جن لوگوں کو بھی لگتا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے یا پھر اس نے ہندووں کے مفاد کو نظر انداز کیا ، وہ ذرا مسلمانوں کےموجودہ سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی حالات کے سرکاری اعداد و شمار کو بھی جان لیں۔
جمعرات کے روز ممبئی میں منعقد “انڈیا ٹوڈے کانکلیو” میں بولتے ہوئے کانگریس کی سابق صدر اور یو پی اے چیئرمین سونیا گاندھی نے افسوس ظاہر کیا کہ عوام کے بیچ بی جے پی نے کانگریس کی شبیہ ایک “مسلم “پارٹی کی بنا دی ہے، حالانکہ اگلے ہی جملہ میں انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ کانگریس میں مسلمان موجود تو ہیں، مگر پارٹی میں اکثریت ہندوؤں کی ہے، اس طرح کا پروپگینڈہ پھیلانے کےپیچھےحریف بی جے پی کا اصل مقصد کانگریس کواکثریتی ہندو طبقہ کی نظر میں بدنام کرنا ہے کہ وہ خود کوان کا واحد اور واجب نمائندہ باور کرانا چاہتی ہے، کانگریس نے بھی اپنی شبیہ کو “دُرست ” کرنے کے لئے، اپنے سرکردہ لیڈروں کو مندر بھیجنا شروع کر دیا ہے، مگر جو اصل سوال ہے اس سےعموماً گریز کیا جا رہا ہے:کانگریس واقعی ایک “مسلم” پارٹی ہے؟
اگر کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہوتی تو کیا ان کی حالت اس قدر خراب ہوتی ؛ کیوں کہ کانگریس نے آزاد ہندوستان کی سیاست میں سب سے زیادہ وقت تک راج کیا ہے اور اس کا تسلط ہر طرح محسوس کیا گیا، وہیں دوسری طرف جب ہم مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی،معاشی اور سیاسی حالات پر نظر ڈالتےہیں تو ہمیں ان کے مابین فرقہ وارانہ تشدد، غربت، نا خواندگی، بےروزگاری اور مسلسل گرتی سیاسی نمائندگی کا خوفناک منظردکھائی دیتا ہے؟ اگر کانگریس مسلم پرست ہوتی یا پھر اس نے کم از کم مسلمانوں کی منہ بھرائی (تُشٹی کرن)اب تک کی ہوتی تو پھر مسلمانوں کی حالت کیا اس قدر خراب ہوتی؟
ان سارے پروپگینڈےسے دور حقیقت یہ ہے کہ بھگوا عناصر نے مسلمانوں سے کھلی نفرت اور دشمنی کر اپنی سیاست کھڑی کی ہے، اور کانگریس نے بیشتر اوقات مسلمانوں سے کئے گئے وعدے کو پورا نہیں کیا ہے اور اس طرح سے اس نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ انتخاب در انتخاب کانگریس مسلمانوں سے وعدہ کرتی رہی اور ان کے ووٹ سے اقتدار میں آتی رہی ، مگر ان کے مسائل کو لے کر اس نے کبھی سنجیدگی نہیں برتی ۔
سال 1885 سے ہی ، جب کانگریس پارٹی کا قیام عمل میں آیا، مسلمانوں کو لے کر کانگریس پارٹی میں ایک رائے نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اپنے پروگرام اور نظریہ کے اعتبار سے سیکولر تھی اور اب بھی ہے، مگر شروع کے دن سے ہی پارٹی کے اندر ایک بڑِی تعداد میں ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان کو ہندو سے منسوب کر کے دیکھتے تھے، ان کی قومیت کے تصور میں مسلمان ہندوستانی معاشرہ میں”غیر” (Other) کی حیثیت سے دیکھا گیا۔
تحریک آزادی کے دوران کانگریس کے بڑے بڑَے لیڈروں نے (ہندو )مذہب اور سیکولر سیاست کو جان بوجھ کر ملانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں کانگریس کو لے کر بہت سارے شک و شبہات پیدا ہونے شروع ہونے لگے۔ حالات اس قدر بگڑے کہ خود کانگریس کے لیڈران انسدادِ گئوکشی تحریک کے نام پر ان کو نشانہ بنایا ۔ اس طرح کے کئی معاملات بہار میں پیش آئے اور مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے اور ان کی کانگریس سے ناراضگی اور علاحدہ پسندی کا فائدہ آگے چل کر مسلم لیگ نے اُٹھایا۔ یہا ں اس بات کوواضح کرنا ضروری ہے کہ کانگریس کی قیادت اعلیٰ سطح پر عموماً سیکولر ازم اور ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہے مگر مقامی سطح پر کانگریسی کارکنان اور ہندو فرقہ پرست عناصر میں بسا اوقات فرق کرنا بےحد مشکل امر ہو جاتا ہے۔
