گراؤنڈ رپورٹ : جھارکھنڈ میں پرم ویر چکر فاتح لانس کے جاں باز البرٹ اکاکی یادگار کی تعمیر کی بنیاد رکھے جانے کے 27 مہینے بعد وہاں ایک اینٹ بھی نہیں جوڑی جا سکی ہے۔ اب سماجی سطح پر عوامی حمایت اور اقتصادی مدد جٹاکر اس کو بنانے کی مہم شروع کی جا رہی ہے۔
شہیدوں کے احترام اور ان کے گاؤں میں ترقی کو لےکر جھارکھنڈ میں حکومت کئی موقع پر اپنے کمٹ منٹ کا اظہار کرتی رہی ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پرم ویر چکر فاتح لانس ہیرو البرٹ اکا کی سمادھی کی بنیاد رکھے جانے کے 27 مہینے بعد تک ریاستی حکومت نے منھ موڑ رکھا ہے۔اس رخ پر البرٹ کے رشتہ دار اور ان کے گاؤں جاری کے لوگ غم زدہ ہیں۔ سمادھی اور شوریہ استھل کی تعمیر ہو سکے، اس کے لئے اب سماجی سطح پر مہم شروع کی جا رہی ہے۔مہم کے تحت البرٹ اکا فاؤنڈیشن نے پرم ویر چکر حاصلکر چکے اس شہید کے رشتہ داروں سمیت گاؤں والوں اور مختلف تنظیموں کی مدد سے یہ کام پورا کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
فاؤنڈیشن کے سربراہ رتن ترکی کہتے ہیں، ‘ بس پانچ روپے یا ایک اینٹ۔ اسی مدد کی درکار ہے۔ ‘ہرعام اور خاص سے پانچ روپے یا ایک اینٹ کی مدد لےکر یہ مہم پوری کریںگے۔ مدد میں ملے پیسے کا پائی پائی حساب بھی عام کیا جائےگا۔ کوئی پانچ روپے سے کم یا زیادہ کی مدد کرےگا، تو اس کا بھی استقبال کریںگے۔ان دنوں جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے لےکر دوردراز گاؤں اور قصبوں میں یہ پیغام پھیلتا جا رہا ہے کہ البرٹ کی سمادھی کی تعمیر میں ہاتھ بڑھائیں۔
جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے 160 کلومیٹر دور قبائلی اکثریتی گملا ضلع میں پہاڑوں اورجنگلات سے گھرا البرٹ اکا کا گاؤں جاری ہے۔غور طلب ہے کہ سال 2015 کے نومبر مہینے میں حکومت نے پہلی دفعہ اگرتلہ واقع البرٹ کی سمادھی استھل سے وہاں کی مٹی منگوائی تھی۔ البرٹ کی شہادت کے 44 سال بعد یہ ممکن ہو سکا تھا۔3 دسمبر 2015 کو البرٹ کی برسی پر مٹی سے بھرا کلس ان کی فیملی والوں کو سونپنے کے لئے رانچی سے گملا لے جایا گیا تھا۔ جس گاڑی پر وہ کلس بھیجا گیا تھا، اس کا جگہ جگہ لوگوں نے شاندار استقبال بھی کیا تھا۔
اس دن جاری گاؤں میں منعقد سرکاری تقریب میں وزیراعلیٰ کے ساتھ حکومت کے آدیواسی فلاح بہبود کے وزیر لوئیس مرانڈی، بی جے پی کے کئی ایم ایل اے سمیت سرکاری اہلکار شریک ہوئے تھے۔ تقریب میں البرٹ کی بیوی بلمدینا اکاکو حکومت نے اعزاز سے نوازا بھی تھا۔اسی موقع پر جاری گاؤں میں سمادھی اورشوریہ استھل بنانے کے لئے بنیاد رکھی گئی۔ یہ کام مقامی ایم ایل اے فنڈ کی طرف سے مکمل کیا جانا تھا، لیکن ایک لمبا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی وہاں ایک اینٹ بھی نہیں جوڑی جا سکی ہے۔
لیکن آج تک البرٹ اکاکی بیوی بلمدینا اکا، فیملی کے ممبروں اور گاؤں والے ا س کے انتظار میں ہی ہیں۔اس بارے میں گملا سے بی جے پی کے ایم ایل اے شیوشنکر ارانو کہتے ہیں، ‘ آخریادگار کی تعمیر کیسے کراتے؟ حکومت نے جو مقدس مٹی منگوائی، اس کو بہادر بیٹے کے گھر والوں نے لینے سے منع کر دیا تھا۔ بھلےہی بنیاد رکھ دی گئی، لیکن اس مقام پر مٹی تو نہیں رکھی گئی۔ مٹی بھرا کلس ابتک ضلع انتظامیہ کے پاس ہے۔ ‘
