ادبستان

بک ریویو: مسلمان عورتوں کی موجودہ صورت حال اور حیثیت پر سوال پوچھتی کتاب

غزالہ جمیل کی کتابMuslim Women Speak: Of Dreams and Shacklesمیں مسلمان عورتوں کو بولتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ۔عام طور پرکسی بھی کتاب میں اب تک عورتوں کو پڑھنا ہی ایک تجربہ رہا ہے ،اس لیے اس کتاب میں ان کو سننا ،ان کی زبان میں سننا ایک غیر معمولی بات  ہے۔

مسلمان عورتوں کی زندگی کا بیانیہ اکثر اس مہابیانیہ (Metanarrative)میں گم کردیا گیا ہے کہ مذہب نے ان کے حقوق تسلیم کیےہیں ،ان کو برابری کا درجہ دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے عورتوں کو عزت دی  ،لیکن اس بیانیہ کے پس پردہ مسلم سوسائٹی کے ان پہلوؤں پر بات نہیں کی گئی یا کم کم کی گئی ہے جن کو زمینی حقائق کہہ سکتے ہیں ۔ان حالات میں کوئی ایسی کتاب ہاتھ لگتی ہے جس میں مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی اپنی زبان میں  حقائق کی تصویر یں پیش کی جاتی ہیں اور ان کی روشنی میں صورت حال کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور سوال اٹھائے جاتے ہیں تو اس طرح کی کتابوں کی پذیرائی ضرور ہونی چاہیے ۔یہ باتیں مجھے آخر میں لکھنی تھیں ،لیکن میں اپنے آپ کو ترتیب کی الٹ پھیر سے اس لیے نہیں روک پائی کہ غزالہ جمیل کی کتابMuslim Women Speak: Of Dreams and Shacklesمیں مسلمان عورتوں کو بولتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ۔عام طور پرکسی بھی کتاب میں اب تک عورتوں کو پڑھنا ہی ایک تجربہ رہا ہے ،اس لیے اس کتاب میں ان کو سننا ،ان کی زبان میں سننا ایک غیر معمولی بات  ہے۔

پیش نظر کتاب  بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن کے لیے کام کرنے والی عورتوں کے اشتراک اور ان کی محنت سے مصنفہ کا ایک کارنامہ بن گئی ہے ۔بنیادی طور پر یہ کتاب تحقیقی نوعیت کی ہے جو شعبہ جاتی(Departmental)ہونے کے بجائے زمینی حقائق اور ایک طرح کے سروے پرمبنی ہے ۔مصنفہ کے اپروچ کا اندازہ اس  سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس سروے /بات چیت کے دوران ایک عورت کے بظاہر عام سے بیانیہ کو بھی کس طرح سے پڑھنے کی کوشش ہے ۔دراصل کتاب کی ابتدا میں ہی ایک جملہ لکھا گیا ہے کہ ؛

اللہ تعالیٰ نے عورت کو بھی انسان بنایا ہے ۔

 مصنفہ نے اس بیان کی روشنی میں اس عام سے بیان کی قرأت اور باز قرأت میں سوسائٹی کی اس سوچ کو بھی اجاگر کیا ہے جس میں ‘بھی’ جیسے لفظ کی سماجی ،سیاسی اور مذہبی نفسیات موجود ہے ۔چنانچہ مصنفہ کی طرح پڑھنے والوں کے لیے بھی یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ آخر ایک عورت کو یہ کیوں سوچنا پڑتا ہے کہ وہ بھی مرد کی طرح ایک انسان ہے ؟

ان باتوں سے قطع نظر اس کتاب کے حوالے سے ایک اہم بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ غزالہ جمیل ،ہندوستانی عورتوں کی ترجمانی میں مسلمان عورتوں کی مختلف حیثیتوں کے بارے میں ان سوالوں کو ہمارے سامنے رکھتی ہیں جو بہت بنیادی ہیں اور روزمرہ کی زندگی سے متعلق ہیں ۔گویا کہ یہ کتاب مسلمان عورتوں کی موجودہ صورت حال اور حیثیت پر سوال پوچھتی ہے ۔ان سوالوں کے ارد گرد عورتوں کی دنیا ہے جس کو عورتیں اور لڑکیاں اپنی نظر سے  دیکھتی ہیں اور ان کی نظر میں اس کے حل کیا ہیں،اس کو بھی بیان کرتی ہیں۔

