف پی، این آئی پی ایف پی اور این آئی ایف ایم کے ذریعے کالے دھن پر تیار کوئی اسٹڈی رپورٹ نہیں ہے (نیچے دئے گئے دستاویز کا صفحہ 5 دیکھیں)۔ اس لئے انہوں نے آر ٹی آئی درخواست کے اس حصے کو ان تینوں اداروں کو بھیج دیا۔
میری آر ٹی آئی درخواست کے چوتھے اور پانچویں سوال کے جواب میں سی پی آئی او نے اتنا بھر جواب دیا کہ ایک چل رہے معاملے میں سپریم کورٹ میں کالے دھن پر پانچ رپورٹیں جمع کرائی گئی ہیں۔انہوں نے آسان طریقے سے ان رپورٹوں کی کاپی دستیاب کرانے کی گزارش کو نظر انداز کر دیا۔ گزارش کو نہ تو خارج ہی کیا گیا اور نہ انفارسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کے دفتر، جو ایس آئی ٹی کا حصہ ہے، کی طرف سے اسبارے میں جانکاری دینے کا کوئی امید ہی جتائی گئی۔ (نیچے دستاویز کا صفحہ 5-6 دیکھیں۔ )
اتفاق کی بات ہے آر ٹی آئی ایکٹ کے آرٹیکل 24 کے تحت ای ڈی یعنی انفارسمنٹ ڈائر کٹوریٹ کو چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ لیکن یہ چھوٹ بد عنوانی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات سے متعلق جانکاریوں کے متعلق نہیں ہے۔وزیر اعظم کے ذریعے کالا دھن باہر نکالنے کو لےکر اپنی حکومت کی کوشش کا موازنہ سوکچھ بھارت ابھیان سے کرنے کے دو دن بعد ڈپارٹمنٹ آف ریونیو کی ایک تفتیشی شاخ (انویسٹی گیشن ونگ-I) نے یہ دعویٰ کیا کہ این آئی پی ایف پی، این سی اے ای آر اور این آئی ایف ایم کے ذریعے جمع کرائی گئی اکادمک رپورٹیں آر ٹی آئی قانون کے آرٹیکل 8 (1) (سی) کے تحت پارلیامانی خصوصی اختیارات کے تحت آتی ہیں اور اس لئے ان کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ (نیچے کی دستاویز کا صفحہ 7 دیکھیں۔ )
جہاں تک سپریم کورٹ میں ایس آئی ٹی کے ذریعے جمع کرائی گئی رپورٹوں کی بات ہے، تو سی پی آئی او نے ان کے دفتر کے پاس اس کی کوئی کاپی نہ ہونے کا دعویٰ کیا اور آر ٹی آئی درخواست کے اس حصے کو ایس آئی ٹی کے سی پی آئی او کے پاس بھیج دیا۔ایس آئی ٹی کے علاوہ، میں نے این آئی پی ایف پی اور دو دیگر عوامی اعلی افسران کو کالا دھن باہر نکالنے کے تعلق سے سوال بھیجے اور ان دونوں سے مجھے الگ الگ جواب ملے۔ آر ٹی آئی درخواست اور دئے گئے جواب منسلک ہیں۔
Black money study reports and RTI documents by The Wire on Scribd
حیرت کی بات ہے کہ پہلا جواب جنوری، 2018 میں سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسیس کی طرف سے آیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مانگی گئی اطلاع کا تعلق ان کے دفتر سے نہیں ہے (اوپردئے گئے دستاویز کا صفحہ 3 دیکھیں)۔
پہلے تین سوالوں کو اقتصادی معاملوں کے محکمہ ڈپارٹمنٹ آف اکا نومک افیئرس کو بھیج دیا گیا اور باقی کو مالیاتی محکمے کی تفتیشی شاخ کو بھیج دیا گیا۔میری آر ٹی آئی درخواست خاص طور پر ہندوستان میں اٹھائے گئے اقدام (نہ کہ غیر ممالک میں) کو لےکر تھا جس کا مقصد ہندوستان میں کالا دھن جمع ہونے کے رجحان کی چھان بین کرنا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس آر ٹی آئی درخواست کو ان کے پاس بھیجا ہی کیوں گیا تھا؟
مالیہ محکمے کی تفتیشی شاخ-4 (انویسٹی گیشن ونگ IV) نے جواب دیا کہ ان کی ضرورت صرف ٹیکس چوری کی عرضی کی تفتیش سے ہے اور انہوں نے آر ٹی آئی درخواست کو تفتیشی شاخ-1 (انویسٹیگیشن ونگ-I) کے پاس بھیج دیا۔
