خبریں

’امریکا نے کبھی پاکستان کی جمہوری حکومتوں کے ساتھ نہیں دیا‘

پاکستان میں کئی حلقوں نے وفاقی وزیرِ دفاع خرم دستگیرکے اس حالیہ بیان کو حقیقت پسندانہ قرار دیا ہے، جس میں وفاقی وزیر نے امریکا سے یہ شکوہ کیا تھا کہ واشنگٹن نے جمہوری پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی موثرکوششیں نہیں کیں۔

US_Pak_DW

پاکستانی وفاقی وزیرِ دفاع  خرم دستگیر نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بحران کی وجہ واشنگٹن کا پاکستان کے ساتھ ملٹری پارٹنرشپ پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔ ان کے خیال میں امریکا کو پاکستان کی جمہوری حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہییں اور مسائل کو باہمی طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ وفاقی وزیر کے خیال میں اس امریکی پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے اپنے روایتی اتحادی چین سے تعلقات بہت گہرے ہو گئے ہیں اور روس بھی اب اسلام آباد کے قریب آرہا ہے۔سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں خرم دستگیر کا یہ بیان حقیقت کا عکاس ہے۔

مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’امریکا نے پیشہ وارانہ تعلقات ہمیشہ سے ہی جی ایچ کیو سے رکھے۔ یہ اس وجہ سے بھی واشنگٹن کے لیے ضروری تھا کہ وہ خطے کو سمجھنا چاہتا تھا۔ پھر ان کو آرمی سے معاملات طے کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ اس لیے انہوں نے نہ صر ف پاکستان بلکہ کہیں بھی جمہوریت کی حمایت نہیں کی۔ جب کوئی جمہوری حکومت ختم ہوتی ہے یا اس کا تختہ الٹا جاتا ہے، تو یہ بیان ضرور آجاتا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ جمہوری حکومت بحال ہو لیکن یہ صرف زبانی کلامی ہی ہوتا ہے۔ عملی طور پر امریکا ایسا کچھ نہیں کرتا کہ جس سے یہ لگے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’آپ دیکھیں کہ پاکستان پر ساری پابندیاں یا سخت قوانین اس وقت نافذ کیے گئے جب ملک میں جمہوری حکومتیں تھیں۔ پریسلر ترمیم جمہوری حکومت کے دور میں آئی۔ براؤن ترمیم کے بارے میں بھی یہ ہی کہا جا سکتا ہے جب کہ موجودہ جمہوری دور کے دوران یہ فنانشل ٹاسک فورس والا معاملا آیا۔ تو یہ سارے اقدامات کسی وضاح کے طلب گار نہیں ہیں۔ میرے خیال میں اگر پاکستان میں بھی کوئی غیر جمہوری اقدام ہوتا ہے تو اس پر عملی طور پر امریکا کی طرف سے کچھ نہیں کیا جائے گا۔‘‘
پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کے خیال میں یہ صورتِ حال اس وجہ سے ہے کہ امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک کو معلوم ہے کہ حقیقی طاقت کس کے پاس ہے،’’جمہوری ادوار میں امریکا احکامات کو ماننا یا امریکی مفادات کا تحفظ کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ جمہوری دور میں پارلیمنٹ، میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کے وجہ سے ایسے اقدامات حکومت کے لیے مشکل ہوجاتے ہیں جو امریکا کے لیے فائدہ مند ہوں۔ لہذٰا آپ دیکھ لیں کے سارے امریکی نواز اقدامات آمروں کے دور میں اٹھائے گئے۔ ایوب خان نے امریکا کو فضائی اڈا دیا اور اسی دور میں یوٹو طیارہ والا کیس بھی ہوا۔ ضیاء کے دور میں امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ ملک کے طول و عرض پر پھیلے ہوئے تھے اور مشرف کے دور میں شہباز ایئر بیس امریکیوں کو دی گئی۔ اگر ملک میں جمہوری حکومتیں ہوتی تو یہ اقدامات ان کے لیے اٹھانا انتہائی مشکل ہوتا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا یہ صرف امریکا ہی نہیں بلکہ سارے ممالک بھی جی ایچ کیو کی طرف دیکھتے ہیں، ’’ایوب نے بھارت کو نو وار پیکٹ کی پیش کی۔ ضیاء نے بھارت کے ساتھ کرکٹ ڈپلومیسی کی اور مشرف آگرہ گیا۔ سعودی عرب بھی اب آرمی سے ڈیل کرتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ جمہوری حکومت نے فوج یمن بھیجنے سے انکار کر دیا تو ریاض نے پنڈی سے رابطہ کر لیا۔ اس کے بعد کی صورتِ حال سب کے سامنے ہے۔ یہاں تک کے اب چین بھی یہ ہی سوچ رہا ہے کیونکہ ملک میں پارلیمنٹ ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد مضبوط صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ جو کئی معاملات پر سوال و جواب کرتی ہیں۔ اس لیے اب بیجنگ کو بھی یہ بہتر لگتا ہے کہ وہ جی ایچ کیو سے ڈیل کرے۔‘‘

لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ امریکی رویہ گزشتہ ایک عشرے میں تھوڑا سا تبدیل ہوا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار ڈاکڑ توصیف احمد کے خیال میں اب امریکی جی ایچ کیو پر اس طرح بھروسہ نہیں کرتے جیسا کہ سرد جنگ کے زمانے میں کرتے تھے، ’’مشرف کے دور میں جب انہوں نے دوغلی پالیسی اپنائی اور بعد میں جب اسامہ والا واقعہ ہوا تو امریکیوں کا بھروسہ ختم ہو گیا۔ اب آپ بتائیں کہ اگر یہ بھروسہ اس کے بعد بھی قائم رہا تو کیری لوگر بل کس چکر میں آیا تھا۔ اس کی تو ساری شقیں جمہوریت کے حق میں تھیں لیکن اس وقت میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ سے مل گئے اور اس سارے معاملے کو خراب کیا۔ تو اوباما کے دور میں جمہوری حکومت سے معاملات گہرے کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں تھیں لیکن ٹرمپ کا معاملہ مختلف ہے۔ پھر امریکیوں کو بھی پتہ ہے کہ اصل طاقت کہاں ہے۔ تو یقیناً وہ ان سے تعلقات رکھیں گے لیکن اس میں وہ گرم جوشی نہیں ہو گی جو سرد جنگ کے دوران تھی یا دہشت گردی کی جنگ کے ابتدائی برسوں میں تھی۔‘‘