ghazala jamil

غزالہ جمیل نے اپنی تحقیق 2008میں شروع کی تھی ۔ اس تحقیق کے دوران غزالہ کے سامنے عورت کے سیاسی ،سماجی اور اقتصادی حقائق کے بیانیہ موجود تھے ،ان کو لے کر مہیلا آندولن کے ذریعے تیار کیے گئے سوالات کے سیمپل بھی تھے ۔اس طرح اس تحقیق میں انہوں نے مختلف جگہوں پر عورتوں سے بات چیت کی اور ورک شاپ کے ذریعے بھی تحقیق کے مراحل کو طے کیا۔اس لیے کتاب میں دونوں طرح کا بیانیہ نظر آتا ہے ۔پہلے بیانیہ میں مسلمان عورتوں کی اپنی سوسائٹی میں ان کے حالات اور اسی کی توسیع میں پورے ہندوستانی سماج میں دوسری عورتوں کے مقابلے ان کی حیثیت۔اس طرح اس کتاب میں مسلمان عورتوں کی سوچ ،ان کے خیالات ،خدشات اور خوف کی سائکی میں ان کی زندگی کا روزمرہ سب کو مرتب طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔اس کتاب کے بارے میں ترجیحی طور پر یہ کہنا چاہتی ہوں کہ غزالہ نے حقائق کی چھان بین کی ہے اور عورتوں کو سنا ہے ،ورنہ عام طور سے شعبہ جاتی(Departmental) تحقیق میں اعداد و شمار تک اپڈیٹ نہیں ہوتے ۔

ان باتوں کی روشنی میں اس کتاب کا مطالعہ ایک دوسری سطح پر مسلمان عورتوں کے سماجی ،معاشرتی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی صورت حال سے آگے بڑھ کر ان کے مستقبل کو بھی ان کی زبانی ہمارے سامنے رکھتا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے  کہ شعبہ جاتی تحقیق سے الگ یہ کتاب زمینی حقائق کو پیش کرتی ہے ۔اس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ہندوستان کی 12مختلف ریاستوں کے شہری اور نیم شہری مراکز پر عورتوں سے کی گئی بات چیت کی روشنی میں ان کے بیانیہ کے ساتھ مصنفہ کے خیالات بھی ہیں جو اس تحقیق کے نئے پن کے علاوہ بھی اس کو معنی عطا کرتے ہیں ۔شروع کے تین ابواب میں اس نوع کی تحقیق کے طریقہ کار پر بات کی گئی ہے اور عورت کی زندگی کی تاریکی پر بھی کئی اہم اشارے فراہم کیے گئے ہیں۔

اگلے تما م ابواب میں عورتوں کے اپنے بیانیہ کے ساتھ سماجی ،سیاسی اورکہیں کہیں  مذہبی مہابیانیہ کا مطالعہ بھی دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے۔اس کتاب میں ان عورتوں کے بیانیہ کی صور ت میں ہمیں یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ ؛عورت کا کام کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔یہ عام سا جملہ ان عورتوں کی زندگی کے روزمرہ سے پیدا ہوا ہے جس میں وہ امور خانہ داری کی ماہر بنائی جاتی ہیں ۔

اسی طرح اس میں لڑکیوں کی پسند کے بارے میں بھی اس طرح کے بیانیہ کو جگہ دی گئی ہے کہ ؛مجھے کھانا بنا نا اور کپڑے دھونا پسند نہیں ہے ،لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔اس لیے مجھے یہ کرنا پڑتا ہے۔اس طرح کی سچائیوں کے ساتھ ان لڑکیوں کی کہانی بھی اس کتاب میں سنائی گئی ہے جو کالج سے آنے کے بعد سیدھے کچن میں اپنی ماں کی مدد کے لیے جاتی ہیں ۔ان لڑکیوں کی بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف ان کا تجربہ نہیں ہے ؛”میں تھک جاتی ہوں اور کچن میں نہیں جانا چاہتی تو مجھے گھر والوں کے عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے کیوں کہ وہ چلانا شروع کر دیتے ہیں” بلکہ یہ ہماری  زندگی کا ایک کڑوا سچ ہے جسے بہت نارمل مان کر یوں قبول کر لیا گیا ہے کہ لڑکی ہے تو گھر کے کام کرنے تو اس پر فرض ہیں ،بھلے ہی وہ کام کرنے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ،لیکن ان کے پیچھے جو گھریلو تشد د اور ایک لڑکی کے خوابوں کو کچل دینے کی کوشش کی جاتی ہے ،ان کو یہ کتاب بڑی خوبصورتی سے اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھتی ہے۔(ص: 53)

ان لڑکیوں کی باتیں نئی نہیں ہیں ،لیکن ان کو سننے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ،شاید اس لیے غزالہ جمیل کی کتاب میں یہ باتیں بہت نمایاں ہو گئیں ہیں ،مثال کے طور پر ایک لڑکی کا یہی کہنا کہ ؛چوں کہ مجھے شادی کے بعد یہی سب کرنا ہے گھر سنبھالنا ہے اس لیے مجھے یہ سب سیکھنا پڑتا ہے۔ ان باتوں کو سننے کی کوشش میں ہی اس کتاب کی جدت ہمیں متوجہ کرتی ہے۔غزالہ جمیل کی تحقیق میں کسی طرح کا کوئی تعصب نہیں ہے ۔انہوں نے ہر طرح کے بیانیہ کو اس میں جگہ دی ہے اس لیے ایسی لڑکیوں کی باتیں بھی نظر آتی ہیں جن کو نئے نئے ڈش اور کھانا بنانا پسند ہے ،لیکن وہ یہ سب اپنی مرضی سے کر نا چاہتی ہیں۔