اس حساب سے دیکھیں، تو مطلب یہ نکلتا ہے کہ کالا دھن ابھی تک کسی بھی ٹیکس چوری عرضی کا موضوع ہی نہیں بنا ہے۔
اسی بیچ این آئی پی ایف پی نے اپنے جواب میں کہا کہ ان کی رپورٹ ایک زمرہ بند (کلاسیفائڈ) دستاویز ہے اور مالیہ محکمہ کے ساتھ سمجھوتے کی شرطوں کے تحت خفیہ ہے۔ اس لئے آر ٹی آئی قانون کے آرٹیکل 8 (1) (اے) کے تحت اس کو عام نہیں کیا جا سکتا ہے۔
رام جیٹھ ملانی اور دیگر بنام حکومت ہند اور دیگر والے معاملے میں (جس کو کالا دھن معاملے کے طور پر جانا جاتا ہے) سپریم کورٹ تب کی یو پی اے حکومت کے اس دعویٰ کو خارج کر دیا تھا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ دوہرا کر دفاعی معاہدہ (ڈبل ٹیکس اوائڈینس ٹریٹی) میں شامل رازداری قرار، شہری کے ‘ جاننے ‘ کے حق کو کم کر دیتا ہے۔
پبلک افسروں کے ذریعے اب گھریلو سمجھوتے میں شامل رازداری کے اہتمام کے نام پر اطلاع دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آر ٹی آئی قانون کے آرٹیکل 8 (1) (اے) کے تحت بھی ایسی کوئی بنیاد نہیں ہے۔اس لئے ایسا لگتا ہے کہ شفافیت کو لےکر وزیر اعظم کا منتر کا افسرشاہی پر زیادہ اثر نہیں پڑا ہے، جو اس بات پر بھی متفق نہیں ہے کہ آخر کالے دھن پر اسٹڈی رپورٹوں کو عام کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے؟ اس کی جگہ وہ اطلاع نہیں دینے کے لئے چھوٹکے اہتماموں کو ضرورت سے زیادہ کھینچ رہے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیرانی والی بات پارلیامانی خصوصی اختیارات کا دعویٰ کرکے اکادمک اسٹڈی رپورٹوں کو دستیاب کرانے سے انکار کرنا ہے۔آر ٹی آئی قانون کے آرٹیکل 8 (1) کی شرط کے مطابق، ویسی اطلاع جس کو پارلیامنٹیا راجیہ سبھا کو دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس کو آر ٹی آئی قانون کے تحت شہری کو دینے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آخر اکادمک اسٹڈی رپورٹ کو عام کرنے سے پارلیامانی خصوصی اختیارات کس طرح سے متاثر ہوگا؟ہر شہری کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ جمع کرنے کے این ڈی اے کے انتخابی دعوے کو تو کب کا بھلا دیا گیا ہے، کالا دھن کو باہر نکالنے کے لئے اٹھائے گئے اقدام کو لےکر تفصیلی جانکاری بھی لوگوں کودستیاب نہیں ہے۔
اس سے بھی آگے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف دھن ہی کالا نہیں ہے، بلکہ کئے گئے مطالعوں اور اٹھائے گئے قدم کو لےکر جانکاری کو بھی گہرے اندھے کنویں یا بلیک ہول میں ڈال دیا گیا ہے۔ ماہرِطبیعات اسٹیفن ہاکنگ نے دکھایا ہے کہ بلیک ہول میں کچھ جوہر سے چھوٹے ذرہ باہر کی طرف نکل جاتے ہیں، جبکہ باقی اس کی اتھاہ گہرائیوں میں پھنسے دبکے رہتے ہیں۔
اسی طرز پر کالے دھن پر این آئی پی ایف پی کی مبینہ اسٹڈی رپورٹ ایک نیم اکادمک جرنل کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ رازداری قرارکے باوجود یہ وہاں تک کیسے پہنچی، یہ اپنے آپ میں ایک راز ہے، جو خود ایک بلیک ہول میں پھنسا ہوا ہے۔
(مضمون نگار کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو [CHRI]سے وابستہ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر