لگاتار جیت سے بےحد خوداعتمادی کی شکار بی جے پی کے لئے یہ ضمنی انتخاب آسان نہیں رہ گیا ہے۔ دونوں ضمنی انتخاب شروع سےہی پارٹی کے لئے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہاں کے منفی نتائج اس کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پانچ مارچ کی شام چھے بجے گورکھپور شہر کے راپتی نگر میں بی جے پی کا انتخابی جلسہ ہو رہا تھا۔ جلسہ میں بی جے پی امیدوار اپیندر دت شُکل ،وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں تقریر کر رہے تھے۔انہوں نے کہا، ‘ یہ انتخاب گورکھپور کی شان ، مکمل ہندو سماج کے فخر معززیوگی آدتیہ ناتھ کی عزّت کی لڑائی ہے۔ آج گورکھپور کے فخر کا قد ہندوستانی سیاست میں میں بڑھا ہے۔ ابھی تریپورہ انتخاب کی کامیابی کا پورا سہرا جن کے حصے میں ہیں، گجرات انتخاب کی کامیابی کا سہرا جن کے حصے میں ہے اور کل کرناٹک کی جیت میں جن کا رول ہونے جا رہا ہے، ان کو چیلنج دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس لئے کھڑے ہوئے، اپنے فخر کی عزّت کی لڑائی میں آگے بڑھکر دلت بستی میں، انتہائی پسماندہ، پسماندہ کی بستی میں جا کر ہر چوکھٹ پر پیشانی ٹیکیے اور کنول کا پھول کھلائیے۔ ‘
اسی جلسہ میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سماجوادی پارٹی ،بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد کو چورچور موسیرے بھائی کا اتحاد بتایا۔ چار گھنٹے پہلے وہ پی پی گنج کے جلسہ میں اس اتحاد کو سانپ اور چھچھوندر کا اتحاد بتا چکے تھے۔ایک دن پہلے انہوں نے اتحاد کا موازنہ بیر اور کیر سے کیا تھا۔ ابھی حال میں اپنے سرکاری ڈرائیور کو پیٹنے سے بحث میں آئے کابینہ وزیر نند گوپال نندی پھولپور کے جلسہ میں یوگی آدتیہ ناتھ کے کڑوے بول سے اور آگے نکل گئے اور ملائم سنگھ یادو، اکھلیش یادو اور مایاوتی کا موازنہ رامائن کے منفی کرداروں سےکر دیا۔
گورکھپور اور پھول پور پارلیامانی ضمنی انتخاب کے آخری ہفتے چارمارچ کوبہوجن سماج پارٹی کے ذریعے دونوں سیٹوں پر سماجوادی پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کے اعلان کے بعد ہی بی جے پی کے اعلیٰ رہنماؤں کا موڈ بگڑا دکھنے لگا ہے جبکہ اس کے پہلے وہ تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں پارٹی کی جیت کی خوشی میں مشغول تھے۔بہوجن سماج پارٹی کی حمایت کے اعلان کے بعد سے دونوں ضمنی انتخاب کا منظرنامہ ایک دم بدل گیا ہے اور یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کی سیٹ مشکل انتخابی چکرویو میں پھنس گئی ہے؟ کیا یوپی حکومت کے دونوں اہم چہرے اپنے ہی گھر میں گھر گئے ہیں؟
بہوجن سماج پارٹی کی حمایت ملنے کے بعد سماجوادی پارٹی کے بڑھے حوصلے کا منظر تب دیکھنے کو ملا کہ چھے مارچ کو یوگی آدتیہ ناتھ کرناٹک میں بی جے پی کے لئے ووٹ مانگ رہے تھے، اس وقت سماجوادی پارٹی کے امیدوار پروین نشاد اپنے باپ ، نشاد پارٹی کے صدر ڈاکٹر سنجے کمار نشاد سیکڑوں حامیوں کے ساتھ گورکھ ناتھ مندر میں پوجا کر جیت کی خواہش کر رہے تھے۔ڈاکٹر سنجے نشاد ایسے شخص ہیں جو لگاتار یہ کہتے رہے ہیں کہ گورکھ ناتھ مندر نشاد سماج کا مندر ہے اور بابا گورکھ ناتھ کے استاد متسیندر ناتھ نشاد سماج کے تھے۔
لگاتار جیت سے بےحد خوداعتمادی کا شکار بی جے پی کے لئے یہ ضمنی انتخاب آسان نہیں رہ گیا ہے اور اس کو سخت چیلنج مل رہا ہے۔ بی جے پی کے لئے یہ دونوں ضمنی انتخاب شروع سے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہاں کے منفی نتائج اس کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس ضمنی انتخاب کو لےکر ہمیشہ گھبراہٹ، کشمکش اور خوداعتمادی کی کمی کا شکار دکھی۔ دونوں سیٹوں پر وہ سب سے آخر میں اپنے امیدوار طے کر پائے۔
پھول پور میں جن کوشلیندر سنگھ پٹیل کو امیدوار بنایا گیا، وہ انتخاب کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔ وہ گورکھپور میں تھے اور یہاں کا الیکشن منیجمنٹ دیکھ رہے تھے۔ نامزدگی کے آخری وقت میں ان کو پھولپور سے لڑنے کو بھیجا گیا۔بی جے پی ہائی کمان کو یہ فیصلہ اس لئے لینا پڑا کیونکہ سماجوادی پارٹی نے یہاں سے پٹیل برادری کے ناگیندر سنگھ پٹیل کو انتخاب میں اتار دیا۔ بی جے پی پٹیل برادری پر اپنے تسلط کو کھونا نہیں چاہتی تھی اس لئے اس نے کوشلیندر کو امیدوار بنایا جبکہ ان کے کام کاج کا علاقہ مرزاپور اور وارانسی کا تھا۔
دیوریا ضلع جیل میں بند باہوبلی رہنما سابق رکن پارلیامان عتیق احمد کے ذریعے پھول پور سے انتخاب لڑنے کو بھی بی جے پی کا ‘ پلان ‘ بتایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو اپنی جیت پر بھروسا نہیں ہے، اس لئے اس نے عتیق احمد کو انتخاب لڑنے کے لئے ‘ تیار ‘ کیا تاکہ اقلیت ووٹوں میں تقسیم ہو سکے۔عتیق احمد آزاد انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کی نامزدگی جیل سے ، نامزدگی کے آخری دن ہوا۔ الٰہ آباد سے آئے وکیلوں نے صبح ان سے نامزدگی پرچہ بھروایا اور پھول پور لے جا کر داخل کیا۔ اس دوران جیل انتظامیہ کا رویہ بےحد دوستانہ رہا لیکن نامزدگی کے بعد جیل انتظامیہ اچانک عتیق احمد کو لےکر سخت ہو گئی ہے۔
چھے مارچ کو دوپہر ڈی ایم اور ایس پی نے اچانک جیل پر چھاپا ڈالا اور خاص طورپر عتیق احمد کے بیرک کو چیک کیا۔ بیرک سے گٹکھا، سگریٹ کے علاوہ تمام نام اور نمبرات والی ایک ڈائری بر آمد ہوئی۔ نقدی اور موبائل بھی بر آمد ہونے کی خبر ہے لیکن انتظامیہ نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔بیرک کی چیکنگ کے دوران عتیق کی ڈی ایم سے گرماگرمی بھی ہوئی۔ ڈی ایم نے صحافیوں سے کہا کہ عتیق احمد کے خلاف جیل میں ممنوعہ سامان ملنے کے معاملے میں رپورٹ درج کرائی جائےگی۔اس کے پہلے بھی 24 فروری کو عتیق احمد کی بیرک کو چیک کیا گیا۔ ذرائع بتا رہے تھے کہ دیوریا ضلع انتظامیہ نے اوپر سے آئی ہدایت کے بعد عتیق پر یہ سختی کی ہے۔ عتیق پر ‘ سختی ‘ کو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اپنے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کے درمیان بڑھتے اختلاف کی وجہ بتایا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ موریہ نے عتیق کو بی جے پی امیدوار کو فائدہ پہنچانے کے لئے مینیج کیا لیکن یوگی حکومت ان کو اور سہولیت دینے کے بجائے ان پر سختی کر رہی ہے کہ جس سے وہ اپنی حمایت میں زیادہ تشہیر نہ کر پائیں۔عتیق احمد یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے کے ایک مہینے کے بعد ہی دیوریا جیل بھیج دئے گئے تھے۔ پھول پور سے نامزدگی کرنے کے بعد وہ نینی جیل جانا چاہتے تھے اور اس کا خوب ذکر بھی ہو رہا تھا لیکن یہ ممکن نہیں ہو پایا۔اس سے عتیق کے انتخاب لڑنے کا ‘ پورا فائدہ ‘ پھول پور میں بی جے پی امیدوار کو نہیں مل پا رہا ہے۔
وہیں کوشلیندر کو امیدوار بناتے ہی ان کا خاندانی تنازعے کا معاملہ ایک بار پھر سامنے آیا جس سے پارٹی پریشانی میں پڑی۔ ان کی سابق بیوی نے گھریلو تشدد کے الزام کو ایک بار پھر میڈیا میں کہا جس کو لےکر مخالف ان پر نشانہ سادھ رہے ہیں۔انتخاب میں مقامی بنام باہری کا بھی مدعا چل رہا ہے۔ بی جے پی امیدوار کو باہری بتا کر سماجوادی پارٹی اپنی حمایت میں پٹیل ووٹ کو زیادہ سے زیادہ پولرائز کرنے میں لگی ہے۔
پھول پور روایتی طور پر بی جے پی کی سیٹ نہیں رہی ہے۔ پچھلے انتخاب میں کیشو پرساد موریہ نے ضرور 52.43 فیصدی ووٹ حاصل کر بڑی جیت حاصل کی تھی۔ سماجوادی امیدوار 20.33 اوربہوجن سماجوادی امیدوار 17.05 فیصدی ووٹ پا کر تیسرے مقام پر رہے۔پٹیل، بند، پاسی، مسلمان یہاں انتخاب کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کے اہم رہنما رہے اندرجیت سروج اب سماجوادی پارٹی میں ہیں اور وہ انتخاب کا دیکھ ریکھ کر رہے ہیں۔ ان کی وجہ سےسماجوادی پارٹی پہلے سے ہی مضبوطی سے لڑ رہی تھی۔
اب بہوجن سماج پارٹی کا بھی ساتھ مل جانے سے اس کی حالت اور ٹھیک ہو گئی ہے۔ انتخابی نتیجہ مسلمان ووٹ کی تقسیم پر منحصر کرےگا۔ اگر مسلمان عتیق احمد اورسماجوادی میں منقسم ہوئے تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ملےگا اور ایسا نہیں ہوا تو نتیجہ سماجوادی پارٹی کے حق میں جا سکتا ہے۔گورکھپور میں بھی یوگی آدتیہ ناتھ آخری وقت تک اپنا سیاسی قائم مقام نہیں چن پائے۔ یہاں سے سابق وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ چنمیانند، فلم اداکار روی کشن سے لےکر گورکھ ناتھ مندر کے خصوصی پجاری یوگی کملاناتھ کے نام اچھلتے رہے، لیکن نام فائنل ہوا بی جے پی کے علاقائی صدر اپیندر دت شُکل کا۔
گورکھپور کی سیاست میں اپیندر شُکل کبھی بھی یوگی کے گڈ بُک میں نہیں رہے۔ سال 2005 میں کوڑی رام اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں وہ یوگی پر ٹکٹ کٹوانے کا الزام لگاتے ہوئے بی جے پی کے مستند امیدوار کے خلاف انتخاب لڑ گئے تھے۔ وہ بھی ہارے اور بی جے پی امیدوار بھی ہار گیا۔ان کو یوگی آدتیہ ناتھ کے حریف خیمے مرکزی وزیرِ مملکت برائے امورِخزانہ شیوپرتاپ شُکل کا قریبی مانا جاتا ہے۔ شیو پرتاپ شُکل بھی ماضی میں یوگی کی ناراضگی جھیل چکے ہیں۔ یوگی نے ان کے خلاف ہندو مہاسبھا سے ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال کو انتخاب لڑا کر کامیاب بنایا تھا۔
