آپ سے ایک گزارش ہے۔ آپ کسی اینکر کو اسٹار ہونے کا احساس نہ کرائیں۔ مجھے بھی نہیں۔ ایسا کرکے آپ میڈیا کے اندر کے گناہ کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اینکر اب عوام مخالف غنڈے ہیں۔
ہمارا چینل اب کئی شہروں میں نہیں آتا ہے۔اس سے کام کرنے کے جوش و خروش پر بھی اثر پڑتا ہے۔ شہر کا شہر نہیں دیکھ پا رہا ہے، سنکر اداسی تو ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ غم ہوتا ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے آپ کے ذریعے بھیجے گئے ہر مسئلےکو رپورٹ نہیں کر پاتے۔ کئی لوگ ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ کوئی بیگوسرائے سے چلا آتا ہے تو کوئی ممبئی سے خبروں کو لےکر چلا آتا ہے۔ان کو لوٹاتے ہوئے اچھا نہیں لگتا۔ آپ میں سے بہتوں کو لگتا ہے کہ ہرجگہ ہمارے نامہ نگار ہیں۔ساتوں دن، چوبیسوں گھنٹے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ دلی میں ہی کم پڑ جاتے ہیں۔جن چینلوں کے پاس بھرپور وسائل ہیں ان کو آپ سے مطلب نہیں ہے۔آپ ایک اینکر کا نام بتا دیں جوصبح چار گھنٹے لگاکر سیکڑوں لوگوں کے میسیج پڑھتا ہے۔ اس لئے صبر کریں۔ میرا سوال سسٹم سے ہے اور مانگ ہے کہ سب کے لئے بہتر سسٹم ہو۔آپ میں سے کسی کے مسئلہ کو نہیں دکھا سکا تو تو آپ مجھے ضرور الزام دیں مگر بات سمجھئے کہ جو دکھایا ہے اسی میں آپ کا سوال بھی ہے۔
آپ کے میسیج نے صحافت کا ایک نیا ماڈل بنا دیا ہے۔اس کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور سلام کرنا چاہتا ہوں۔اسکول سریز، بینک سریز، نوکری سریز،آندولن سریز یہ سب آپ لوگوں کی بدولت ممکن ہوا ہے۔دو تین جنونی نامہ نگاروں کا ساتھ ضرور ملا ہے لیکن اس کا سارا کریڈٹ آپ عوام کو جاتا ہے۔دنیا کا کوئی نیوز روم اتنی ساری اطلاعات ایک دن یا ایک ہفتے میں جمع نہیں کر سکتا تھا۔ خاتون بینکروں نے اپنی ساری تکلیف بتاکر مجھے بدل دیا ہے۔ آپ سبھی کا بہت شکریہ۔ ہر دن میرے فون پر آنے والے سیکڑوں میسیج سے ایک پبلک نیوز روم بن جاتا ہے۔میں آپ کے درمیان کھڑا رہتا ہوں اور آپ ایک ماہر رپورٹرکی طرح اپنی خبروں کی دعوےداری کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے آپ پر فخر ہے۔ آپ سے پیار ہو گیا ہے۔ کل ایک بزرگ اپنی کار سے گئے اور ہمارے لئے تصویر لےکر آئے۔ ہمارے پاس نامہ نگار نہیں تھا کہ اس کو بھیجکر تصویر منگا سکوں۔اس لئے میری کسی بھی تعریف میں آپ جیسے لوگوں کی حصےداری زیادہ ہے۔ یہ بات میں آپ سے ووٹ لینے یا اچھی بات کہہکر الو بنانے کے لئے نہیں کہہ رہا۔ یہی سچ ہے اس لئے کہہ رہا ہوں۔
