نوجوانوں کو یہ پانچ سال یاد رکھنا چاہیے۔ جیسے رہنماؤں نے ان کو گھر بٹھا دیا ویسے ہی ووٹنگ آنے پر وہ ایک اور دن گھر بیٹھ لیں۔ نوٹا تو ہے ہی۔
پارلیامنٹ کی مستقل کمیٹی کو وزارت ریل نے کہا ہے کہ اس کا ارادہ تمام خالی عہدوں کو بھرنے کا نہیں ہے۔ وہ اپنے خاص کام کے لئے عہدوں کو بھرےگی مگر باقی کام کے لئے آؤٹ سورسنگ جیسا آپشن دیکھ رہی ہے۔ یعنی بہت سارے عہدے ٹھیکے پر دئے جانے ہیں جن کا کچھ اتاپتا نہیں ہوتا ہے۔ آپ بھی مستقل کمیٹی کی رپورٹ کے صفحہ نمبر 15 پر یہ جواب پڑھ سکتے ہیں۔ریل وزیر گوئل کو یہ بات طالب علموں سے کہہ دینی چاہیے کہ ہماری پالیسی سارے خالی عہدوں کو بھرنے کی نہیں ہے۔ ویسے اب سرکاری نوکری بھی ٹھیکے کی نوکری جیسی ہو گئی ہے۔ پنشن نہیں ہے۔ کم تنخواہ میں کام کے بےشمار گھنٹے یہاں بھی ہیں۔ تبھی تو منگل کو ریلوے ملازم پرانے پنشن کےنظام کی بحالی کی مانگ کو لےکر مظاہرہ کرنے جمع ہوئے تھے۔
لوک سبھا کے موجودہ سیشن میں ہی ریل وزیر نے تحریری جواب میں کہا ہے کہ ریلوے میں 2 لاکھ 22 ہزار سے زیادہ عہدے خالی ہیں۔ مستقل کمیٹی کی رپورٹ میں بھی یہی اعداد و شمار ہے۔ 90ہزار عہدوں کی بھرتیاں نکلی ہیں مگر ریلوے میں بھرتیوں کو پورا کرنے کا اوسط وقت دو سے تین سال ہے۔ اس لئے کب کس وجہ سے یہ رک جائے اور مجھے پھر سے 2022 میں بیوقوف بن چکے نوجوانوں پر نوکری سریز کرنی پڑ سکتی ہے۔ 90ہزاربھرتیاں نکلی ہیں مگر خالی عہدوں کی تعداد تو 2 لاکھ 22 ہزار ہیں۔ باقی کا 1 لاکھ 30 ہزار کب بھرےگا؟ جب 2014 سے 2019 کے درمیان والے بوڑھے ہو جائیںگے تب؟ آنے والے وقت میں ہندو مسلم کے نئے نئے ورژن لانچ کئے جانے والے ہیں تاکہ نوجوان بےروزگاری کا سوال چھوڑ دیں اور مندر تعمیر کے خواب میں کھو جائیں۔
بڑھتی بےروزگاری اور بےروزگاروں کے غصے سے حزب مخالف کی زبان لپلپا رہی ہے۔ میری رائے میں غصے کا فائدہ نہ تو حکمراں جماعت کو ملنا چاہیے اور نہ حزب مخالف کو۔ غصے میں دیا گیا ووٹ زیرو نتیجہ لا رہا ہے۔ جیسے آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ آپ نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کی نوکری جب نہیں نکل رہی تھی تب حزب مخالف نے سوال اٹھایا؟ اس کے رہنما سڑکوں پر تھے؟ جب حکومت لوک سبھا میں لکھکر دے رہی ہے کہ پانچ سال سے خالی پڑے عہدے ختم کئے جائیںگے تب حزب مخالف نے پوچھا کہ یہ عہدے خالی کیسے رہ گئے، کیا ان عہدوں کے لئے بھرتیاں نکالی گئیں تھیں؟ حکمراں جماعت اور حزب مخالف دونوں نوجوانوں کو الو سمجھتے ہیں۔ کئی بار نوجوان ان کے جھانسے میں آکر اس کو صحیح ثابت کر دیتے ہیں۔
مفادپرست اورسست حزب مخالف بھی ایسے سوالوں پر ہنگامہ نہیں کرتا ہے کیونکہ ایسی پالیسیاں تو اسی کے دور کی ہیں اور اس کے آنے پر بھی جاری رہیںگی۔ کیا حزب مخالف ان پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار ہے؟ تو آپ ایک سوال خود سے پوچھیں؟ کیا آپ کے غصے کا فائدہ ان کو ملنا چاہیے؟ جو ناراضگی آپ کے لئے موقع پیدا نہ کر سکے، وہ دوسروں کے لئے کیوں کرے؟
27 دنوں تک لگاتار نوکری پر سریز کرنے کے بعد بھی کسی بھی جماعت کے خاص رہنما نے سلیکشن کمیشن کی حالت پر کچھ نہیں کہا۔ کسی کو نوکری نہیں دینی ہے سب کو بےروزگاری پر غصے کا فائدہ اٹھانا ہے۔ حکمراں جماعت اور مخالف کے رہنماؤں کا تکبر بہت بڑھ گیا ہیں۔ جس کے پاس ہزار ہزار کروڑ معمولی انتخاب میں پھونک دینے کے لئے ہوں ایسے دو کوڑی کا رہنما آپ کی بےروزگاری کے سوال پر رو رہے ہوںگے، مجھے نہیں لگتا۔ مگر آپ ہی ان کے پھینکے ہوئے ٹکڑے پر سر پر پٹی باندھکر زندآباد کرتے ہیں۔