اس کے بعد وہ بی جے پی میں حاشیے پر چلے گئے۔ مرکز میں مودی حکومت بننے کے بعد اچانک ان کی قسمت کا ستارہ چمکا ہے۔ پہلے ان کو راجیہ سبھا بھیجا گیا اور اب وزیرِ مملکت برائے امورِ خزانہ بنا دیا گیا۔ ان کا قد بڑھائے جانے کو مودی و شاہ کا چیک اینڈ بیلینس پالٹکس کا حصہ مانا جاتا ہے تاکہ یوگی کے ابھار سے برہمن بی جے پی میں خود کو نظرانداز نہ سمجھیں اور یوگی کے اڈے میں ایک متوازی اقتدار مرکز بنا رہے۔
اپیندر کی امیدواری کو یوگی آدتیہ ناتھ نے تو قبولکر لیا لیکن ان کے کھانٹی حامی ہراساں ہو گئے ہیں اور بے دلی سے انتخابی تشہیر میں لگے ہیں۔ مسئلہ یہی پر ختم نہیں ہوا۔ انتخابی تشہیر کے بیچ میں ہی اپیندر شدید طور سے بیمار ہو گئے اور ان کو لکھنؤ پی جی آئی میں بھرتی کرانا پڑا۔ان کے دماغ میں خون کا تھکّا بن گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ پانچ دن بعد انتخابی تشہیر میں لوٹ پائے۔ اب وہ انتخابی جلسہ میں جذباتی ہوتے ہوئے بول رہے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کی زندگی بچالی ہے۔گورکھپور سیٹ 1989 سے لگاتار گورکھ ناتھ مندر کے پاس ہے۔ 1989 سے 1998 تک یوگی آدتیہ ناتھ کے گرو مہنت اویدیہ ناتھ یہاں کے رکن پارلیامان رہے۔ اس دوران وہ لگاتار تین انتخاب جیتے۔ اس کے بعد سے یوگی آدتیہ ناتھ لگاتار پانچ بار سے انتخاب جیتتے آ رہے ہیں۔
گورکھ ناتھ مندر کے مہنت ملک کی آزادی کے بعد سے انتخابی سیاست میں فعال ہیں۔ مہنت دگوجئےناتھ 1952 اور 1957 کا ہندو مہاسبھا سے لڑے لیکن کانگریس کے سنگھاسن سے ہارے۔ تیسری بار ان کو 1967 میں جیت ملی۔ دو سال بعد ان کی موت ہو گئی اور 1969 میں ضمنی انتخاب ہوا جس میں مہنت اویدیہ ناتھ جیتے لیکن 1970 کے انتخاب میں وہ کانگریس امیدوار نرسنگھ نارائن پانڈیہ سے ہار گئے۔
اس کے بعد وہ انتخابی سیاست سے دور ہو گئے۔ رام مندر کی سیاست شروع ہونے پر وہ پھر سے 1989 میں سیاست میں لوٹے۔ 1989 سے 2014 کے آٹھ انتخابات کے نتیجے کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ صرف دو بار 1998 اور 1999 میں یوگی آدتیہ ناتھ کو سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔وہ 1998 کا انتخاب 26،206 اور 1999 کا انتخاب صرف 7،339 ووٹ سے جیتے۔ دونوں بار سماجوادی امیدوار جمنا نشاد نے انھیں ٹکّر دی۔ ان دونوں انتخابات میں بہوجن سماجوادی امیدوار نے بالترتیب 15.23 اور 13.54 فیصدی ووٹ بانٹ لیا نہیں تو انتخاب نتیجہ کچھ اور ہو سکتا تھا۔
سال 1998 میں بےحد قریبی مقابلے میں جیتکے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندو یووا واہنی کی تشکیل کی۔ اس کے بعد گورکھپور اور آس پاس کا علاقہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے جھلس گیا۔ اس کا انتخابی فائدہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہوا اور 1998 کے بعد سال 2004، 2009 اور 2014 میں ان کی جیت کا فرق بڑھتا گیا۔سال 2014 کا انتخاب وہ 51.80 فیصدی ووٹ حاصل کر 3،12،783 ووٹ کے فرق سے جیتے۔ پچھلے تین انتخابات سے سماجوادی ، بہوجن سماجوادی اور کانگریس کے مجموعی ووٹ سے بھی زیادہ ووٹ یوگی آدتیہ ناتھ کو مل رہا ہے۔