جب میڈیا ہاؤس ختم کر دئے جائیںگے یا جو پیسے سے لبالب ہیں اپنے اندر خبروں کو جمع کرنے کا انتظام ختم کر دیںگے تب کیا ہوگا۔اس کا جواب تو آپ ناظرین نے دیا ہے۔ آپ کا درجہ میرے فین سے کہیں زیادہ اونچا ہے۔ آپ ہی میرے مدیر ہیں۔ کئی بار میں جھنجلا جاتا ہوں۔ بہت سارے فون کال اٹھاتے اٹھاتے، اس کے لئے معافی چاہتا ہوں۔ آگے بھی جھنجلاتا رہوںگا مگر آپ آگے بھی معاف کرتے رہئےگا۔ یہی انتظام پہلے میڈیا ہاؤس کے نیوز روم میں ہوتا تھا۔ لوگوں کا رابطہ نامہ نگاروں سے ہوتا تھا۔ مگر اب نامہ نگار ہٹا دئے گئے ہیں۔ اسٹرنگر سے بھی اسٹوری نہیں لی جاتی ہے۔جب یہ سب ہوتا تھا تو نیوز روم خبروں سے گلزار ہوتا تھا۔ اب ان سب کو ہٹاکر اسٹار اینکر لایا گیا ہے۔
آپ سے ایک گزارش ہے۔ آپ کسی اینکر کو اسٹار ہونے کا احساس نہ کرائیں۔ مجھے بھی نہیں۔ ایسا کرکے آپ میڈیا کے اندر کے گناہ کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اینکر اب عوام مخالف غنڈے ہیں۔ میں یہ بات کسی جلد بازی سے نہیں کہتا، ایک دن جب آپ کے اندر کی سیاسی اور مذہبی دیوانگی رکے گی تب میری ہر بات یاد آئےگی۔ یہ اینکر اب ہر دن اقتدار کے اشارے پر چلنے والے نیوز روم میں پیش ہوتے ہیں۔ پرسون نے حال ہی میں کہا تھا کہ پی ایم او سے فون آتے ہیں خبروں کو چلانے گرانے کے لئے۔ کوبرا پوسٹ کے اسٹنگ میں آپ نے دیکھا ہی ہے کیسے پیسے لےکر ہندو مسلم کئے جاتے ہیں۔ اس سسٹم کے مقابلے آپ ناظرین نے جانے انجانے میں ہی ایک نیوز روم تیار کر دیا ہے جس کو میں پبلک نیوز روم کہتا ہوں۔ بس اس کو ٹرول اور ٹرینڈ کی ذہنیت سے بچائے رکھئےگا تاکہ خبروں کو جگہ ملے نہ کہ ایک ہی خبر بھیڑ بن جائے۔
میں نے سوچا ہے کہ اب سے آپ کی اطلاعات کی فہرست بناکر فیس بک پر ڈال دوںگا تاکہ خبروں کو نہ کر پانے کا احساس جرم کچھ کم ہو سکے۔ یہاں سے بھی لاکھوں لوگوں کے درمیان پہنچا جا سکتا ہے۔ ایسی باتیں کوئی اینکر پبلک میں نہیں کہتا مگر مجھے تو آپ لوگوں نے بنایا ہے۔اس لئے آپ سے کہہ رہا ہوں۔ کبھی آکر آپ میرا معمول دیکھ لیں۔ ایک نیوزروم کی طرح اکیلا دن رات جاگکر کام کرتا رہتا ہوں۔اس کے درمیان خودہی مایوسی ناامیدی سے جدوجہد کرتا رہتا ہوں۔ کوئی بندہ طاقت ور نہیں ہوتا ہے۔ جو طاقت ور ہو جاتا ہے وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں نہیں ہوں اس لئے چھوٹی چھوٹی باتوں کا اثر ہوتا ہے۔
آج کل اس مقبولیت کو نوچنے کے لئے ایک نئی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو میرا کرتا پھاڑتی رہتی ہے۔ یہاں تقریر وہاں تقریر کرانے والی جماعت۔ ایک دن اس سے بھی آزادی پا لوںگا۔آپ فکر نہ کریں۔سنیچر اتوار آتا نہیں کہ یاد آ جاتا ہے کہ کہیں تقریر کرنے جانا ہے۔اس کے لئے الگ سے تیاری کرتا ہوں جس کی وجہ سے خانگی زندگی پوری ختم ہو چکی ہے۔جلد ہی آپ ایسی تقریروں کو لےکر، آپ ایک آخری بار نہ سنیںگے۔سال میں دو چار سے زیادہ نہیں کروںگا۔ اگر آپ میرے دوست ہیں تو برائےمہربانی مجھے نہ بلائیں۔کوئی احسان کیا ہے تب بھی نہ بلائیں۔ میں اب اپنی آواز سنوںگا۔ رونے جیسی حالت ہو گئی ہے میری۔ اکیلا آدمی اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہے۔ گردن میں درد ہے۔ کمر کی حالت خراب ہے۔ چار گھنٹے سے زیادہ سو نہیں پاتا۔ ہرکوئی خبر بھیجکر اور بلانے کی تجویز بھیجکر مجھ پر نہ کہنے کے جرم کی ذمہ داری ڈال دیتا ہے۔ یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے ہیں۔