لیکن حکومت نے دوبارہ البرٹ اکاکے رشتہ داروں کو بھیجکر اگرتلہ واقع سمادھی استھل سے مٹی منگوائی تھی، اس بات پر ایم ایل اے کا کہنا تھا کہ وہ ٹھیک ہے، لیکن پہلے جو مٹی لائی گئی اس کا کیا ہوگا۔ وچاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح سے سمادھی استھل بنے۔غور طلب ہے کہ تین دسمبر 2015 کو سرکاری تقریب میں مٹی کو لےکر سوال کھڑے ہو گئے تھے کیونکہ البرٹ اکا کے رشتہ داروں نے وہ کلس لینے سے منع کر دیا تھا۔اس بارے میں رتن ترکی بتاتے ہیں کہ تب البرٹ کی بیوی بلمدینا اور بیٹا وسینٹ نے خاکساری سے وزیراعلیٰ سے کہا تھا کہ وہ لوگ کیسے مان لیں کہ یہ مٹی البرٹ اکاکے سمادھی استھل کی ہے۔
رشتہ داروں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت کو جب البرٹ کی سمادھی استھل کی جانکاری ملی، تو ان کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ اس کے بعد وزیراعلیٰنے وہ کلس، گملا کے ڈپٹی کمشنر کو محفوظ رکھنے کے لئے سونپ دیاتھا۔اس کے بعد البرٹ کے رشتہ داروں کی خوشی اور اطمینان کے لئے حکومت نے اپنے خرچ پر رتن ترکی اور البرٹ کےبیٹے کی رہنمائی میں دس لوگوں کو پھر سے اگرتلہ بھیجا۔
16 جنوری 2016 کو یہ لوگ اگرتلہ کے دھلکی گاؤں واقع البرٹ کے سمادھی استھل سے مٹی لےکر جھارکھنڈ واپس ہوئے۔البرٹ کے رشتہ دار اور رتن ترکی بتاتے ہیں کہ تریپورہ کے اس وقت کے وزیراعلیٰ مانک سرکار نے ان لوگوں کی عزّت کرنے کے ساتھ وہاں سے مٹی لےکر آنے میں مدد بھی کی تھی۔رتن بتاتے ہیں کہ حکومت نے دوبارہ لوگوں کو اگرتلہ بھیجنے میں دلچسپی ضرور دکھائی، لیکن سمادھی استھل کی تعمیر اور جاری گاؤں کی مربوط ترقی ہو، اس پر خاموشی اختیار کر لی گئی۔
لانس ہیرو البرٹ اکا، ہند وپاک جنگ (1971) میں شہید ہوئے تھے۔ تب وہ محض 29 سال کے تھے۔ متحدہ بہار میں وفات کے بعد پرم ویر چکر کا اعزاز پانے والے وہ پہلے بہادر بیٹے تھے۔ان کو حاصل توصیف نامہ پر ہند وپاک جنگ میں ان کی ویرگاتھا لکھی ہے۔ حکومت ہند نے سال 2000 میں اس بہادر بیٹے کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔
راجدھانی رانچی کے بیچوں بیچ البرٹ کا قد آدم مجسمہ لگا ہے۔ یہ جگہ البرٹ چوککے نام سے مشہور ہے۔آدیواسی سرنا مذہب کے کنوینر اور قبائلی مسائل کےجانکار لکشمی نارائن منڈا بتاتے ہیں کہ چھوٹاناگپور کے قبائلی علاقوں میں کئی فیملی میں لوگ اپنے بچّوں کے نام بڑے فخر کے ساتھ برسا منڈا، البرٹ رکھتے رہے ہیں۔
یہ بہادربیٹے اور جنگجو کے متعلق ان کی محبت اور عقیدت کو ظاہر کرتا ہے۔ دوردراز علاقوں میں پہاڑوں اورجنگلات کے درمیان ان بہادروں کی رزمیہ داستان اب بھی گیتوں میں گونجتی ہے۔
لکشمی نارائن کہتے ہیں، ‘ ایک حد تک ممکن ہے کہ بدلے کے جذبہ میں حکومت نے جاری گاؤں سے منھ موڑا۔ وہ اس لئے کہ سال 2015 میں منعقد سرکاری تقریب میں البرٹ کے رشتہ داروں نے مٹی لینے سے منع کیا تھا۔ ‘
وہ کہتے ہیں کہ عوام کے تعاون سے اب البرٹ کے سمادھی استھل کی تعمیر اور جاری گاؤں کی ترقی ہو، اس کے لئے سماج کے تمام طبقوں کو آگے آنا چاہئے۔رتن ترکی، جھارکھنڈ حکومت میں ٹرائبل ایڈوائزری کاؤنسل کے ممبر بھی ہیں اور البرٹ کی فیملی سے سالوں سے جڑے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ‘ سچ پوچھیے تو انتظار کی انتہا ہو چکی ہے کیونکہ حکومت نے ہی 3 دسمبر 2015 کو جاری گاؤں میں سمادھیاور شوریہ استھل کی بنیاد رکھی تھی۔ آخر اب کن پر بھروسا کریں؟ خود پر ہی تو اس لئے البرٹ کے گاؤں میں شان سے شوریہ استھل بنے، اس کے لئے سب سے تعاون مانگ رہے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک رہا، تو اس محب وطن ،بہادراور جنگجو کی بوڑھی ہو چکی بیوی بلمدینا کی خواہش ان کے جیتے جی پورا کر سکیںگے۔ ‘