اس حساب سے دیکھیں تو بی جے پی امیدوار کو کوئی چیلنج پیش نہیں آ رہا ہے لیکن ان انتخابات میں سماجوادی اور بہوجن سماجوادی ، یوگی آدتیہ ناتھ کو ہرانے کے لئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے لڑتے رہے ہیں۔ سال 2004 میں سماجوادی اور بہوجن سماجوادی دونوں نے نشاد امیدوار دیا تو سال 2009 میں برہمن۔پچھلے انتخاب میں دونوں نے پھر نشاد امیدوار دیا۔ اس سے پسماندہ اور اقلیت ووٹوں میں تقسیم ہوتا رہا جس کا فائدہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہوتا رہا ہے۔ مقابلہ ہمیشہ مثلث رہا۔
کانگریس یہاں پر پچھلے چھے انتخابات سی اپنی کوئی حیثیت نہیں بنا پائی ہے اور چھہ بار سے اس کی ضمانت ضبط ہوتی رہی ہے۔ اس کا ووٹ فیصد 2.60 سے 4.85 فیصدی کے درمیان رہا ہے۔اس بار کانگریس نے ڈاکٹر سرہتا کریم کی شکل میں ایک بہتر امیدوار میدان میں اتاراہے لیکن سپا اور بی جے پی کے درمیان ووٹ کے پولرائزیشن کی وجہ سے اس بار بھی کانگریس کی حالت پچھلے انتخابات سے بہتر ہونے کی امید نہیں لگ رہی ہے۔
اس انتخاب میں بی جے پی کا سپا امیدوار سے سیدھا مقابلہ ہونے جا رہا ہے کیونکہ بسپا انتخاب نہیں لڑ رہی ہے اور اس نے سپا امیدوار کو حمایت دی ہے۔ تقریباً تین دہائی بعد پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ سماجی مساوات، ذات کے اعداد و شمار اور ووٹ کی ریاضی سپا امیدوار کی حمایت میں دکھ رہی ہے۔گورکھپور پارلیامانی حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹرز نشاد ذات کے ہیں جن کی تعداد تقریباً 3.5 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یادو اور دلت رائےدہندگان دو-دو لاکھ ہیں۔ برہمن رائےدہندگان 1.5 لاکھ کے آس پاس ہیں۔ اگر اس انتخاب میں نشاد، یادو، مسلمان اور دلتوں کی یکجہتی کامیاب ہو جائے تو چونکانے والے نتیجے آ سکتے ہیں۔گورکھپور کی سیاست میں برہمنوں اور راجپوتوں کے درمیان حریف کی پانچ دہائی پرانی تاریخ ہے۔ یہ مقابلہ 80 کی دہائی میں خونی لڑائی میں بدل گیا تھا۔ اس کا سایہ ابھی بھی ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلی ٰبننے کے بعد برہمنوں کی سیاست کا سب سے بڑے سینٹر ہوتا سابق وزیر ہری شنکر تیواری کے گھر پر چھاپے اور اس کی مخالفت میں ہوئے برہمنوں کے مشتعل مظاہرے سے لگا تھا کہ پرانا دور پھر شروع ہو جائےگا لیکن حکومت کے قدم کھینچ لینے سے معاملہ ٹھنڈا ہو گیا لیکن سرد جنگ ابھی بھی جاری ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ کی سیٹ پر بی جے پی کے ذریعے برہمن امیدوار اتارے جانے کے باوجود برہمن اس کو کتنا حمایت دیںگے، اس کو لےکر شبہ بنا ہوا ہے۔
ہندو یووا واہنی کا بےعمل ہوتے جانا بھی ضمنی انتخاب میں بی جے پی امیدوار کے لئے کمزوری کا سبب بنا ہوا ہے۔ اسمبلی انتخاب میں ہی ہندو یووا واہنی کے اہم رہنماؤں نے ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض ہو کر بغاوت کر دی تھی۔اس پر یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کو تنظیم سے نکال دیا۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی ان رہنماؤں کو تنظیم میں واپس نہیں لیا گیا۔ ساتھ ہی پوری تنظیم کو ‘ تعمیراتی کام ‘ ہی کرنے کی سخت ہدایت دی گئی۔ اس کے بعد سے آہستہ آہستہ تنظیم کی تباہی ہوتی جا رہی ہے۔