آپ سب مجھے بہت پیار کرتے ہیں، تھوڑا کم کیا کیجئے، وہاٹس ایپ کے میسیج ڈلیٹ کرتے کرتے کہیں ہسپتال میں بھرتی نہ ہو جاؤں۔اس لئے صرف ضروری خبریں بھیجا کریں۔ بہت سوچ سمجھ کر بھیجئے۔ مجھے زندگی میں بہت مبارکباد ملی ہیں، اب رہنے دیجئے۔ دل بھر گیا ہے۔کوئی انعام ملتا ہے تو روح سوکھ جاتی ہے کہ اب ہزاروں مبارکباد کا جواب کون دےگا، ڈلیٹ کون کرےگا۔ مجھے اکیلا چھوڑ دیجئے۔اکیلا رہنا اچھا لگتا ہے۔اکیلا بھڑ جانا اس سے بھی اچھا لگتا ہے۔ گڈمارنگ میسیج بھیجنے والوں کوبلاک کرتا ہوں۔ کئی لوگوں کو بلاک کیا ہے۔ جب نوکری نہیں رہےگی تب چیک بھیجا کیجئےگا! تو ظاہر ہے پبلک نیوز روم میں آئی خبروں کی پہلی فہرست۔
اتر پردیش میں بیسک ٹیچر ٹریننگ کورس ایک نصاب ہے۔ پرائمری اسکول میں استاد کی نوکری پانے کے لئے یہ کورس کرنا ہوتا ہے۔ پرائویٹ کالج میں ایک سیمسٹر کی فیس ہے 39000 روپے۔ریاستی حکومت ہرسیمسٹرمیں 42000 روپے بھیجتی ہے۔ مگر اس بار طالب علموں کے کھاتے میں 1800 روپے ہی آئے ہیں۔طالب علموں کا کہنا ہے کہ اگلے سیمسٹرمیں ایڈمیشن کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔آگرہ کے ایم ڈی کالج کے طالب علم نے اپنی پریشانی بھیجی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ اور سرکاری کالج کے طالب علموں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔طالب علم نے بتایا کہ بیسک ٹیچر ٹریننگ کا نام سیشن 2018 سے بدلکر ڈپلوما ان ایلمینٹری ایجوکیشن کر دیا ہے۔ اس میں ریاست بھر سے 2 لاکھ طالب علم ہوںگے۔ اب جب 2 لاکھ طالب علم اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے نہیں لڑ سکتے تو میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں کچھ کروں تو میں لکھنے کے علاوہ کیا کر سکتا ہوں۔ سو یہاں لکھ رہا ہوں۔
بہار سے 1832 کمپیوٹر اساتذہ چاہتے ہیں کہ میں ان کی بات اٹھاؤں۔ لیجئے اٹھا دیتا ہوں۔ یہ تمام پانچ سال سے آؤٹ سورسنگ کی بنیاد پر اسکولوں میں پڑھا رہے تھے۔ محض 8000 روپے پر۔ اب ان کو ہٹا دیا گیا ہے۔آٹھ مہینے سے دھرنے پر بیٹھے ہیں مگر کوئی سن نہیں رہا ہے۔ان کو یوم اساتذہ کے دن ہی ہٹا دیا گیا۔ کئی بار لوگ یہ سوچکر آؤٹ سورسنگ والی نوکری تھام لیتے ہیں کہ حکومت کے یہاں ایک دن پرماننٹ ہو جائےگا۔ ان کو آؤٹ سورسنگ اور کانٹریکٹ کی نوکری کو لےکر اپنی سیاسی سمجھ بہتر کرنی ہوگی۔ نہیں کر سکتے تو ان کو رام نومی کے جلوس میں جانا چاہئے جس پر آج کل ان 1832 کمپیوٹر اساتذہ کی بھوکمری سے زیادہ بحث ہو رہی ہے۔ ایسا کر کےوہ کم سے کم دیوانگی پرمبنی سیاست کے لئے بامعنی بھی بنے رہیںگے۔ نوکری اور تنخواہ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوگی کیونکہ خبطی سیاست اب پرماننٹ ہے۔اس میں ٹائم کٹ جائےگا۔تنخواہ کی ضرورت ہی نہیں پڑےگی۔ ویسے ان اساتذہ نے ایک ٹوئٹر ہینڈل بھی بنایا ہے جہاں وہ وزیراعلیٰ کو ٹیگ کرتے رہتے ہیں۔مگر کوئی نہیں سنتا ہے۔پچاس ایم ایل اے نے ان کے لئے لکھا ہے مگر کچھ نہیں ہوا۔ یہ رکن پارلیامان اور ایم ایل اے بھی کسی کام کے نہیں ہیں۔ خط لکھکر اپنا بوجھ ٹال دیتے ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں دیہی بینک کے افسر اور ملازم تین دنوں سے ہڑتال پر ہیں مگر ان کو کامیابی نہیں ملی ہے۔ریٹائر سے پہلے ایک لاکھ روپے کی تنخواہ ہوتی ہے اور ریٹائر ہونے کے اگلے ہی مہینے ان کی پنشن 2000 بھی نہیں ہوتی ہے۔بہت سے بزرگ بینکروں کی حالت خراب ہے۔کوئی 2000 میں کیسے جی سکتا ہے۔آپ رہنماؤں کی گاڑی اور کپڑے دیکھئے۔ عیاشی چل رہی ہے بھائی لوگوں کی۔ زبان دیکھئے غنڈہ کی طرح بول رہے ہیں۔ آپ کا رکن پارلیامان اور ایم ایل اے پنشن لیتا ہے اور آپ سے کہتا ہے کہ پنشن مت لو۔یہ معجزہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ آپ سیاسی طور پر باخبر نہیں ہے۔آخر ایسا کیوں ہے کہ حکومتیں کسی کی نہیں سنتی تو پھر کیوں ان دو کوڑی کے رہنماؤں کے پیچھے آپ اپنی زندگی لگا دیتے ہیں۔
کٹیہار میڈیکل کالج کے طالب علم لگاتار میسیج کر رہے ہیں۔ وہاں ڈاکٹر فیاض کا قتل ہو گیا تھا۔ کالج انتظامیہ خودکشی مانتا ہے۔ فیاض کے قتل کو لےکر طالب علم احتجاج کر رہے ہیں۔ کینڈل مارچ کر رہے ہیں۔ بہت تکلیف دہ سیاق و سباق ہے۔ گوپال گنج، کٹیہار میں بھی طالب علموں نے مظاہرہ کیا ہے۔ دوستو! اپنی لڑائی میں میرے اس مضمون کو ہی شامل سمجھنا۔ ملنے کی ضرورت نہیں ہے نہ بار بار میسیج کرنے کی۔ کاش وسائل والے چینل کے لوگ آپ کی خبر کر دیتے تب تک آپ اپنے گھروں سے ہر خبر چینل کا کنکشن کٹوا دیں۔ ایک روپیہ چینلوں پر خرچ نہ کریں۔
انور برخاست ہو گیا، انل بچ گیا۔ہانسی سے کسی قاری نے دینک بھاسکر کی کلپنگ بھیجی ہے۔ خبر میں لکھا گیا ہے کہ گورنمنٹ پی جی کالج انتظامیہ نے پروگریسیو اسٹوڈینٹ یونین کے ممبر انور کو برخاست کر دیا اور ایک دیگر ممبر انل کو خبردار کیا ہے۔اچھی بات ہے کہ تمام طالب علموں نے اس کی مخالفت کی ہے اور پرنسپل سویتا مان سے ملکر آندولن کی دھمکی دی ہے۔ بھاسکر نے لکھا ہے کہ کالج کے شعبہ تاریخ نے 22 مارچ کو بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی شہادت کے موقع پر تقریری مقابلہ کرایا تھا۔ پروگرام میں پروگریسیو اسوٹوڈینٹس فرنٹ کے ممبروں نے کتاب کی نمائش لگائی۔بھگت سنگھ کی جیل ڈائری، دستاویز اور دیگر ترقی پسند رسالے رکھے گئے۔ طالب علموں نے کہا کہ پرنسپل نے پروگرام کے دوران میں ہی سب ہٹوا دی۔ طالب علموں کا آئی کارڈ چھین لیا۔ اس کے بعد نوٹس لگایا گیا جس میں انور کا نام کاٹنے اور انل کو انتباہ دینے کی بات لکھی ہوئی ہے۔ طالب علموں نے مخالفت کی ہے۔ پرنسپل نے کہا کہ انور ڈسپلن کا پابند نہیں ہے۔اساتذہ کی بات نہیں مانتا ہے۔ دیوار پر پوسٹر چپکا دیتا ہے۔اس کو کئی بار خبردارکیا گیا مگر نہیں مانا۔ ہم نے بھاسکر کی خبر یہاں اتار دی۔
(بہ شکریہ قصبہ)