اس لئے بےروزگاری کے سوال کا جواب تبھی ملےگا جب آپ اپنے سوالوں کے تئیں وفادار رہیںگے۔ اس سوال کو کام کرنے کے بہتر حالات اور سماجی تحفظ سے جوڑیںگے۔ ہر طرح غلامی چل رہی ہے۔ یہ جن پالیسیوں کی وجہ سے ہے ان میں حکمراں جماعت اور حزب مخالف دونوں کا یکساں عقیدہ ہے۔ ان کا عقیدہ آپ کے خوابوں اور آپ کی بھوک میں نہیں ہے۔
آپ نوجوانوں نے دیکھا کہ بینکروں کی کتنی حالت خراب ہے۔ وہ غلام کی زندگی جی رہے ہیں۔ ان کی کمر اور گردن ٹوٹ چکی ہے۔ وہ طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ بولیں یا روئیں۔ وہ طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ صرف تنخواہ زیادہ چاہیے یا اس جھوٹ اور دھوکے سے آزادی جو ان پر دباؤ ڈالکر کسانوں اور گاہکوں سے کروایا جا رہا ہے۔ وہ طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ مر جانے کی حد تک بینک میں کام کرتے رہیں یا تنخواہ کے ساتھ اس سوال کو بھی اہم بنا دیں۔
ان کی حالت پر کئی دنوں سے رپورٹ کر رہا ہوں۔ کسی خاص رہنما نے نہیں کہا۔ کیونکہ اصل مدعے کے بہانے وہ چاہتے تو ہیں کہ ان کی حمایت میں ہوا بن جائے لیکن آپ کا بھلا ہو اس کے لئے بولتے نہیں ہیں۔ اپنی پالیسیاں بدلتے نہیں ہیں۔ کیونکہ صنعت کاروں کے لئے بینک لوٹے جانے کی چھوٹکے مستفید وہ بھی رہے ہیں۔نتیجہ آج تیرہ لاکھ بینکر غلامی کی زندگی جی رہے ہیں۔ بینکوں میں لاکھوں عہدے خالی ہیں مگر بحالی نہیں ہو رہی ہے۔ اس کے لئے کون رہنما سڑکوں پر آیا ہے؟ ان کو رہنما خریدنے اور ٹکٹ بیچنے کے روزگار سے فرصت نہیں ہے۔ کئی بینکروں نے مانا بھی کہ وہ ہندو مسلم نشے کے شکار ہو گئے تھے۔
گورکھ پور اور پھول پور میں کوئی ووٹ دینے نہیں گیا۔ لوگوں نے گھر بیٹھکر ٹھیک کیا۔ حکمراں جماعت اور حزب مخالف کی فالتو ہوتی جا رہی سیاست کے لئے آپ کب تک لائن میں لگیںگے اور بیوقوف بنیںگے۔ حکومت بدلتی ہے۔ سسٹم نہیں بدلتا ہے۔ کسی نے یونیورسٹی سریز کی حالت پر نہیں بولا۔ سب یہی دعا کرتے رہے کہ اسی سے جوان بھڑک جائیں اور اقتدار کی گیند ان کے اکھاڑے میں آ جائے۔ حالت تو انہوں نے بھی بگاڑی اور نیت ابھی بھی پرانی والی ہے۔ حکمراں جماعت آپ کو غلام سمجھا ہے کہ آپ جائیںگے بھی تو کہاں جائیںگے۔ کیا آپ غلام سمجھے جانے سے خوش ہیں؟ جیسے آپ کو بیوقوف بنایا گیا اسی طرح 18 سال کے پہلے رائےدہندگان کو کھوجا جا رہا ہے تاکہ نئے لوگوں کو الو بنایا جائے۔ گاؤں قصبوں سے لےکر شہروں تک میں آپ کے اور آپ کو بچوں کے لئے اچھے کالج نہیں بچے ہیں۔ نہ رہنما چلّا رہے ہیں نہ نوجوان۔ یہ کیسا مردہ امن ہیں؟ کیا ہمارے نوجوانوں کی اتنی اوقات رہ گئی ہے کہ وہ حکمراں جماعت اور حزب مخالف کے درمیان محض فٹ بال ہیں۔
نوجوانوں کو یہ پانچ سال یاد رکھنا چاہیے۔ جیسے رہنماؤں نے ان کو گھر بٹھا دیا ویسے ہی ووٹنگ آنے پر وہ ایک اور دن گھر بیٹھ لیں۔ نوٹا تو ہے ہی۔ اپنے مدعے اور غصے کے تئیں ایماندار رہیں ورنہ پھر کوئی دوسرا بےایمان آپ کو لوٹ لے جائےگا۔ کسی بھی قسم کی جذباتیت سیاست میں آپ کو ڈوبا دیتی ہے۔
(بہ شکریہ قصبہ)
Categories: فکر و نظر