غور طلب ہے کہ سال 2010 میں حکومت نے البرٹ کے آبائی جاری گاؤں کو بلاک کا درجہ دیا اور اس کا نام البرٹ پرکھنڈ رکھا گیا ہے۔ یہاں کا پولیستھانہ بھی اسی نام سے کھولا گیا ہے۔ادھر بلمدینا کو شوریہ استھل نہیں بن پانے کا غم تو ہے ہی، اس کی بھی ٹیس ہے کہ ان کا پشتینی مکان بوسیدہ حالت میں ہے۔ اس کی مرمت کے لئے کئی دفعہ انہوں نے حکومت اور صاحبو کا دھیان دلایا، لیکن یقین دہانی کے سوا بات آگے نہیں بڑھی۔
سماجی کارکن جوزفا ترکی کو اس کا دکھ ہے کہ جاری گاؤں کو سال 2010 میں حکومت نے البرٹ بلاک کا درجہ تو دیا، لیکن مکمل بجلی، صحت، آب پاشی، تعلیم کی سہولت کے لئے لوگ دہائیوں سے ترستے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چین پور بلاک صدر دفتر سے جاری تک کی سڑک گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔
جوزفا کہتی ہیں، ‘ اس جاں بازکے نام پر پورے علاقے کے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ علاقے کے کئی جوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی ترغیب بھی البرٹ سے ہی ملتی رہی ہے۔ لیکن انتظامی طور پر ہوتے نظرانداز لوگوں کو بےحد کھٹکتا رہا ہے۔ ‘
البرٹ بلاک جاری کے بی ڈی او،پروین کیرکیٹّا بتاتے ہیں، ‘ بلمدینا جیکے گھر کی مرمت کے لئے تجویز کےضلع صدر دفتر بھیجی گئی ہے۔ منظوری ملتے ہی ان کا گھر ٹھیک کرا دیا جائےگا۔ ‘ حالانکہ یادگار اور شوریہ استھل کی تعمیر کو لےکر بی ڈی او کسی نئی جانکاری سے واقفنہیں ہیں۔
البرٹ فاؤنڈیشن کے ممبر البرٹ اکا کو اس کا گمان ہے کہ ان کے ماں باپ نے محب وطن اور جاں بازبیٹے کے نام پر ان کا نام رکھا ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘ شوریہ استھل بنے اس کے لئے ہم لوگ بڑے پیمانے پر حمایت کی کوشش میں ہیں، لیکن گاؤں کے لوگ اتنا ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت نے کیوں جاری گاؤں سے منھ موڑا۔ ‘
جوائے باکھلا اور نیکی لکڑا کہتے ہیں کہ سمادھی اور اور شریہ استھل بنانے کا کام اگر مشکل ہے، تو ناممکن بھی نہیں۔ ایک بار گاؤں کے لوگ آگے نکل جائیںگے، تو یہ مقصد پورا ہوتا جائےگا کیونکہ البرٹ جیسے جاں بازوں کی گاتھا کو لوگ دل سے الگ کرنا نہیں چاہتے۔
غور طلب ہے کہ پچھلے مہینے کی 18 تاریخ کو قبائلی اکثریتی کھونٹی ضلع کے مختلف گاؤں سے سابق فوجیوں کی ایک جماعت بھی البرٹ کو یاد کرنے جاری گاؤں پہنچی تھی۔ ان میں سے کئی لوگ البرٹ کے ساتھ ایک ہی بٹالین میں ملک کی حفاظت میں تعینات رہے ہیں۔
ریٹائر صوبےدار دشرتھ منڈا، صوبےدار سیمون ہورو بتاتے ہیں کہ ویر سپوت بیٹے البرٹ کی زمین پر پہنچکر وہ لوگ فخر محسوس کرتے رہیں، لیکن اس کا دکھ بھی ہوتا رہا کہ شہید کے گاؤں کی جس رفتار سے ترقی ہونی چاہئے، وہ نہیں ہو پائی ہے، اس لئے جاری گاؤں اور اس جاں باز کے لئے ان سے جو بھی بن سکےگا، وہ کریںگے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جھارکھنڈ میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر, گراؤنڈ رپورٹ