1935کے گورمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے بعد متعدد شعبوں میں بنی کانگریس کی سرکار بھی مسلمانوں کے توقعات پر کھری نہیں اُتری اور لیڈرشپ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ان کے مذہب کی وجہ سے بھید بھاو برتا گیا۔ مثال کے طور پر 1937میں جب کانگریس نے بہار میں حکومت بنائی اس وقت اس نے مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ساتھ اقتدار ساجھا نہیں کیا اور جب بات وزیر اعلیٰ بنانے کی ہوئی تب بھی اس نے سید محمود جیسے مستحق سینئر لیڈر کو نظر انداز کر شری کرشن سنگھ کو فوقیت دی، کانگریس کی مسلمانوں کے ساتھ اقتدار ساجھا نہ کرنے کی رویہ نے ہی کچھ ہی سال کے اندر انتہا ئی کمزور ہو چکی جناح کی مسلم لیگ کو ایک نئی جان دی اور ہندستانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ تقسیم ملک وجود میں آیاجس میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے اور نہ جانے کتنے بے گھر۔
آزادی کے بعد سیکولر قومیت کے نام پر کانگریس نے مسلمانوں کو مل رہے ریزرویشن اور سپیرٹ الیکٹوریٹ(Separate Electorate) کو ختم تو کر دیا مگر اس کی بھرپائی کیسے ہو اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ دلت مسلمانوں کو درج فہرست ذات کے زمرے سے نکال دیا گیا کیوں کہ وہ “ہندو “نہیں ہیں۔یہ کون سی منطق تھی کہ ایک ہندو دلت کو ایس سی ریزویشن تو مل سکتا ہے مگر اسی جیسی حالت والے ایک مسلم یا عیسائی دھوبی کو ا س فہرست سے دور رکھا گیا ہے؟
مسلمانوں اور دیگر اقلیتی طبقوں کے مذہبی اور ثقافتی حق کی ضمانت تو ہندوستانی آئین میں مل گئی اور اس کے لئے کانگریس مبارک باد کی مستحق ہے، مگر ریزرویشن یا دیگر منصوبوں کے فقدان میں مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں میں شرح بڑی تیزی سے گر نی شروع ہو گئی، سٹون آئی ولکنسون(Steven I Wilkinson) نے کئی سارے اعداد و شمار پیش کئے ہیں جن میں انہوں نے دکھایا ہے کہ1960،1970 اور1980 کے دہوں تک آتے آتے مرکزی حکومت کے اندر کام کر رہے محکموں میں مسلمانوں کی کی شرح 2 سے 3فیصد ہو گئی ، جو آزادی کے وقت پائی جانے والی شرح سے کافی کم ہے۔ مثال کے طور پر 1947 میں مسلمانوں کی سول سروسمیں شرح 25 فیصد تھی۔ ان کی نمائندگی اسی طرح فوج اور پو لیس محکموں میں بھی بڑی تیزی سے گری۔
آزاد ملک میں سیکولر حکومت ہونے کے باوجود بھی فرقہ واریت اور اس سے وابستہ تشدد کبھی بھی پوری طرح سے نہیں تھما، اب تک ہزاروں کی تعداد میں ایسے فسادات ہوئے ہیں ، جس میں مسلمانوں کی طرح نقصان کسی نے نہیں جھیلا ہے۔تشدد کی آگ میں جو مسلمان جلے یا جو املاک تباہ ہوئے وہ تو ہے ہی مگر اس سے بھی زیادہ نقصان اس نے لوگوں کے نفس کو پہونچایا ، جو لوگ ہر وقت عدم تحفظ میں مبتلا رہیں گے وہ اپنی ترقی کے بارے میں بھلا کیا کر پائیں گے، یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کے حالات کئی شعبوں میں دلتوں سے بھی زیادہ خراب ہیں، مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ ہندستانی سیاست میں فرقہ پرست پارٹی سے یہ کون کہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹی بھی ان کے لئے انصاف کی بات کرنے سے ڈرتی ہے اور مسلمانوں کے نام پر نافذ کئے گئے سارے منصوبے اُونٹ کے منہ میں زیرا کے برابر ہیں۔