ان کمزوریوں کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ یہاں سے جیتکے تئیں مطمئن دکھ رہے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اس پارلیامانی حلقہ کا گورکھپور شہر ی حلقہ انتخاب۔ یہ علاقہ بی جے پی کا مضبوط قلعہ ہے۔ یہاں سے بی جے پی کو ہر انتخاب میں مین حریف سے 50 سے لےکر ایک لاکھ کا بڑھاوا دے دیتا ہے۔2014 کے پارلیامانی انتخاب میں بی جے پی کو یہاں سے ایک لاکھ کا مارجِن ملا تھا جبکہ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی امیدوار یہاں سے 60 ہزار سے زیادہ ووٹ سے فاتح ہوا تھا۔ اس فرق کو کم کرنے کے حریف جماعتوں کی کوشش ابتک ناکام ثابت ہوئی ہے۔
بی جے پی ایک بار پھر اسی انتخابی حلقہ سے بڑے فرق کی حکمت عملی بنائے ہوئی ہے۔ خود یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک جلسہ میں کارکنان سے رائے دہندگی کی فیصد بڑھانے کی ہدایت دی اور کہا کہ یہاں سے ہمیں فیصلہ کن فرق ملتا ہے جس کو قائم رکھنا ہوگا۔
نشاد پارٹی
دو سال پہلے بنی نشاد پارٹی نے نشاد ووٹ پر اپنا متاثر کن تسلط دکھایا ہے۔ نشاد پارٹی نے اسمبلی انتخاب پیس پارٹی کے ساتھ ملکر لڑا تھا۔ پیس پارٹی کو نشاد ووٹ تو ٹرانسفر ہوئے لیکن پسماندہ مسلمانوں کے ووٹ نشاد پارٹی کو نہیں ملے۔اس سبب وہ یوپی میں ایک ہی سیٹ گیان پور جیت پائی۔ پیس پارٹی بھی کوئی سیٹ جیت نہیں پائی۔ نشاد پارٹی 72 سیٹوں پر انتخاب لڑی تھی اور اس کو 5،40،539 ووٹ ملے۔ تمام سیٹوں-پنیرا، کیمپیئرگنج، سہجنوا، کھجنی، تمکہی راج، بھدوہی، چندولی میں اس کو دس ہزار سے زیادہ ووٹ ملے۔پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر سنجے کمار نشاد گورکھپور دیہی سیٹ سے انتخاب لڑے اور 34،869 ووٹ پائے۔ انتخاب تو وہ نہیں جیت پائے لیکن وہ سماجوادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی ، کانگریس کو احساس دلانے میں کامیاب رہے کہ نشاد ذات کے ووٹ پر ان کی اچھی پکڑ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سماجوادی پارٹی نے انتخاب کے بعد اس کو اپنے ساتھ لیا اور نشاد پارٹی کے صدر ڈاکٹر سنجے کمار نشاد کے بیٹے پروین نشاد کو امیدوار بنا دیا۔
او بی سی پالٹکس
پارلیامانی انتخاب اور اسمبلی انتخاب میں اس علاقے میں نشاد رہنماؤں کو بی جے پی نے نظرانداز کیا جس سے وہ بی جے پی سے دور ہوتے گئے اور نشاد پارٹی کے ساتھ صف بندی کرتے چلے گئے ۔ دیگر پسماندہ ذاتوں میں بھی بی جے پی سے ناراضگی بڑھی ہے۔
ان کو ایسا لگ رہا ہے کہ ان کا ووٹ لینے کے باوجود اقتدار میں ان کی مناسب نمائندگی نہیں ہے۔ قانونی نظام ٹھیک کرنے کے نام پر انکاؤنٹر اور پولیس کارروائی کی زد میں سب سے زیادہ پسماندہ طبقے کے لوگ ہی آئے ہیں۔
اس سے بھی ان کی ناراضگی یوگی حکومت سے بڑھی ہے۔ یوپی میں سپا حکومت بننے کے بعد جو چھوٹی جماعت بی جے پی کے ساتھ آئی ہیں، وہ بہت خوش نہیں ہیں۔ وہ اپنے نظرانداز کرنے کو لےکر شکایت بھی کر رہے ہیں۔ ہندوستانی سماج پارٹی کے اوم پرکاش راجبھر کئی بار اپنے نظرانداز کی ہونے کی شکایت عوامی طور پر کر چکے ہیں۔
سماجوادی پارٹی کی نئی سوشل انجینئرنگ