GhazalaJameel_Hashimpura

فوٹو: ہاشم پورہ قتل عام کے موضوع پر جے این یو میں منعقد پبلک میٹنگ میں بولتی غزالہ جمیل

دراصل یہ کتاب عورتوں کی اپنی مرضی کو ہی جگہ دینے کی ایک کوشش ہے ۔غزالہ جمیل نے ان باتوں کی روشنی میں یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ عورتوں کی خوشی میں بھی ان کی اپنی مرضی شامل نہیں ہے یا خوشی پر ان کا حق نہیں ہے ۔سب کچھ ایک طے شدہ نظام کے اندر کرنا ان کی مجبوری ہے ۔اسی مجبوری کے خلاف یہ کتاب ہمیں سوچنے اور غور و فکرکرنے پر اکساتی ہے۔خالی وقتو ں میں لڑکیوں کے مہکتا آنچل پڑھنے کی نفسیات تک کو یہ کتاب حوالہ بناتی ہے۔

عورتوں کی زندگی کی تاریکی اور اندھیروں پر بات کرتی ہوئی اس کتاب میں نوجوان مسلم لڑکیوں کے خواب اور مستقبل کو لےکر کیے گئے سوالا ت بھی توجہ طلب ہیں کہ اس میں ان کے اکیلے کام پر جانے کو کس طرح لیا جاتا ہے ،پھر بعد میں کس طرح لوگ اس کو قبول کرتے ہیں ۔اور یہ لڑکیا ں اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے لیے کس طرح فکرمند نظر آتی ہیں ۔اس میں عورتوں کی زندگی کے کم و بیش تمام پہلو کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ان سب میں عصری حقائق اور تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔اس لیے یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ اگر ہم برقعہ نہیں پہننا چاہتے تو اس کے لیے ہم پر دباؤ کیوں بنایا جاتا ہے۔

لڑکیوں کے مستقبل کو لے کر کیے گئے سوالات میں لڑکیاں اچھے پروفیشن میں آنا چاہتی ہیں ،لیکن ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سب آسان نہیں ہے اور کئی دفعہ ممکن بھی نہیں ہے۔گھریلو تشدد کے بارے میں جو باتیں اس کتاب کے حوالے سے میں نے یہاں کہنے کی کوشش کی ہے اس میں اس طرح کے بیانیے کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ ؛بھائی کہتا ہے تو پڑھ کر کیا کرے گی۔ابا نے مجھے مارا اور کہا گھر بیٹھ ۔لیکن یہی سوسائٹی جب لڑکیوں کے لیے شوہر تلاش کرتی ہے تو یہ پتا لگاتی ہے کہ ہونے والا شوہر مارے گا پیٹے گا تو نہیں ۔ان باتوں میں جو بین السطور ہے وہ اس کتاب کی روح ہے۔

 کتاب میں پدریت (Patriarchy)کے احساس کو خوب نمایاں کیا گیا ہے اور اس سسٹم کے اندر ان عورتوں کی باتیں کسی بھی طرح سے نظر انداز نہیں کی جاسکتیں ۔اس کتاب میں مختلف ابواب کے علاوہ اس کا خاص طور سے اہتمام کیا گیا ہے کہ مختلف ریاستوں کی عورتوں کی باتوں کو براہ راست پڑھنے والوں کے سامنے رکھا جائے ۔ان میں تمام باتوں کے علاوہ ان کے سوالات بھی اپنے آپ قائم ہوگئے ہیں ۔میں صرف ایک مثال دینا چاہتی ہوں کہ یہ عورتیں کہیں نہ کہیں یہ بھی چاہتی ہیں کہ عورتوں کو بھی شریعت کا علم ہونا چاہیے ،کیوں کہ وہ شریعت کے بارے میں عام طور سے کچھ نہیں جانتی اور ان کو جو بھی بتا یا جاتاہے ان کو ماننے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ (ص: 174)

مختصراً یہ کتاب عورتوں کی زندگی کی ایک بڑی تصویر پیش کر تی ہے ،اور ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان پسماندہ عورتوں کے لیے مسلم سماج کب مخلص ہوگا؟اور آخر کب تک مذہبی مہا بیانیوں کے نیچے عورت کی آواز کا گلا گھونٹا جائے گا ؟