جن لوگوں کو بھی لگتا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے یا پھر اس نے ہندووں کے مفاد کو نظر انداز کیا ، وہ ذرا مسلمانوں کےموجودہ سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی حالات کے سرکاری اعداد و شمار کو بھی جان لیں۔ سماجی علوم کے نامور اسکالرکرسٹوفر جفرلوٹ (Jaffrelot Christophe) نے مختلف معتبر آنکڑوں کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ مسلمان تقریباً ہر شعبوں میں دیگر مذہبی گروپ سے پچھڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کی نمائندگی سرکاری محکموں میں ان کی آبادی سے بہت ہی کم ہے، وہیں انفارمل سیکٹر میں جہاں کسی بھی طرح کی سماجی تحفظات موجود نہیں ہیں، وہاں ان کا شرح بہت ہی زیادہ ہے، سچر کمیشن کا حوالہ دے کر جفرلوت کہتے ہیں کہ جب بات مسلمانوں کی آمدنی کا ہے وہاں بھی وہ دیگر مذہبی گروپ کے مقابلے کافی کم ہے، خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کی حالت تقریبا ًدلت کے برابر ہے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی شرح خواندگی دوسرے مذہبی گروپ سے کم ہے وہِیں ان کے درمیان ڈراپ آوٹ بہت ہی زیادہ ہے، سیاست کے میدان میں بھی ان کی حالت انتہائی کمزور ہو چکی ہے، بی جے پی کے پاس اس وقت تقریبا 1400 رکن اسمبلی ہے جس میں مسلمانوں کی صرف 4ہے۔
اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ہے وہاں بی جے پی نے ایک بھی ٹکٹ مسلم کو نہیں دیا اسی طرح پارلیامنٹ میں بھگوا پارٹی کو واضح اکثریت ہے مگر اس کے بینر سے ایک بھی مسلم امیدوار منتخب ہو کر نہیں آیا۔ تبھی تو مسلمانوں کی نمائندگی آج پارلیامنٹ میں 4فیصد ہو گئی ہے جو 1957 سے سب سے کم ہے جہا ں فرقہ پرست طاقتیں ان کو کھلے عام ٹکٹ دینے سے انکار کر رہی ہے اور سار انتخابی تشہیر مسلم مخالف ایجنڈے پر لڑ رہی ہے وہِیں کانگریس اور دیگر سیاسی جمات سیکولر راستہ اپنانے کے بجائے، اپنے آپ کو مسلم مسائل سے دور کر رہی ہے اور مسلمان لیڈروں کو نمائندگی دینے سے کترا رہی ہے۔ مگر اس کے برعکس مسلمانوں کےتعداد جیلوں میں ان کے آبادی سے کہیں زیاہ 19فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
مذکورہ دلائل کے ساتھ میں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کانگریس کو مسلم پرست کہنا سراسر غلط ہے اور ایک انتہائی خطرناک پروپگنڈا ہے، جس کو پھیلا کر بی جے پی اور اس سے ڈر کر کانگریس مسلمان اور جمہوریت دونوں کا نقصان پہنچا رہی ہے۔ کانگریس کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق لیں اور مسلمانوں کو اس کا واجب حق دے۔آخر میں پھر سے دوہرانا چاہوں گا کہ کانگریس کبھی بھی مسلمانوں کی پارٹی نہیں رہی ہے اور نہ کوئی مسلمان اسے مسلم پرست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لئے اور ملک کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اپنے سیکولر اور جمہوری اُصول کو سچے من سے اپنائے اور اس پر عمل پیرا ہو۔
Categories: فکر و نظر