اسمبلی انتخاب نتیجہ سے سبق لینے کے بعد سماجوادی پارٹی چپ چاپ نئی سوشل انجینئرنگ کرنے میں جٹ گئی تھی۔ پارٹی صدر اکھلیش یادو نے پارٹی کی سماجی بنیاد کو وسیع کرنے کی کوشش شروع کی۔انہوں نے پارٹی کو یادو پارٹی کی پہچان سے آزاد کرانے کے لئے سیاسی حاشیے پر پڑے پسماندہ ذات کے کئی رہنماؤں کو سپا میں شامل کیا اور اسمبلی انتخاب میں اپنی طاقت دکھانے میں کامیاب ہوئی نشاد پارٹی، پسماندہ مسلمانوں کی پارٹی پیس پارٹی جیسی چھوٹی جماعتوں سے بات چیت شروع کی اور اس کو اپنے ساتھ لے آنے میں کامیاب ہوئے۔
اسمبلی انتخاب میں نشاد پارٹی نے سماجوادی پارٹی سے اتحاد کی کوشش کی تھی لیکن سماجوادی پارٹی نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ نشاد پارٹی کے رہنما ڈاکٹر سنجے کمار نشاد کہتے رہ گئے کہ اگر سپا نے ان سے اتحاد کر لیا ہوتا تو وہ اسمبلی انتخاب میں کم سے کم 30 سے 35 سیٹوں پر نہیں ہارتے۔انتخاب کے بعد ووٹوں کی ضرب تقسیم کرنے پر سپا کو صاف طور پر سمجھ میں آ گیا کہ اگر نشاد کے ساتھ ساتھ سینتھوار، پٹیل اور کچھ دیگر او بی سی ذاتوں کو ساتھ لایا جا سکے تو وہ اپنی سماجی بنیاد کو کافی توسیع کر سکتی ہے جو پچھلے کچھ سالوں سے گھٹتاچلاگیا ہے۔ اسی حکمت عملی کے تحت گورکھپور سمیت کئی مقامات پر او بی سی کانفرنس ہوئے جس کو سپا نے پیچھے سے سپورٹ کیا۔
ان کانفرنسوں میں مانگ اٹھائی گئی کہ او بی سی سماج کو اس کی آبادی کے حساب سے 52 فیصدی ریزرویشن دیا جائے۔ ان کانفرنسوں میں او بی سی سماج کو ملک کی تیسری سب سے بڑی طاقت بتاتے ہوئے یادو،نشاد،سینتھوار،پٹیل،راجبھر،موریہ،وشوکرما،پرجاپتی ،جیسوال، گپتا، کرمی ذاتوں کی یکجہتی بنانے پر زور دیا گیا۔گورکھپور میں پانچ جنوری کو ہوئے او بی سی کانفرنس میں او بی سی یکجہتی کے پارلیامانی ضمنی انتخاب میں جائزہ لینے کی بات کہی گئی تھی۔ او بی سی کانفرنس کرانے والے او بی سی آرمی کے صدر کالی شنکر کہتے ہیں کہ یہ انتخاب او بی سی، ائیرکنڈیشن اور ایس ٹی کی زمیندارانہ طاقتوں سے لڑائی کا انتخاب ہے۔
یوپی میں بدلتی سیاست کا امتحان ہے ضمنی انتخاب
ایک طرف سماجوادی پارٹی نے پسماندہ ذاتوں کو یکجا کر اپنے اکھاڑے میں جٹانے کی کوشش کی اور بہوجن سماج پارٹی سے پارلیامانی ضمنی انتخاب کے ساتھ ساتھ ودھان پریشد اور راجیہ سبھا انتخاب میں حکمت عملی کے تحت اتحاد کر لیا وہیں بی جے پی دوسری ریاستوں میں جیت کی مہم اور منیجمنٹ میں مصروف ہو گئی۔ جب ان کو حزب مخالف کی نئی حکمت عملی سمجھ میں آئی تو مچھورا سمیلن ، کائستھ سمیلن کرنے لگے۔
ایک سال کے اندر ریاست کی سیاست میں دلچسپ تبدیلی آئی ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے اسمبلی انتخاب کے نتیجے کے بعد سے ترقی کی سیاست سے دل ٹوٹ گیا ہے اور وہ سوشل انجینئرنگ کے ذریعے اکھڑے پاؤں جمانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دلتوں اور پسماندوں کی کچھ ذاتوں کو اپنی حمایت میں کر کے اقتدار تک پہنچنے والی بی جے پی اور اس کے وزیراعلیٰ اکھلیش حکومت کی طرح ترقی کے راگ گانے لگے ہیں۔
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