سوشل میڈیا میں کچھ چیزیں تفریح اور مزاح کے طور پر خوب مشہور ہو جاتی ہیں ۔ گزشتہ ہفتے ایک تصویر بہت عام ہوئی جو ایک سرٹیفکیٹ یا سند کی شکل میں تھی۔
14 مارچ کو معروف سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ اس جہان فانی کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے۔ ہاکنگ کا ماننا تھا کہ کائنات کی تخلیق قدرت کے اصولوں پر از خود ہوئی ہے اور کوئی خدا اس کا خالق نہیں ہے۔ ہاکنگ خدا کو ماننے والوں میں سے نہیں تھے ۔ ہاکنگ کے اس عقیدے کے برخلاف مرکزی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر ہرش وردھن نے انڈین سائنس کانگریس کے 105 ویں اجلاس میں یہ بیان دیا کہ ہاکنگ کا ماننا تھا کہ ہندوستان کی مذہبی کتاب یعنی ویدوں میں اس طرح کی تھیوری موجود ہیں جو البرٹ آئنسٹائن کی معروف تھیوری آف رلیٹیوٹی سے بھی ا علی ٰدرجے کی ہیں !
سب سے پہلے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ خدا کو نہ ماننے والے ہاکنگ مذہب یا مذہبی کتابوں کے حوالے کیوں دینے لگے ؟ یہ عام فہم بات ہے کہ مذہب کا انکار کرنے والا شخص مذہبی اصولوں کو سائنسی اصولوں سے بہتر نہیں بتا سکتا ! لہٰذا ڈاکٹر ہرش وردھن کی بات قبول نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں پایا کے ہرش وردھن کے دعوے جھوٹے ہیں۔ بقول الٹ نیوز، انڈین ایکسپریس نےلکھا کہ جب ہرش وردھن سے انکے دعووں کا ثبوت مانگا تو کوئی صحیح جواب نہیں مل پایا۔
ہاکنگ کے نام سے جس تھیوری کو ہرش وردھن نے عام کیا وو کوئی نئی چیز نہیں ہے، اس طرح کی باتیں پہلے بھی سوشل میڈیا میں موجود رہی ہیں۔ یہ بات سب سے پہلے اسٹیفن ہاکنگ کے نام سے چلنے والے فیس بک پیج پر لکھی گئی تھی جس کو اساس بنا کر serveveda.org نامی ویب سائٹ نے ایک مضمون بھی چھاپا! یہ فیس بک پیج اسٹیفن ہاکنگ کا ذاتی پیج نہیں ہے بلکہ کسی نے انکے نام سے پیج بنا کر یہ غلط جانکاری عام کی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کا آفیشل پیج یہاں دستیاب ہے جس پر ویدوں سے متعلق ایسی کسی بھی بات کا ذکر نہیں ہے جو ہرش وردھن نے اپنے بیان میں کہی ہیں۔ اور نہ ہی ایسی کوئی انفارمیشن اسٹیفن ہاکنگ کی آفیشل ویب سائٹ پر ملتی ہیں۔ لہذا ڈاکٹر ہرش وردھن کے بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں ۔
گزشتہ ہفتہ سوشل میڈیا میں یہ بہت عام ہوا کہ امریکا کے نیوز چینل فاکس نیوز نے اپنے سروے میں نتیجہ نکالا ہے کہ 2017 میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی دنیا کے دوسرے سب سے بڑے بدعنوان پرائم منسٹررہے ہیں ، اور فہرست میں اول درجے پر پاکستان کے پرائم منسٹر نواز شریف رہے۔ سب سے پہلے ایک تصویر پبلک وائس نامی فیس بک پیج پر شائع ہوئی جہان سے یہ وائرل کی گئی۔ الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں بتایا کہ فاکس نیوز پائنٹ نامی جس ویب سائٹ کا سروے دکھایا گیا ہے اس کا امریکی چینل فاکس نیوز سے کوئی تعلّق نہیں ہے اور اسکا سروے قابل تصدیق نہیں ہے۔ ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وقتا ًفوقتا ً اس ویب سائٹ نے اس طرح کے سروے چھاپے ہیں جو حقیقت کے برعکس رہے ہیں اور جن کے رد میں سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے بھی گزشتہ سال میں لکھا ہے۔ اس طرح کی جھوٹی خبروں میں بی بی سی نیوز کو بھی بدنام کیا جا چکا ہے !
پنجاب نیشنل بنک غبن کے تقریباً دو ہفتے بعد ایک تصویر سوشل میڈیا میں کافی گفتگو میں رہی۔ تصویر میں سابق ریزرو بنک گورنر رگھورام راجن کے بیان کو ان کی تصویر کے ساتھ عام کیا گیا تھا۔ جس میں رگھو رام راجن کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے نیرو مودی کے غبن کے بارے میں راہل گاندھی اور چدمبرم کو آگاہ کیا تھا لیکن ان کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا گیا ، اس لئے پی این بی غبن میں ان کو ذمّہ دار ٹھہرانا غلط ہے۔ بوم لائیو کا ماننا ہے کہ یہ بیان جعلی بیان ہے جسے رگھو رام راجن کی طرف ،منسوب کیا گیا ہے۔ ایک ای میل کےذریعے جب شکاگو میں مقیم راجن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بوم لائیو کو بتایا کہ یہ باتیں سراسر غلط ہیں اور ان پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے۔
سوشل میڈیا میں کچھ چیزیں تفریح اور مزاح کے طور پر خوب مشہور ہو جاتی ہیں ۔ گزشتہ ہفتے ایک تصویر بہت عام ہوئی جو ایک سرٹیفکیٹ یا سند کی شکل میں تھی۔ سند میں کہاگیا تھا کہ یہ سند اقوام متحدہ کے یونیسکو نے جاری کی ہے اور گورکھ پر کو ملک کا پہلا اسمارٹ سٹی قرار دیا ہے ! یہ تصویر جیسے ہی سوشل میڈیا میں عام ہوئی تو صحافی شوبھا ڈے نے اسکو ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا ! ٹوئٹر انڈیا نامی ایک نان آفیشل اکاؤنٹ نے جب یونیسکو سے اسکی صداقت پر جواب مانگا تو یونیسکو کو کہنا پڑا کہ یہ جھوٹی تصویر ہے اور یونیسکو یا اسکے کسی بھی فرد نے ایسا کوئی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا ہے !
Categories: فکر و نظر