پورے ملک میں 1765 رکن پارلیمان اور ایم ایل اے سے جڑے 3045 مجرمانہ معاملے زیر التوا : مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا، یوپی سب سے آگے
نئی دہلی : مرکز نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ پورے ملک میں مختلف ریاستوں میں 1765 رکن پارلیمان اور ایم ایل اے سے جڑے 3045 مجرمانہ معاملے زیر التوا ہیں۔جسٹس رنجن گوگوئی کی رہنمائی والی بنچ کے سامنے داخل حلف نامہ کے مطابق اتر پردیش (یوپی)اس میں سب سے آگے ہے اور اس کے بعد تمل ناڈو اور بہار ریاست ہیں۔یوپی ریاست میں 248 رکن پارلیمان اور ایم ایل اے کے خلاف 539 معاملے زیر التوا ہیں ،تمل ناڈو میں 178 رکن پارلیمان اور ایم ایل اے کے خلاف 324 معاملے زیر التوا ہیں، بہار میں 144 رکن پارلیمان اور ایم ایل اے کے خلاف 306 معاملے زیر التوا ہیں اور مغربی بنگال میں 139 ایم ایل اے کے 303 معاملے سامنے آئے ہیں۔
وزارت نے 2014 اور 2017 کی مدت کے لئے مختلف اعلیٰ عدالتوں، ریاستی اسمبلیوں اور مرکز حکومتی ریاستوں سے جانکاری جمع کی ہےلیکن اس کو ابھی تک مہاراشٹر اور گووا سے رپورٹ حاصل نہیں ہوئی ہے۔رکن پارلیمان اور ایم ایل اے سے جڑے معاملوں کے ٹرائل کے لئے خصوصی عدالتوں کی تشکیل کے فیصلے کے بارے میں 11 ریاستوں نے اپنی رپورٹ مرکز کو بھیج دی ہے۔ یہ ریاست آندھر پردیش، تلنگانہ، یوپی، مہاراشٹر، کیرل، بہار، دلی، تمل ناڈو، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور مغربی بنگال ہیں۔ حکومت نے پارلیمانی اور اسمبلی ارکان سے جڑے معاملوں کے ٹرائل کے لئے خصوصی عدالتوں کی تشکیل کے لئے رقم کی تفصیلی متناسب مختص کرنے کے بارے میں بھی حلف نامہ دائر کیا ،گزشتہ سماعت میں حکومت نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ 12 خصوصی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں اور ریاستوں کو 7.80 کروڑ روپیے سے زیادہ مختص کیا گیا ہے۔
دراصل حکومت نے دسمبر 2017 میں سپریم کورٹ کی ہدایتوں کا جواب دیا ہے جس میں رکن پارلیمان اور ایم ایل اے کے خلاف زیر التوا معاملوں کی تعداد مانگی گئی تھی۔ عدالت نے ریاستوں کو ہدایت دی تھی کہ متعلقہ اعلیٰ عدالتوں کے مشورے سے یہ متعین کرے کہ یہ خصوصی عدالتیں مارچ 2015 تک کام کرنے لگیں گی ۔ اس سے پہلے مرکز نے اپنے حلف نامہ میں عدالت کو مطلع کیا تھا کہ ایک سال میں خصوصی عدالتوں کے ذریعے سیاست دانوں کے خلاف زیر التوا 1581 مجرمانہ معاملے کا حل ہوگا۔
غور طلب ہے کہ دلی بی جے پی رہنما ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے نے ایک مفاد عامہ عرضی دائر کی تھی جس میں قصوروار امیدواروں پر انتخاب لڑنے سے پوری طرح سے پابندی لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔ گزشتہ سال 1 نومبر کو کورٹ نے حکومت سے رکن پارلیمان اور اسمبلی رکن کے خلاف مجرمانہ معاملوں کے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالتوں کی تشکیل کے لئے ایک اسکیم کے ساتھ آنے کو کہا تھا۔
Categories: خبریں