گھوٹالہ کے 50 سے زیادہ معاملے زیر التوا ہونے کے باوجود سی بی آئی نے 1 دن میں اسپیشل ویاپم برانچ کے 20 افسروں کا تبادلہ کیا ہے۔
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے مشہور ویاپم گھوٹالہ کی جانچکر رہی سی بی آئی نے گھوٹالے کی تفتیش کے لئے بنی اسپیشل ویاپم برانچ سے ایک دن میں 20 افسروں کا تبادلہ کیا ہے۔ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق ان تمام افسروں کو دہلی میں سی بی آئی کے اینٹی کرپشن برانچ میں بھیجا گیا ہے۔ گھوٹالے سے جڑے 50 سے زیادہ معاملے اب بھی زیر التوا ہیں۔
مدھیہ پردیش ویاپم کے ذریعے مختلف محکمہ جات میں ہوئی تقرری اور داخلہ امتحانوں میں دھاندلی کے الزام مئی 2012 میں سامنے آئے تھے۔ تب اس کی تفتیش اسپیشل ٹاسک فورس نے شروع کی تھی۔2015 میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سی بی آئی کو ویاپم سے جڑے تمام معاملوں کی تفتیش سونپی گئی تھی، جس کے لئے سی بی آئی ڈائریکٹر کی قیادت میں 40 افسروں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔
اس کے بعد 2016 میں سی بی آئی نے ایک ‘ اسپیشلویاپم اسکیم برانچ ‘ کی تشکیل کی تھی، جس میں قریب 100 افسروں کو شامل کیا گیا تھا۔ اس میں ڈی آئی جی سطح سے لےکر اے ایس پی، ڈی ایس پی اور انسپکٹر سطح تک کے ملازم شامل تھے۔ٹائمس آف انڈیا کے مطابق حال ہی میں ہوئے ان 20 تبادلوں کے بعد گزشتہ 6 مہینوں میں اس ٹیم کا تقریباً 70 فیصدی اسٹاف کم ہو چکا ہے۔ ان تبادلوں کی خبر سامنے آنے کے بعد اپوزیشن نے اس پر سوال اٹھائے ہیں۔
کانگریس ترجمان ،کے کے مشرا نے اس اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘ کانگریس نے بہت امیدوں کے ساتھ اس معاملے کی سی بی آئی تفتیش کی مانگ کی تھی، لیکن اس نے اس گھوٹالے کے اہم لوگوں کو ہی کلین چٹ دی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ان کو یہ برانچ بند کر دینی چاہیے۔ ‘
حالانکہ مرکزی ایجنسی سے جڑے افسروں کا کہنا ہے کہ زیر التوا 50 معاملوں میں سے 40 ایڈوانسڈ اسٹیج پر ہیں اور افسروں کا تبادلہ ‘ روٹین ‘ کے تحت ہوا ہے۔ایک سی بی آئی افسر نے اس اخبار کو بتایا، ‘ 100 سے زیادہ معاملوں میں، ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے اور سماعت چل رہی ہے۔ روٹین کی وجہ سےکچھ افسروں کا تبادلہ ہوگا۔ برانچ بند کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ‘
اس خبر کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ جب ویاپم اسپیشل برانچ کی شروعات ہوئی تھی، تب بہت کم افسروں نے اس سے جڑنے میں دلچسپی دکھائی تھی۔ اس کے بعد سی بی آئی نے خود مختلف برانچ سے افسروں کو چنا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ کچھ افسروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس معاملے کی جڑ تک پہنچنے میں دو دہائی کا وقت لگےگا۔
Categories: خبریں